1
Saturday 8 Feb 2020 18:59

احسان اللہ احسان کا فرار، مضمرات اور خدشات

احسان اللہ احسان کا فرار، مضمرات اور خدشات
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

سانحہ آرمی پبلک اسکول میں بچوں اور اساتذہ کی شہادتوں نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس کے بعد قومی اتفاق رائے سے دہشت گردوں کیخلاف ضرب عضب آپریشن شروع کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں پورے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ نالخصوص کالعدم تحریک طالبان، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ صحابہ سمیت تمام تکفیری دہشت گردوں کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کیساتھ تعلقات کے ثبوت سامنے لائے گئے، قبائلی علاقوں میں کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہوں کے خفیہ ٹھکانے، ٹریننگ سنٹروں اور پناہ گاہوں کو تباہ کیا گیا۔ فوجی آپریشن کے ردعمل کو روکنے کیلئے پاکستان بھر میں شہری علاقوں میں کالعدم تنظیموں کے دفاتر، مدارس، مراکز اور سہولت کاروں کیخلاف انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہزاروں کارروائیاں کی گئیں۔ اس آپریشن کے تسلسل میں آپریشن ردالفساد اب بھی جاری ہے، جس کے نتیجے میں کالعدم جیش محمد، کالعدم جماعۃ الدعوۃ جیسی جہادی تنظیموں کو بھی پابندیوں کا سامنا ہے اور جہاد کشمیر کے نام پر بنائے گئے نیٹ ورکس کو ختم کر دیا گیا ہے۔

ان کامیابیوں میں سے اہم ترین کامیابی یہ قرار دی گئی کہ ٹی ٹی پی کے ترجمان نے خود کو قومی سلامتی کے اداروں کے حوالے کرکے اعتراف کیا ہے کہ وہ اور ان سے منسلک تکفیری دہشت گرد گروہ بشمول کالعدم سپاہ صحابہ، کالعدم لشکر جھنگوی بھارتی ایجنسی را کی مدد سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ اسرائیل سے بھی تعاون کے خواہاں ہیں۔ موجودہ حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوشش کے بعد اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی اگر کشمیر میں جہاد کا نام لے گا تو وہ کشمیر اور پاکستان کا غدار شمار ہوگا۔ دنیا میں یہ تاثر بہت حد تک زائل ہوچکا ہے کہ ہماری ریاستی پالیسی کسی قسم کے غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی کیلئے موثر ہے۔ لیکن اچانک کالعدم ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان کا اچانک اور پراسرار فرار نہ صرف ریاست کی نئی پالیسی کے لیے دھچکا ہے، بلکہ اس سے عوام میں احساس عدم تحفظ بھی دوبارہ پیدا ہو جائیگا۔

اس عدم تحفظ کے احساس کے نتیجے میں پاکستانی سوسائٹی دوبارہ منقسم ہو جائیگی اور قوم کا ایک بیانیہ اگر ترتیب دیا گیا تھا تو وہ متعدد بیانیوں کی صورت میں سامنے آئیگا۔ ریاستی اداروں پر لوگوں کا اعتماد کم ہو جائیگا۔ ضیاء دور میں جس طرح اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے امریکہ کا ساتھ دیکر افغان جنگ کی آگ میں پاکستان کو جھونکا گیا، وزیراعظم عمران خان اس کے منفی اور مضر اثرات کو ہمیشہ دہراتے رہتے ہیں، پھر جس طرح نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے امریکہ کا دوبارہ ساتھ دیا، اس سے پاکستان کا انگ انگ لہو لہان ہوگیا۔ ان دو فوجی آمروں کی امریکہ نواز پالیسیوں کیوجہ سے پاکستان دہشت گرد گروہوں کی آماجگاہ بن گیا، عام پاکستانی کی عزت، ناموس، جان، مال اور کاروبار سمیت ساری کی ساری زندگی ان درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی۔ سب سے منفی پہلو یہ تھا کہ پاکستانی شہری واضح طور پر ان قاتل گروہوں کے پیچھے ریاستی ہاتھ دیکھتے رہے، کڑتے رہے، مرتے رہے، دل برداشتہ رہے، لاکھوں کی تعداد میں ملک سے باہر جانے پر مجبور ہوئے، ہزاروں جنازے اٹھا چکے اور خوفناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور رہے۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول کے واقعہ کے بعد ضرب عضب کے نتیجے میں بڑی عمدہ تبدیلی یہی آئی کہ آہستہ آہستہ غیر ریاستی عناصر کو خارجہ پالیسی کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی ریاستی پالیسی بدل دی گئی۔ اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ جماعت اسلامی، جے یو آئی، دیوبندی مدارس سمیت کئی گروہوں کی جانب سے پاکستان کی سڑکوں پر اجتماعات، سوشل میڈیا اور مین اسٹریم ٹی وی چینلز کے ذریعے ان دہشت گردوں کی کاروائیوں کی توجیحات اور حمایت کا سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ لیکن اچانک اور پراسرار طور پر کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان کا فرار اور اس کی طرف سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا مبینہ آڈیو پیغام کہ پانچ فروری 2017ء کو ایک معاہدے کے بعد انہوں نے خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کر دیا تھا، میں نے تین برسوں تک اس معاہدے کی پاسداری کی، لیکن سکیورٹی اداروں نے انہیں بیوی بچوں سمیت قید کر لیا تھا، ان تین برسوں میں پاکستانی فوج نے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے اور معاہدے کی خلاف ورزی کی، جس کے بعد وہ اپنی رہائی کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوئے۔

دو منٹ طویل اس آڈیو پیغام کے مطابق احسان اللہ احسان مبینہ طور پر 11 جنوری کو بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ مبینہ آڈیو پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ پاکستانی اداروں اور فوج کے بارے میں اور اپنی گرفتاری اور فرار کے بارے میں مزید تفصیلات بعد میں دیں گے۔ عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق اس خبر کو سب سے پہلے ایک بھارتی اخبار نے بریک کیا تھا، لیکن پاکستان میں اس کا زیادہ نوٹس نہیں لیا گیا۔ اب جبکہ احسان اللہ احسان کی آڈیو سامنے آگئی ہے، تو اس پر سوشل میڈیا پر خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ تاہم پاکستان کا آزاد میڈیا، خصوصاً چینلز، اس پر تبصرے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ لوگوں کو آئی ایس پی آر کی خاموشی پر بھی تعجب ہے۔ حال ہی میں جس طرح موجودہ حکومت نے دو نہیں ایک پاکستان کے اپنے انتخابی نعرے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں، اسی طرح پی ٹی ایم کی طرف سے امریکی ایماء پر پاکستانی قوم کا ایک بیانیہ، احسان اللہ احسان جیسے دہشت گرد کے فرار سے تار تار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے اندر سے ہی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ دوبارہ سے غیر ریاستی عناصر کو ریاست کی طرف سے استعمال کرنے کی پالیسی کا اجراء کیا جا رہا ہے۔

غیر ریاستی عناصر کو کشمیر سمیت کسی بھی محاذ پر بھارت پر دباو ڈالنے والے اسے جہاد قرار دیتے ہیں، جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے احسان اللہ احسان کے فرار پر اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنانے والوں میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا ہے کہ اس فرار نے ایک نہیں بلکہ کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں، ہمیں اس فرار پر بہت تشویش ہے اور سوال یہ ہے کہ وہ اتنے ہائی سکیورٹی زون سے کیسے فرار ہوا؟، ساری جماعتوں کے مطالبے کے باوجود احسان اللہ احسان پر مقدمہ چلا کر اسے سزا کیوں نہیں دی گئی؟، اس مسئلے پر خاموشی کیوں ہے؟ کیا خطے میں کوئی نیا گیم ہونے جا رہا ہے؟، ہماری پارٹی اس مسئلے پر اجلاس بلائے گی اور فیصلہ کرے گی کہ اسے پارلیمنٹ میں اٹھایا جائے یا نہیں۔؟ عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رہنمء و ایم این اے بشریٰ گوہر کے خیال میں اس کا فرار نااہلی کی بدترین مثال ہے، یہ فرار سکیورٹی اداروں کی ملی بھگت اور اس اسٹیٹ پالیسی کا عکاس ہے، جس کے تحت ہم آج بھی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے فلسفے کی پیروی کر رہے ہیں اور طالبان دہشت گردوں کو دفاعی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

بشریٰ گوہر نے بھی اس فرار پر کئی سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ اتنے سارے معصوم انسانوں کے قاتل پر مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟ اسے ریاست کے مہمان خانے میں کیوں رکھا گیا تھا؟ کس نے اس کی فرار میں مدد کی ہے؟، اس کے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھا گیا، جیسا کہ وہ اسٹریٹیجک اثاثہ ہو؟ آئی ایس پی آر، کٹھ پتلی حکومت، میڈیا اور سیاست دان اس پر خاموش کیوں ہیں؟ میرے خیال میں اندرونی مدد کے بغیر وہ بھاگ نہیں سکتا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں، جہاں طالبان قیدی بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ کئی ناقدین یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کے بعد بھی حکومت نے مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے۔ معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر سید عالم محسود نے اس مسئلے پر کہا ہے کہ پہلے بنوں جیل کو توڑا گیا، کراچی جیل سے بھی قیدی بھاگے اور اب تو ایک نامی گرامی دہشت گرد، جس کے ہاتھ پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون ہے، وہ جی ایچ کیو کی حراست سے بھاگ گیا، مجھے ڈر ہے کہ خطے اور پختون علاقوں میں کوئی بڑا گیم ہونے والا ہے، جس میں ایک بار پھر تباہی ہمارے علاقوں کی ہوگی۔

جبکہ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب نے جرمن نشریاتی ادارے کو یہ کہا ہے کہ مجھے بھی میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چلا ہے، لہذا اس پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر یہ خبر سچی ہے تو بھی حکومت کی طرف سے بیان آنا چاہیئے اور اگر غلط ہے تو اس کی تردید آنا چاہیئے، تاکہ ملک میں جو چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں، وہ بند ہوسکیں۔ غیر جانبدار حلقے سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ سادہ نہیں، جتنا جنرل امجد شعیب قرار دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال جتنی جلدی واضح ہو بہتر ہے۔ کیونکہ احسان اللہ احسان کا کالعدم سپاہ صحابہ کے ملک اسحاق گروپ سے بڑا قریبی اور گہرا تعلق رہا ہے، جسے وہ کالعدم لشکر جھنگوی کے انڈر گراونڈ جانے والے دہشت گردوں کو دوبارہ منظم کرنے کیلئے استعمال کرسکتا ہے، کیونکہ احسان اللہ احسان کو پنجابی طالبان کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے، جو کہ ماضی میں کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان اور کالعدم جہادی تنظیم جیش محمد کا حصہ رہا ہے۔ عصمت اللہ معاویہ نے 2014ء میں ٹی ٹی پی چھوڑ دی تھی اور اسی نے احسان اللہ احسان اور سکیورٹی اداروں کے درمیان رابطہ کرایا، جس کے بعد احسان اللہ احسان نے اپریل دو ہزار سترہ میں ہتھیار ڈال دیئے اور ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ ٹی ٹی پی غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے کام کر رہی تھی۔

پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی کی کوکھ سے جنم لینے والے تکفیری گروہوں نے سب سے زیادہ اور براہ راست شیعوں کو نشانہ بنایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پالیسی کو سب سے زیادہ سی آئی اے، موساد اور سعودی عرب نے اسلامی انقلاب کے دنیا میں بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کیلئے استعمال کیا۔ بعدازاں اسی سے القاعدہ، جبھۃ النصرہ اور داعش جیسے گروہ وجود میں آئے، جنہیں عظیم تر اسرائیل منصوبے کی تکمیل کے لیے استعمال کیا گیا۔ داعش کو شکست دیکر بالواسطہ طور پر امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب کے خوابوں کو ناکام بنانے والے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر پاکستانی قیادت نے جس طرح خاموشی اختیار کی اور امریکی صدر کے وارے وارے گئے، اسرائیل کی حمایت میں صف اول کے دستہ کا کردار ادا کرنے والے سعودی شاہوں کی جس طرح ہاں میں ہاں ملائی۔ احسان اللہ احسان کے رہائی نما فرار سے یہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایک نئے اور پہلے سے زیادہ موثر و مضبوط اسلامی انقلاب کے اثرات کو روکنے کی جو منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، یہ فرار اسکا حصہ ہوسکتا ہے۔ شہادتوں کا سلسلہ شروع ہوگا، قید و بند عام ہوگا، لیکن مہدیؑ دوراں کے انقلاب کا مقدمہ قرار پانے والا انقلاب ناکام نہیں بنایا جا سکے گا۔

پاکستان جس قدر غیر ریاستی عناصر کی تیاری، تربیت، پشت پناہی اور ان کے استعمال سے معاشی، سیاسی، سماجی طور پر نقصان اٹھا چکا ہے، اس کے بعد ممکن نہیں کہ اس پالیسی کو دوبارہ اپنایا جائے، لیکن مشرق وسطیٰ کے حالات جس طرح دنیا کی سیاست کو متاثر کر رہے ہیں اور انقلاب امام زمانہ علیہ السلام کو روکنے کیلیے سعودی، صہیونی اور استعماری قوتیں جو سازشیں کر رہی ہیں، ساتھ ہی انقلاب امام خمینی کی پاکستان سے جس طرح حمایت کی گئی، ایک بار پھر نئے انقلاب کی بھی پاکستانی عوام نے بھرپور حمایت کی ہے، اس لیے ایک بار پھر غیور پاکستانی عوام کو اس انقلاب کی حمایت، محبت، نصرت سے روکنے کیلئے دوبارہ زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی کے تحت، اسرائیل، سعودی عرب اور امریکہ کی منحوس مثلث ہر قسم کے حربے استعمال کرسکتی ہے، احسان اللہ احسان کا فرار اس خدشے کو تقویت دیتا ہے، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ صحابہ سمیت تکفیری ایک بار پر صہیونیوں کا ساتھ دینگے، لیکن سری نگر میں شہید قاسم کی تصاویر اٹھائے مردہ باد امریکہ کے نعرے لگانے والے کشمیری بھائیوں اور دنیا میں یوم اللہ منانے والے اہل ایمان کو اللہ کی نصرت حاصل ہے، دشمن ایک بار پھر ذلیل ہوگا، اسرائیل تحلیل ہوگا، لشکر خدا کامیاب ہوگا، اللہ کی حاکمیت کا پرچم ضرور لہرائے گا۔
خبر کا کوڈ : 843417
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش