0
Monday 2 Dec 2019 02:12

سورج مغرب سے طلوع ہو تو ہرج کیا ہے!؟(3)

سورج مغرب سے طلوع ہو تو ہرج کیا ہے!؟(3)
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

گذشتہ سے پیوستہ
ملحد اور دیندار کے درمیان ایک چھوٹی سے لکیر ہے، یہ انتہائی باریک اور نازک سی لکیر ہے، اگر یہ لکیر ختم ہو جائے تو دیندار اور ملحد کا فاصلہ مٹ جاتا ہے، فاصلہ مٹنے سے دیندار بھی فوراً ملحد ہو جاتا ہے۔ یہ لکیر لوگوں کے ناموں، عبادتوں، کتابوں اور خاندانوں سے قائم نہیں ہے۔ یوں نہیں ہے کہ ایک شخص کا نام مسلمانوں والا ہو یا پابندی سے عبادات انجام دیتا ہو، قرآن مجید، انجیل یا زبور کی تلاوت کرتا ہو اور یا پھر کسی مسلمان خاندان، عیسائی فیملی یا یہودی گھر میں پیدا ہوا ہو تو وہ سیکولر اور ملحد نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آدمی کا نام مسلمانوں، یہودیوں   یا عیسائیوں والا ہو، عبادت بھی کرتا ہو اور مصحف انبیاء کا مطالعہ بھی کرتا ہو، لیکن وہ سیکولر اور ملحد بھی ہو۔

دیندار اور ملحد کے درمیان جو لکیر قائم ہے، وہ خالق کائنات کے وجود اور اس کے سامنے جوابدہی سے عبارت ہے۔ ایک دیندار انسان یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کائنات اور انسان کا ایک خالق ہے، خالق نے انسان کو دین کی صورت میں ایک نظامِ حیات کا پابند بنایا ہے اور انسان اس نظامِ حیات پر عمل کرنے کے سلسلے میں اپنے خالق کے سامنے جوابدہ ہے، جبکہ ملحد کائنات کے خالق، خالق کے بنائے ہوئے نظامِ حیات اور خالق کے سامنے جوابدہی پر کسی قسم کا یقین نہیں رکھتا۔ پس ایک دیندار انسان اگر کوئی کام کرتا ہے تو وہ خالق کے بنائے ہوئے نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنے خالق کو راضی اور خوش کرنے کیلئے اس کام کو انجام دیتا ہے، وہ صرف کام کو انجام نہیں دیتا بلکہ یہ بھی معلوم کرتا ہے کہ میں کیسے ایک اچھے کام کو انجام دوں، تاکہ میرا خالق مجھ سے خوش ہو جائے۔

مثلاً ایک دیندار آدمی یہ جانتا ہے کہ اس کا خالق غریبوں کی مدد سے خوش ہوتا ہے۔ لیکن وہ غریبوں کی مدد کیلئے چوری، ڈاکے، سود، جوئے اور رشوت کے پیسے اکٹھے نہیں کرے گا، چونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا خالق چوری، ڈاکے، سود، جوئے اور رشوت کے پیسوں سے خوش ہونے کے بجائے غضبناک ہوتا ہے۔ پس وہ اپنی حلال کی کمائی اور محنت مزدوری سے صدقہ، ذکواۃ اور خمس وغیرہ ادا کرے گا۔ وہ ایک پاکیزہ اور مقدس ہدف کیلئے وسیلہ بھی پاکیزہ اور مقدس ہی اختیار کرے گا، جبکہ ایک ملحد آدمی کو خالق، اس کے نظامِ حیات اور خالق کے سامنے جواب دہی سے کوئی غرض نہیں ہوتی، وہ اپنا کام  صرف اور صرف دنیاوی فائدے کیلئے انجام دیتا ہے۔ اس کے نزدیک ہر وہ شخص اور ہر وہ کام اچھا ہے، جس سے اسے فائدہ اور منافع حاصل ہو اور ہر وہ شخص اور ہر وہ کام برا ہے، جس سے اسے فائدہ اور منافع حاصل نہ ہو۔

مثلاً ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے شہنشاہ ایران بھی شیعہ تھا اور عوام   بھی یہی تھے، اس وقت ملحدین کی نگاہ میں سب سے زیادہ معزز و محترم اور  محبوب ایرانی تھے، چونکہ ایران کے تمام معدنی و آبی ذخائر اور انسانی وسائل کو ملحدین دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے اور اس وجہ سے یورپ، امریکہ و اسرائیل سب کا ایران سے یارانہ تھا، پھر جب انقلاب آیا اور ایرانیوں نے اپنے ذخائر اور وسائل پر غیروں کے قبضے کو مسترد کر دیا تو وہی ایران آج یورپ، امریکہ اور اسرائیل کے نزدیک ہر برائی کی جڑ ہے۔ اربابِ دانش اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ اگر آج بھی ایران اپنے ذخائر کے منہ یورپ، امریکہ اور اسرائیل کیلئے کھول دے تو دوبارہ ملحدین کی آنکھوں کا تارہ بن جائے گا۔

عراق کے صدام کو ہی لیجئے، جب تک وہ ان کے مفادات کی جنگ لڑتا رہا تو اسے مردِ مومن، مردِ مجاہد اور عرب دنیا کا لیڈر بنا کر پیش کیا جاتا رہا، میڈیا اس کے گُن گاتا رہا، لیکن جب وہ مزید فائدہ پہنچانے سے عاجز آگیا تو اسے رسوا کرکے موت کے گھاٹ   اتارا۔ اسی طرح آپ روس اور افغانستان کی جنگ کو ہی لیجئے، یورپی و امریکی  ملحدین نے اپنے منافع کیلئے روسی ملحدین سے جنگ لڑنے کی خاطر مسلمانوں کے جذبہ جہاد کی خوب سرپرستی کی، ہمارے اہلحدیث، سلفی، وہابی اور دیوبندی برادران کے دینی مدارس کو خصوصی طور پر مجاہد کہہ کر اسلحے سے لیس کیا اور جب ملحدین نے اپنا منافع حاصل کر لیا تو انہیں دہشت گرد بنا کر دنیا بھر میں پیش کیا، حالانکہ مدارس بھی وہی ہیں اور مسالک بھی وہی۔
   
آج یہ ملحدین ملکِ شام کی آمریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، وہاں جمہوریت قائم کرنے کے نعرے سے انہوں نے جنگ و جدال کرکے شام کو کھنڈر بنا دیا ہے، وجہ صرف یہی ہے کہ شام اپنے ذخائر کا منہ ان پر بند کئے ہوئے ہے، جبکہ دوسری طرف وہی ملحدین سعودی عرب کی آمریت سے بالکل خوش ہیں، وہ کبھی بھی سعودی عرب میں جمہوریت کی بات نہیں کرتے، چونکہ سعودی عرب کی آمریت ان کے منافع اور مفادات کو پورا کر رہی ہے۔ سعودی کنگ اگر آج امریکہ و یورپ پر دولت لٹانا بند کر دے  تو وہ بھی بشار الاسد کی طرح انسانیت کا مجرم، بدترین آمر اور جمہوریت کا دشمن کہلائے گا۔

اگر ملحدین کہیں پر کوئی رفاہی کام بھی کرتے ہیں تو وہ فائدہ اٹھانے سے خالی نہیں ہوتا، جیسا کہ اگر وہ ہندوستان، پاکستان، افغانستان وغیرہ میں رفاہِ عامہ کے نام پر اگر کچھ خرچہ کرتے ہیں تو خرچ کی یہ رقم خود انہی ممالک کی ہی لوٹی ہوئی   ہے، ہندوستان پر قبضے سے پہلے یورپ کا شمار فقراء میں ہوتا تھا، یہ ہندوستان  کے لوٹے ہوئے ہیرے اور جواہرات ہیں، جو آج یورپ کے محلات میں جگمگا رہے ہیں۔ وہ ایک طرف ہمارے بہترین دانشمندوں، ہنر مندوں اور قابل شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کرواتے ہیں اور دوسری طرف طالب علموں کو سکالر شپ دے کر ان کے دلوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں، وہ ہمارے بہترین دماغوں کو ملازمتوں کے نام پر لے جاتے ہیں اور ان سے کمپیوٹر کی طرح کام لے کر منافع اور مفادات حاصل کرتے ہیں۔ وہ پہلے ممالک پر حملہ کرکے انہیں کھنڈرات میں تبدیل کرتے ہیں اور پھر بینر اور کیمرے  لے کر ان ممالک کی تعمیرِ نو کیلئے آجاتے ہیں، یہ تعمیرِ نو مفت میں نہیں کرتے بلکہ  ان کی فیکٹریاں اور کمپنیاں تباہ شدہ ملک سے اس کی اجرت لیتی ہیں۔

ملحدین چونکہ صرف اپنا منافع اور فائدہ دیکھتے ہیں، ان کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف فائدہ اور منافع ہوتا ہے، چنانچہ یہ ہر قیمت اور بہانے سے اپنا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور فائدہ حاصل کرنے میں یہ بہت جلدی دکھاتے ہیں، چونکہ انہیں یہ خوف ہوتا ہے کہ ان کے مقابلے میں کوئی دوسرا آگے بڑھ کر فائدہ نہ اٹھا  لے۔ یہ اپنے منافعے اور فائدے کیلئے کسی بھی وقت کسی پر بھی ایٹم بم پھینک سکتے ہیں، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج تک دنیا میں دو مرتبہ ایٹم بم پھینکا گیا ہے اور دونوں مرتبہ انہوں نے ہی پھینکا ہے۔ نیز آج بھی دنیا بھر میں اگر کہیں ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے تو اس کا نقشہ انہی کا تیار کردہ ہے۔ اسی طرح کشمیر اور فلسطین کا تنازعہ انہوں نے اپنے مفادات کیلئے کھڑا کیا ہوا ہے، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ کتنا بڑا انسانی المیہ ہے۔

یہ انسانی حقوق صرف انہی انسانوں کو دیتے ہیں، جو ان کے مفادات کی تکمیل کریں اور ان کی انسانی ہمدردی کا حقیقی فائدہ صرف انہی لوگوں کو پہنچتا ہے، جو ان کے آلہ کار ہوتے ہیں، ورنہ ابو غریب جیل سے اٹھنے والی چیخیں، کشمیریوں کی فریادیں اور فلسطینیوں کی آہیں انہیں سنائی نہیں دیتیں۔ آج بھی کشمیر، فلسطین، عراق، افغانستان اور شام کی غربت، پسماندگی، بھوک، قتل و غارت اور مہاجرت انہی کی پیدا کردہ ہے، یہ اقوام کو تباہ کرنے کے بعد ان کے درمیان چندہ اور خیرات تقسیم کرکے انہیں مزید بیوقوف بناتے ہیں۔ ملحدین اپنے ذہنوں میں جو خواب رکھتے ہیں، انہیں پورا کرنے کیلئے وہ کسی تباہی اور انسانی المیے سے نہیں گھبراتے۔ انہیں یہ فکر نہیں ہوتی کہ کتنے انسان مارے جائیں گے بلکہ انہیں یہ فکر ہوتی ہے کہ فائدہ کتنی جلدی حاصل ہوگا۔ انہوں نے ہر طرح کے نظام اور ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کیلئے اختراع کیا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔باقی اگلی قسط میں۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 830207
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش