0
Saturday 15 Feb 2020 10:19

اسے کیا کہیے؟

اسے کیا کہیے؟
اداریہ
آل سعود کی ڈکٹیٹر حکومت کے سخت ترین دباو میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے شیعہ آبادی سے تعلق رکھنے والے مرتجی قریریص کو ایسی سزا سنائی ہے، جس پر دنیا کی تمام عدالتیں اور انسانی حقوق کے دعوے دار انگشت بہ دنداں ہیں۔ مرتجی کی عمر اس وقت اٹھارہ سال ہے، اس کو آٹھ سال پہلے ایک احتجاجی مظاہرے میں گرفتار کیا گیا تھا، اس وقت اس کی عمر صرف دس سال تھی۔ آٹھ سال سعودی زندانوں اور عقوبت خانوں میں قید کرنے کے بعد ایک اور سزا سنائی ہے کہ وہ آئندہ آٹھ سال تک ملک سے باہر نہیں جا سکتا۔ ایک دس سالہ بچے کو آٹھ سال تک صرف اس جرم میں قید کرنا کہ اس نے ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی، کونسا انصاف ہے۔

ان آٹھ برسوں میں ایک بچہ نوجوان ہو کر عقوبت خانے سے باہر آرہا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کو اپنی معمولی نقل و حرکت کی آل سعود کی سکیورٹی فورسز کو اطلاع دینا ہوگی۔ ملک سے باہر جانے پر مزید آٹھ سال پابندی ہے، لیکن انسانی حقوق کے وہ ٹھیکیدار جو کتے بلیوں پر ہونے والے مظالم پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، کنویں میں گری کسی کتیا کو باہر نکالنے کا ریسکیو آپریشن میڈیا پر براہ راست دکھایا جاتا ہے، زخمی پرندے کو سردی سے بچانے اور برفباری میں گھرے بھیڑیئے کو بچانے والے شخص کو سوشل میڈیا ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے، لیکن آج مرتجی کے جیل میں گزرے آٹھ سال اور اب اس کے اظہار و بیان اور نقل و حرکت پر پابندی کسی میڈیا کا موضوع نہیں ہے۔

سعودی عرب میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تیس ہزار سے زائد قیدی بغیر کسی جرم اور وکیل کی رسائی سے محروم ہیں، جو جیلوں میں بند ہیں۔ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کی عمریں قانونی حد سے کم ہیں۔ آل سعود کی ڈکٹیٹر حکومت نے اپریل 2019ء میں بیک وقت پینتیس افراد کے سر آل سعود دشمنی کے جرم میں ان کے تن سے جدا کر دیئے۔ آل سعود انسانی حقوق کا قبرستان بن چکا ہے۔ بن سلمان ملک کے اندر اور ملک سے باہر ہر اس سعودی شہری کو قابلِ گردن زدنی سمجھتا ہے، جو اس کی پالیسیوں کا مخالف ہو، چاہے اسے جمال خاشقجی کی طرح سعودی سفارت خانے میں بلا کر ہی کیوں نہ قتل کرنا پڑے۔
خبر کا کوڈ : 844722
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش