0
Thursday 26 Dec 2019 12:45

لائن آف کنٹرول پر بھارتی اشتعال انگیزیاں

لائن آف کنٹرول پر بھارتی اشتعال انگیزیاں
تحریر: طاہر یاسین طاہر

بھارتی حکومت اس وقت داخلی طور پر شدید سماجی دبائو میں ہے۔ ہمیں غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہوئے بھارتی سماج کے بیدار مغز افراد کی تحسین کرنی چاہیئے، جنھوں نے مودی سرکار کے شہری قوانین بل کی دھجیاں اڑا دیں اور برملا کہا کہ ریاست کے تمام شہری برابر ہیں۔ یعنی ہندو بھی مسلم برادری کے ساتھ برابر مودی سرکار کی متعصبانہ اور نفرت انگیز پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح نوجوان نسل مودی کو آڑے ہاتھوں لیے ہوئے ہے، حتیٰ کہ گذشتہ روز میں نے ایک ویڈیو میں دیکھا کہ ایک نوجوان بڑے ہی سخت لہجے میں مودی حکومت کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہا تھا، اس نوجوان کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا مودی حکومت کے ہاتھوں فروخت ہوچکا ہے اور بھارتی جنتا کو حقائق دکھانے کے بجائے یہ دکھا رہا ہے کہ سرحد پار، پاکستانی وزیراعظم کی کتنی بیویاں ہیں اور وہ کیا کیا کھاتی، پکاتی ہیں۔ اس نوجوان کا کہنا تھا کہ بھارتی جنتا کو اس سے غرض نہیں، ہمیں یہ دکھایا جائے کہ ہمارا اپنا وزیراعظم ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہا ہے۔ لہجے کی سختی اور غصہ نہ صرف بھارتی نوجوان نسل کے سیاسی شعور کی غمازی کر رہا تھا، بلکہ اس غصہ کا بھی آئینہ دار تھا، جو بھارتی سماج میں مودی حکومت کے خلاف پایا جاتا ہے۔

مودی نے حکومت میں آنے کے بعد تعلیم، معیشت اور دیگر صنعتی شعبوں پر توجہ دینے کے بجائے نفرت کی سلگتی آگ کو بھڑکایا، متنازعہ قوانین بنائے اور "ہندو توا" کے عملی نفاذ کی کوششوں کو تیز تر کر دیا ہے۔ آر ایس ایس، یعنی ہندو انتہاء پسند تنظیم کے غنڈے بھارتی پولیس کی وردیوں میں احتجاج کرنے والے ہندو مسلم افراد پر تشدد کرتے ہیں، یونیورسٹیوں اور کالجز میں ہنگامہ آرائی کرتے ہیں اور بھارتی حکومت اسے ریاستی رٹ کے قائم کرنے کا نام دیتی ہے۔ اصل میں مودی سرکار اس وقت شدید اندرونی و بیرونی دبائو میں ہے۔ اس امر میں کلام نہیں کہ بھارتی وزیراعظم انتہاء پسندانہ نسلی و مذہبی ذہنیت کا آدمی ہے اور اس شخص کی یہ طفلانہ حرکتیں بھارت سمیت خطے کو نئے مصائب میں مبتلا کر دیں گی۔ بہت سادہ بات ہے، جب حکومتیں اندرونی و بیرونی سطح پر دبائو کا شکار ہوتی ہیں اور حکومتوں کے خلاف احتجاج ہو رہے ہوتے ہیں تو عوامی توجہ کا رخ تبدیل کرنے کے لیے کئی ایک چالیں چلی جاتی ہیں۔ جن میں سے سب سے اہم اور کارگر چال ہمیشہ سے حب الوطنی اور مذہبی جذبات کو انگیخت کرنا ہوتا ہے۔

اندرون ملک شدید ترین حکومت مخالف احتجاج کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر عالمی برادری نے بھی بھارتی حکومت سے انسانی ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج کیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے دہلی تک، بھارتی فورسز ہیں اور انسانی جسم، جن پر بھارتی فورسز کبھی لاٹھی چارج کرتی ہیں تو کبھی آنسو گیس کی شیلنگ۔ اس احتجاج کے دبائو سے نکلنے کے لیے بھارتی حکومت مختلف زاویوں پر غور کر رہی ہے کہ شہرہت بل کا نفاذ بھی ہو جائے اور احتجاج بھی یوں ختم ہو کہ "ہندو توا" کا عملی نفاذ ہوسکے۔ ایسا مگر ممکن نہیں۔ یہ کوئی بھارتی فلم نہیں کہ چند ایام کی شوٹنگ کے بعد مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے جائیں۔ بڑی سے بڑی اور مضبوط سے مضبوط ترین ریاست کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے شہریوں کو ملک بدر کرے یا ان سے حق شہریت چھین لے۔

دو چار افراد سے سنگین جرم کی بنا پر ممکن ہے بعض ریاستیں حق شہریت چھین لیں، لیکن 25/20 کروڑ افراد کا حق شہریت ختم کرنا عملی طور پر ممکن نہیں۔ عملی طور ہر مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ہجرت کر جائیں، یا اپنے لیے اسی بھارت کے اندر ایک نئے ملک یا ریاست کے لیے جدوجہد کریں۔ بھارتی مسلمانوں کے لیے یہی کارگر ہے کہ وہ سیاسی عمل کو تیز تر کریں، ہندو سماج کے بیدار مغز افراد جو اس بل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، انہیں ساتھ ملا کر دنیا کی توجہ اس طرف دلائیں کہ بھارت میں انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں، بھارتی جعلی سیکولر ریاست کا چہرہ بے نقاب کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔

اندرونی دبائو سے بچنے کے لیے بھارتی حکومت نے ایک اور چال بھی چلی ہوئی ہے اور وہ ہے لائن آف کنٹرول پر مسلسل بلا اشتعال فائرنگ۔ اگرچہ لائن آف کنٹرول پر فائر بندی معاہدے کے بعد بھی بھارتی فورسز سینکڑوں بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کرچکی ہیں، مگر جب سے بھارت میں شہریت بل اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے متنازعہ بل منظور ہوا ہے، بھارتی فورسز کی لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی میں تیزی آئی ہے۔ اسی تناظر میں شاید چند روز قبل بھارتی آرمی چیف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر حالات کسی بھی وقت کشیدہ ہوسکتے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز کسی بھی قسم کی کشیدگی سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ کہ پاکستانی افواج کسی بھی قسم کی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔

اس کے بعد 21 دسمبر کو وزیراعظم عمران خان نے سخت بیان جاری کرتے ہوئے عالمی برادری کو خبردار کیا تھا کہ اگر بھارت کی جانب سے کوئی جعلی آپریشن کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کے پاس منہ توڑ جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل  میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں بتایا کہ گذشتہ 36 گھنٹے سے ایل او سی پر بھارتی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ سے پاک فوج کے 2 جوان شہید، جبکہ جوابی کارروائی میں 3 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔

بھارتی حکومت اور بھارتی فوج ہیجان کا شکار ہیں، انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ داخلی دبائو سے کیسے نکلیں۔ بھارتی حکومت نے اس کا آسان حل شاید یہ سمجھا ہو کہ لائن آف کنٹرول پر چار چھ روز کی جھڑپوں سے بھارتی سماج "حب الوطنی" کی چھائوں میں آرام سے بیٹھ جائے گا، مگر یہ بھارتی حکومت کی غلط فہمی ہے۔ بھارت نے اگر حالات خراب کیے تو اس کا خمیازہ بھارت سمیت پورے خطے اور دنیا کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ اس سے قبل کہ بارود کے ڈھیر پر سانس لینے والے ڈیڑھ ارب سے زائد انسان جل کر خاک ہو جائیں، عالمی برادری کے دردمند انسانوں کو بھارتی حکومت پر بھارت میں بننے والے کالے قوانین کو ریورس کرنے کے لیے دبائو ڈالنا چاہیئے۔ جنگیں تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں لاتیں، پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یہ ضمانت دنیا کا کوئی ملک نہیں دے سکتا کہ جنگ کے دوران غیر روایتی ہتھیار استعمال نہیں کیے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 834916
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش