0
Thursday 16 Jan 2020 22:22

افغان طالبان کی نئی حکمت عملی یا کچھ اور؟

افغان طالبان کی نئی حکمت عملی یا کچھ اور؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

حالات حاضرہ پر مسلسل لکھتے رہنا جوئے شیر لانے کے مترادف نہ سہی مگر اس سے کم بھی تو نہیں۔ یہ سوال اب بے معنی ہے کہ تیسری عالمی جنگ چھڑے گی یا نہیں؟ میرے نزدیک تیسری عالمی جنگ گذشتہ چار دہائیوں سے جاری ہے اور اس جنگ کا میدان مشرقِ وسطیٰ ہے۔ اس میدان میں اترنے والے"غول" بدلتے رہتے ہیں، مگر ان غولوں کی کمان کرنے والا ایک ہی ہے، جسے امریکہ کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ کبھی سوشلزم، مارکیست کے خاتمے، کبھی خدا پرستوں کے "فطری" اتحاد کے ساتھ لڑی گئی تو کبھی دہشت گردی کے خاتمے، انسانی حقوق کی سربلندی، جمہوریت کے استحکام اور کبھی "حقِ دفاع " کے نام پر ابھی تک جاری ہے اور یہ سلسلہ اب تھمنے والا نہیں، البتہ اس کے "ٹمپو" میں فرق ضرور پڑتا رہے گا۔

روس نے تو ٹوٹنا ہی تھا۔ اس کی وجہ صرف افغانستان پر روس کا حملہ نہیں بلکہ اس کا وسیع ریاستی نظام اور پھر اس پر سخت گیر مارکسی قوانین کا اطلاق انسانی جبلت کو گوارا نہ تھا۔ افغانستان پر روسی حملے کے بعد، امریکہ کے پاس نادر موقع تھا کہ وہ ایسے اتحادی تلاش کرے، جنھیں مذہب کے نام پر روس کے خلاف جارحانہ استعمال کرے، یہ امریکی خوش نصیبی تھی یا روس کی بدقسمتی کہ امریکہ ایسے اتحادی تلاش کرنے میں کامیاب ہوا۔ پاکستان میں جمہوری حکومت پر "حملہ آور آمر" ضیاء الحق نے امریکی خواہش کا احترام کیا۔ پاکستانی عوام کے اذہان کو اس بیانیے کی بھینٹ چڑھایا گیا کہ روس گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے۔ افغانستان کے بعد روس کا اگلا ہدف پاکستان ہے۔

ممکن ہے کہ روس کا پلان بی یہی ہو کہ وہ افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان کی طرف رخ کرے گا، لیکن یہ موقع نہیں آیا، بلکہ پاکستان نے بھی اپنے دفاع کے حق کو استعمال کرتے ہوئے امریکی ڈالروں، اسلحہ کی مدد سے افغانیوں کے قبائلی پس منظر اور مذہبی جذبات کو بروئے کار لایا اور اس جنگ کو جو افغانستان اور روس کے مابین تھی، اسے امریکی سرپرستی میں جہاد کا نام دے دیا گیا۔ سعودی عرب سمیت دیگر مسلم ممالک نے بھی اس بیانیے میں اپنا اپنا حصہ اپنے اپنے وسائل کے مطابق ڈالا۔ جنگ کا نتیجہ روس کے انہدام اور پاکستانی سماج میں افغانیوں کی بھرمار کی شکل میں سامنے آیا۔ پاکستانی سماج افغان مہاجرین کی آمد کے بعد اس نام نہاد جہاد کی قیمت ابھی تک چکا رہا ہے۔ پاکستانی سماج بری طرح توٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور ابھی تک سنبھل نہیں رہا۔ کلاشنکوف، ہیروئن، چرس اور دیگر سماجی برائیاں اسی وقت کی یادگار ہیں، جو اس سماج میں اب اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہیں۔ تاریخ کی پگڈنڈیوں پر سفر آسان نہیں ہوتا۔ پاکستانی سماج ابھی سنبھلنے کی کوششوں میں ہی تھا کہ نائن الیون کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا، جس میں سینکڑوں انسان لقمہء اجل بن گئے۔

اس واقعہ کے بعد امریکہ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور افغانستان میں چھپے بیٹھے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی "تلاش" میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔ جب 2001ء میں امریکہ نے اپنے اتحادی نیٹو کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت افغانستان پر افغان طالبان کی حکومت تھی اور اس حکومت کے سربراہ طالبان رہنما ملا عمر تھے، جن کی ہٹ دھرمی الگ سے ایک داستان ہے۔ اگر وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو جاتے تو ممکن تھا کہ امریکہ حملہ نہ کرتا۔ امریکہ نے القاعدہ سمیت، افغان طالبان کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ اس جنگ میں پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہے، اس جنگ میں پاکستان کا جو مالی و جانی نقصان ہوا دنیا کے عدل پسند اسے قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

پاکستانی سماج نے دہشت گردوں، خودکش بمباروں اور عالمی سازشوں کا بھرپور مقابلہ کیا اور بالآخر اس جنگ میں کامیابی حاصل کی۔ 2001ء کے بعد ابھی تک افغانستان میں امریکہ کی موجودگی خطے پر امریکی عزائم کی آئینہ دار ہے۔ میرا شروع سے یہ موقف رہا کہ امریکہ کے لیے ملا عمر، اسامہ بن لادن سمیت دیگر انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی گرفتاری یا انہیں ٹارگٹ کرنا چنداں دشوار نہیں تھا، نہ ہی امریکہ افغانستان کو مکمل فتح کرنے آیا تھا۔ وہ تجزیہ کار جو مقبول تجزیہ دیتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں جنگ ہار گیا، یا افغانوں نے کبھی شکست تسلیم نہیں کی، وہ ان اعداد و شمار کو نہیں دیکھتے، جو رلا دینے والے ہیں۔ گذشتہ چار عشروں میں جہاد کے نام پر افغان عوام دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ تیس سے چالیس لاکھ افغان اس جنگ کا رزق ہوگئے۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات ہونے جا رہے ہیں تو مجھے قدرے حیرت ہوتی ہے۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکراتی دفتر قطر میں کھولا گیا تھا، پھر اس دفتر کے توسط سے کئی دور مذاکرات کے ہوئے، لیکن سارے ناکام رہے۔ اس کی وجہ افغان طالبان کا قبائلی رویہ، عالمی سیاسی حالات سے صرف ِنظر و ٹیکنالوجی کے استعمال و افادیت سے عدم واقفیت اور سفارتی باریکیوں سے عدم آگاہی ہے، جبکہ امریکہ اپنی شاطرانہ چالوں سے ہمیشہ یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ جونہی افغانستان سے فوجیں نکالنے کے لیے سنجیدہ ہوتا ہے تو افغان طالبان ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ یہ امریکی "مجبوری" بن جاتی ہے کہ وہ افغان حکومت اور افغان عوام کے تحفظ کے لیے مزید قیام کرے۔ ہم جانتے ہیں کہ اوبامہ اور ٹرمپ نے اپنی اپنی انتخابی مہمات میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کا وعدہ بھی کیا تھا، مگر یہ وعدہ سیاسی دلجوئی کے سوا کچھ نہیں۔

تازہ خبر یہ گرم ہوئی کہ "طالبان نے افغانستان میں پرتشدد حملوں میں کمی پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔" یہ کہنا ہے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا جو ان دنوں ایران، سعودی عرب، عمان سے ہوتے ہوئے نیو یارک پہنچے ہیں۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ افغان طالبان امریکی افواج پر حملوں میں کمی لائیں گے، کیونکہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد افغان طالبان کو خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے زیر اثر ایران کی مکمل تائید و حمایت حاصل رہے گی اور وہ اپنے حملوں میں مزید تیزی لاسکتے ہیں، کیونکہ ان کا ہدف زیادہ سے زیادہ امریکیوں کا جانی و مالی نقصان کرنا ہے۔ دوسری وجہ مختلف افغان قبائلی دھڑوں کا جارحانہ مزاج اور کابل پر اپنی اپنی "مجاہدانہ فورس"، یا قبائلی اتحاد کی حاکمیت کا خواب ہے۔ یہاں اس امر کو فراموش نہ کیا جائے کہ امریکہ کی افغانستان سے روانگی کا مطلب مکمل فوجی انخلا نہیں ہے، بلکہ انخلا کے نام پر امریکی و اتحادی فوجوں کی آمد و رفت کے سلسلے کو سہل بنانا مقصود ہے۔

امریکہ کا  خطے میں بہت کام باقی ہے اور اس کے عرب اتحادی ابھی نہیں چاہیں گے کہ امریکہ خطے سے نکل جائے، نہ ہی امریکہ خود مکمل انخلا کے لیے یہاں آیا تھا۔ افغان طالبان کو امریکہ ابھی مذاکرات کی میز کا طواف کرا ہی رہا ہوگا کہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے گا، جس کو جواز بنا کر امریکہ مذاکرات معطل کر دے گا۔ یہی امریکی تاریخ ہے اور یہی افغان طالبان کا برسوں کا وظیفہ بھی۔ داعش کا قیام، لیبیاء، تیونس، مصر، شام و عراق میں بمباریاں یہ سب نشانیاں ہیں آئندہ کے منظر نامے کی، جو امریکہ نے ترتیب دیا۔ پاکستان سمیت خطے کے دیگر فیصلہ ساز ممالک کو موثر اور غیر جانبدارانہ کردارا نبھاتے ہوئے اس تباہ کن منظر نامے کو بدلنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ تیسری عالمی جنگ کی کئی جہات ہیں، جن میں سے ایک سفارتی محاذ اور میڈیا کے ذریعے دشمن کے اعصاب کو شل کرنا بھی ہے۔ افغان طالبان سمیت ایران و پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے ابھی کئی مشکل مراحل موجود ہیں۔
خبر کا کوڈ : 838917
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش