1
Thursday 2 Apr 2020 19:08
یقینِ سحر

ہمارے نظام تعلیم میں شامل بیچاری اسلامیات

ہمارے نظام تعلیم میں شامل بیچاری اسلامیات
تحریر: سید منتظرِ

اللہ کتنے؟ ایک۔ ہمیں کس نے پیدا کیا؟ اللہ تعالیٰ نے۔ یہ زمین اور آسمان کس نے بنایا؟ اللہ تعالیٰ نے۔ ہم نے بھی بچپن سے یہی کچھ پڑھا اور سنا، چونکہ یہ سب باتیں ہمارے نصاب میں شامل بیچاری اسلامیات میں ہوتی ہیں، جو پاکستان کے تمام سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کے نصاب میں شامل ہے اور نہ صرف اسکولوں بلکہ کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب میں بھی اسلامیات شامل ہے۔ سوائے چند ایک (ماڈرن اور مہنگے) اسکولوں کے، جو مغرب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے خود اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ اسلامیات کو نصاب میں شامل کرنا اپنے لئے باعث توہین سمجھتے ہیں اور اُس کی جگہ موسیقی وغیرہ کو نصاب میں جگہ دے دی ہے اور اگر اُن سے ہمت کرکے پوچھا جائے کہ ایسا کیوں کیا تو تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور فلُاں ریسرچ کہتی ہے کہ موسیقی سننے سے بچے کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے(یہ ریسرچ کس لیبارٹری میں ہوتی ہے، اِس کا پتہ آپ کو کبھی نہیں ملے گا)۔

خیر اِس بات کو کبھی پھر مدعا بحث بنائیں گے۔ واپسی اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔ ہمیں اسکولوں کے ابتداء ہی سے نہ صرف اللہ کے بارے میں بلکہ مسلمان کی تعریف، عقیدہ توحید، نبوت و آخرت اور دین کے ارکان جیسے نماز، روزہ، زکواۃ وغیرہ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ پر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کبھی اِنہی موضوعات پر مضمون لکھنے کو آجائے تو کیسے ہمارے بچے اُسکے رٹّا(mugging up) لگا رہے ہوتے ہیں یا امتحان میں نقل کا سہارا لیتے ہیں۔ یا اگر کوئی غیر مسلم یا دہریہ(Atheist) ہم سے سوال پوچھ لے کہ تم کہتے ہو کہ اللہ ایک ہے؟ اور وہ ہر جگہ موجود ہے؟ تو مجھے اُس کے ہونے کی دلیل دو تو کیوں ہم اسے قائل نہیں کر پاتے(یہاں کٹھ حجت لوگوں کی بات نہیں ہو رہی کہ جن کو کوئی بھی دلیل دے دی جائے، انہوں نے نہیں ماننا) یا اگر وہ یوں پوچھ لے کہ کیا خدا اپنے جیسا ایک اور خدا خلق کرسکتا ہے؟ تو بجائے اُس کو جواب دینے کے(نبیوں، پیغمبروں کی سنت کے خلاف) ہم سیخ پا ہو جاتے ہیں۔

لہذٰا چند معروضات کی جانب آپکو متوجہ کرنا چاہتا ہوں
۱) جب ایک بچہ اپنے اسلامیات کے استاد سے سنتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اللہ ایک ہے اور وہ ہر جگہ موجود ہے، جھوٹ بولنا گناہ ہے، سود لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہے، ایک انسانیت کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب وہ اپنے گھر جاتا ہے یا معاشرے کو دیکھتا ہے تو سب اُس کے برعکس نظر آتا ہے، یعنی وہ دیکھتا ہے کہ ہمارا تو پورا نظام ہی سود پر چل رہا ہے(بینکاری نظام)، ہر طرف جھوٹ کی بوچھاڑ ہے یا یوں کہیئے جھوٹ تو فیشن میں ہے۔ انسان کی جان کی قیمت یمن و بحرین، فلسطین و کشمیر میں ایک ہی روز میں درجنوں مظلوم انسانوں کے قتل سے لگائی جاسکتی ہے تو پھر وہ بچہ سوچتا ہے کہ کیا مجھے جو اسکول میں پڑھایا جاتا ہے وہ غلط ہے، کیونکہ اگر واقعی اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے تو پھر یہ کھلے عام گناہ کیوں؟ اِن سب چیزوں سے وہ بچہ جو نتیجہ اخذ کرتا ہے، وہ یہ کہ بالعموم انسان اور بالخصوس مسلمان کے دو چہرے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ منافقت سیکھتا ہے اور اسکول و کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد معاشرے میں محض بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔

۲) اکثر جگہ تو یہ سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ اسلامیات کا نصاب پڑھانے والے استاد و پروفیسر خود اسلامی اصولوں کے پابند نہیں ہیں، مثلاً استانی جو کہ یہ تو پڑھاتی ہیں کہ پردہ کرنا عورت پر واجب ہے، مگر وہ خود پردہ نہیں کرتی یا استاد یہ تو پڑھاتے ہیں کہ داڑھی رکھنا سنتِ نبویﷺ ہے اور خود ان کے چہرے پہ داڑھی نہیں ہے اور بچوں کو تو نماز کی تعلیم دیتے ہیں، لیکن خود نماز نہیں پڑھتے تو پھر آپ خود سوچیئے کہ اُس بچے کے ذہن میں اسلام کی کیا تصویر بنے گی۔؟ اسکول انتظامیہ، کالجز اور یونیورسٹیوں کو چاہیئے کہ ویسے تو تمام ٹیچرز اور کم از کم اسلامیات کی تعلیم دینے کے لئے ایسے اساتذہ کو نوکری پر رکھیں، جو اسلام کے نام پر منافقت نہ کریں۔ جو بچوں کو پڑھائیں، اُس پر خود بھی عمل کرتے ہوں۔ تاکہ ہمارے تعلیمی نظام سے مومن بچے نکلیں، نہ کہ منافق (تاریخ شاہد ہے کہ اِن منافقوں نے اسلام کو کتنا نقصان پہنچایا ہے)

۳) ایک بہت بڑی وجہ خود ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ہے (بیڑہ غرق ہو انگریز سرکار کا، جو جاتے جاتے ہمارے لئے مخلوط تعلیمی نظام (Co-Education System) چھوڑ کر گئے، جس کے شاخسانے آج ہمارے سامنے ہیں)۔ آج ہمارے تقریباً تمام اسکولوں میں یہی نظام رائج ہے، جس کا مقصد بچوں کو غیر اسلامی اور مغربی ثقافتی سرگرمیوں کی جانب راغب کرنا ہے۔ یہ سسٹم محض اسکولوں تک ہی محدود نہیں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹوں میں بھی یہی سسٹم رائج ہے اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ لڑکے، لڑکیوں کے آپس میں پڑھنے سے اُن میں اعتماد بحال ہوتا ہے۔ پہلی دلیل عرض کرنے والوں کے لئے: اعتماد کا تو پتہ نہیں بہرحال جو آجکل اسکولوں اور کالجوں کے اسکینڈلز سامنے آتے ہیں۔ اُس کو سن کر دل دہل جاتا ہے (نوروز اور فاطمہ کا کیس کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے) میں نام لینا مناسب نہیں سمجھتا، لیکن پاکستان کے بڑے بڑے اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں جس قسم کی پارٹیاں اور فیسٹیولز ہوتے ہیں، اُن کے کلپس اگر کبھی آپ کی نظر کے سامنے آجائیں تو بے ساختہ آپ کے منہ سے استغفراللہ نکل جائے گا۔ ڈرگز کلچر اپنے بامِ عروج پر ہے۔

دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جی! مغرب کو دیکھئے اُن کا معاشرہ اِسی نظام پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے کس تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ دوسری دلیل دینے والوں کے لئے: اِس ترقی کا اندازہ امریکہ اور یورپ کے مختلف اسکولوں اور کالجوں میں طالبعلموں کے ہاتھوں اپنے ہی طالبعلم دوستوں پر آئے روز گن شوٹنگ کے واقعات اور بڑھتے ہوئے زیادتی کے کیسز (اگر کوئی اِس سے مطمئن نہ ہو تو جاکر گوگل کر لے، ایک لمبی چوڑی لسٹ سامنے آجائے گی) سے لگایا جاسکتا ہے اور ایسے واقعات دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرہے ہیں۔ اب اگر آپ اِس ترقی کی بات کر رہے ہیں تو ایسی ترقی کو دور سے سلام۔ اب ہم اُن سے سوال کرتے ہیں کہ بھئی غالب تو کسی مخلوط تعلیمی نظام سے فارغ التحصیل نہیں ہوئے یا کسی اسکول و کالج نہیں گئے۔ لیکن اُن کے فلسفہ توحید پہ موجود اشعار اچھے اچھوں کو ہلا دیتے ہیں، جس کا اندازہ اُن کے اِس شعر سے لگایا جا سکتا ہے۔
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں


اور ابن الحیشم، فارابی، بوعلی سینا، الخوارزمی، الکندی وغیرہ وغیرہ ان سب نے دنیا کو اپنی ایجادات سے حیران و پریشان کیا۔ یہ سب کسی مخلوط تعلیمی نظام میں نہیں پڑھے اور آج کی جیتی جاگتی مثال آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہیں کہ جن کی خالی سیاسی بصیرت اتنی ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سیاسی تجزیہ نگار ششدر ہیں کہ جو شخص آج تک کسی کالج و یونیورسٹی نہ گیا ہو، وہ ایسی بلند سیاسی بصیرت کیسے رکھ سکتا ہے؟ (سید علی خامنہ ای حوزہ علمیہ سے فارغ التحصیل ہیں) اس کا مطلب ایک چیز تو بڑی واضح ہوگئی کہ نہ تو یہ نظام ترقی دلاتا ہے اور نہ ہی اعتماد بحال کرتا ہے، ہاں اگر کرتا ہے تو بے حیا اور اپنے آپ سے بیگانہ کرتا ہے۔

اب جو بچہ ایسے تعلیمی نظام سے اسلامیات پڑھ کر نکلا ہو، وہ اپنے معاشرے کے لئے کتنا سود مند ثابت ہوگا، اس کا اندازہ بخوبی لگا یا جا سکتا ہے اور اِس کا اندازہ ہم آج اپنے معاشرے میں بخوبی کر بھی رہے ہیں۔ کبھی کبھار مجھے یوں گمان ہوتا ہے، چونکہ پاکستان اسلامی نظریئے کی بنیاد پر آزاد ہوا، اِسی لئے شاید یہ ہماری مجبوری ہے کہ اسلامیات ہمارے نصاب کا لازمی جزو ہے، وگرنہ ہم کب کا اسلامیات کو اپنے نصاب سے باہر نکال چکے ہوتے۔(خدا نہ کرے) خدارا اسلامیات کے ساتھ لاوارثوں جیسا سلوک نہ کریں اور اسلام کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہو کر اچھے مسلمان بنیں، تاکہ اپنے بچوں کے لئے مثال بنے۔ آخر میں دعا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کو اِس کی اصل روح کے ساتھ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ملکِ خدادادِ پاکستان کو روز بروز ترقی عطاء فرمائے۔(آمین)
خبر کا کوڈ : 854280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش