0
Saturday 15 Feb 2020 08:57

این آر سی ہندو راشٹر کے قیام کیجانب پیش قدمی

این آر سی ہندو راشٹر کے قیام کیجانب پیش قدمی
رپورٹ: جے اے رضوی

بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے، شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور وادی کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کا معاملہ لگاتار تنازعہ میں ہے۔ بی جے پی حکومت کے ذریعے اٹھائے گئے ان اقدام اور پھر ان کے خلاف داخل عرضی پر بھارتی سپریم کورٹ کے رویہ پر کئی اہم اشخاص نے سوال بھی اٹھائے ہیں۔ اب دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور لاء کمیشن کے سابق صدر جسٹس اجیت پرکاش شاہ نے سپریم کورٹ کے ذریعے سنائے گئے کچھ تازہ فیصلوں پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت عظمٰی اکثریتی طبقہ سے جڑے لوگوں کے جذبات پر قابو کر حکومت کے نظریہ سے عدم اطمینان ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’شہریت ترمیمی قانون، جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے، رام مندر، این آر سی‘‘ سمیت کئی ایشوز ایسے ہیں، جن پر سپریم کورٹ نے انصاف پر مبنی قدم نہیں اٹھائے ہیں۔ جسٹس اجیت پرکاش شاہ مجاہد آزادی اور گاندھی وادی شخصیت ایل سی جین کی یاد میں منعقدہ ایک جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کئی معاملوں کی سماعت سے متعلق ترجیحات طے کرنے میں بھی غلطیاں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی مواقع پر ایسا محسوس ہوا کہ عدالت کے پاس مفاد عامہ، شہری حقوق سے متعلق مقدموں کی سماعت کے لئے وقت نہیں ہے۔ اس میں تاخیر کی گئی۔ جسٹس اے پی شاہ نے جموں و کشمیر میں دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد کی حالت سے جڑی عرضیوں پر سماعت میں تاخیر کئے جانے پر خصوصی طور پر سوال اٹھایا۔

الیکٹورل بانڈ سے متعلق تذکرہ کرتے ہوئے جسٹس اجیت پرکاش شاہ نے کہا کہ اس پر روک لگانے کی جگہ عدالت نے سِیل بند لفافے میں تفصیلی رپورٹ منگوانے کو ترجیح دی۔ کئی انتخاب گزر گئے لیکن یہ کیس جوں کا توں بنا رہا۔ انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کی اس بات پر بھی حیرانی ظاہر کی، جس میں کہا گیا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون پر سماعت اسی صورت میں ہوگی، جب تشدد رک جائے گا۔ این آر سی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا رخ بھی جسٹس اے پی شاہ کے لئے اطمینان بخش نہیں رہا۔ انہوں نے اس سلسلے میں کہا کہ عدالت نے انہی لوگوں کو شہریت ثابت کرنے کو کہہ دیا، جو این آر سی سے متاثر تھے اور پریشان ہو کر عرضی دہندہ بنے تھے۔ اجیت پرکاش شاہ نے کہا کہ ایسا کرکے عدالت نے ایک طرح سے حکومت کی اس دلیل کو ہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جن کے پاس کاغذات نہیں ہیں، وہ غیر ملکی ہیں اور انہیں ملک سے باہر کر دیا جائے گا۔

ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کے لئے فیصلہ صادر کئے جانے پر جسٹس اجیت پرکاش شاہ نے کہا کہ اس فیصلے میں ایکویٹی ایک اہم ایشو تھا، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے پورا ججمنٹ ہی مشتبہ ہے، کیونکہ یہ اب بھی ایسا لگتا ہے جیسے ہندوؤں کے ذریعہ کی گئی غیر قانونی (پہلی بار 1949ء میں مسجد میں رام لیلا کی مورتیوں کو رکھنا اور دوسرا 1992ء میں بابری مسجد انہدام) کو قبول کرنے کے باوجود عدالت نے اپنے فیصلے سے غلط کرنے والے کو انعام دیا ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس اے پی شاہ نے کچھ دنوں پہلے بھی ایک انگریزی اخبار میں مضمون لکھا تھا، جس میں شہریت ترمیمی قانون پر چل رہے احتجاجی مظاہرہ کے مدنظر عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جسٹس شاہ نے لکھا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں ہو رہے مظاہروں میں کچھ بھی حیران کرنے والا نہیں ہے۔ مظاہرین کے ساتھ حکومتی مشینری کا سلوک مایوس کن ہے اور نجی طور پر مجھے عدالت کی آواز تقریباً ’’غائب‘‘ محسوس ہو رہی ہے یا پھر مضبوط حکومت میں عدلیہ کی آواز ’’دب‘‘ سی گئی ہے۔

ادھر سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف بھارت کی دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ بہار میں مسلسل دھرنا و احتجاج جاری ہے۔ دہلی کے شاہین باغ طرز پر بہار کے دارالحکومت پٹنہ کے سبزی باغ میں دھرنا و احتجاج کے پورے 42 دن ہوچکے ہیں۔ دھرنے پر موجود محمد ہلال الدین کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر سمیت حکومت کے بعض دیگر فیصلے نہ صرف یہ کہ دستورِ ہند کے مزاج کے خلاف ہیں بلکہ یہ عوام کو پریشان کرنے والے ہیں اور ان کی وجہ سے پورے ملک میں ایک افرا تفری کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندو راشٹر کے قیام کی طرف پیش قدمی کی راہ ہموار کرنے والا بنیادی فیصلہ ہے، وہیں ملک کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک تکنیک بھی ہے۔ ہر ہندوستانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ممکنہ قانونی وسائل سے اس قانون کے خلاف کھڑا ہو۔ ملک کی عظیم اکثریت اس قانون کو غلط سمجھتی ہے۔ عام بھارتیوں کی ایک اچھی تعداد اس قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

اس تحریک یا جدوجہد کی قیادت کوئی سیاسی یا مذہبی لیڈر نہیں کر رہا ہے بلکہ خود عوام کر رہی ہے اور طلبہ، نوجوان اور بطورِ خاص خواتین نے پورے عزم و ہمت کے ساتھ اس قانون کے خلاف تحریک چھیڑ رکھی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون غریبوں، اقلیتوں، دلتوں، قبائلیوں سمیت مظلوم طبقات کے خلاف ہے، اگر یہ سیاہ قانون ختم نہیں ہوا تو اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ مظاہرین نے یہ بھی کہا کہ این پی آر بھی انتہائی خطرناک عمل ہے، جسے فوری طور پر روکا جانا چاہیئے کیونکہ یہ این آر سی کا پہلا زینہ ہے اور اگر این پی آر لاگو ہوگیا تو گویا کہ این آر سی بھی لاگو ہوگیا۔ مظاہرین نے کہا کہ ہمیں سی اے اے کے ساتھ ساتھ این آر سی اور این پی آر کی بھی مخالفت کرنی چاہیئے اور ریاستی و مرکزی حکومت سے پُرزور مطالبہ کرنا چاہیئے کہ وہ اس ناپاک کام سے باز آئے۔

اس دوران بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے آلہ کاروں کے ذریعے شاہین باغ کے احتجاج اور احتجاجی دھرنے کو بدنام کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے بھی اپنائے جا رہے ہیں۔ شاہین باغ کے احتجاج کو کتنے امتحانات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دھرنے میں بیٹھی خواتین کے اسٹنگ کئے جا رہے ہیں کہ وہ کہیں پاکستان زندہ باد کا نعرہ تو نہیں لگا رہی ہیں۔ شاہین باغ میں کئی لوگوں نے اسٹنگ کئے مگر ہاتھ کچھ نہیں آیا، شاہین باغ میں گولیاں چلیں، پستول لے کر لڑکا پہنچ گیا، شاہین باغ میں احتجاج میں بیٹھی پُرامن خواتین پر ہندو انتہاء پسندوں کی جانب سے حملے کئے گئے لیکن شاہین باغ کا دھرنا پرامن ہی رہا، کوئی تشدد نہیں ہوا، پھر بھی اس دھرنے کے حوالے سے حکومت کے وزیر سے لے کر بی جے پی کے ممبران پارلیمنٹ نے کیا کیا نہیں کہا اور کیا۔ شاہین باغ کی احتجاجی خواتین کے تعلق سے گستاخانہ ریمارکس بھی کئے گئے اور ان کے مقام کو گھٹانے کی ہر کوشش کی گئی، شاہین باغ کے احتجاج کو سیاسی سازش کا حصہ تک قرار دیا گیا، لیکن یہ اعتراف نہیں کیا گیا کہ یہ حکومت کے خلاف عوامی ریفرنڈم ہے۔
خبر کا کوڈ : 844631
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش