1
Thursday 23 Apr 2020 15:48

گلگت بلتستان ترقی یافتہ استعمار کی زد میں

گلگت بلتستان ترقی یافتہ استعمار کی زد میں
تحریر: ذاکر حسین میر 
Zakirmir5@yahoo.com

ہم استعمار‌، نوآبادیت (colonization) ‌اور سامراجیت (imperialism) کے الفاظ بہت سنتے اور استعمال کرتے آرہے ہیں۔ بعض لوگ استعمار کے لفظ سے زیادہ مانوس ہیں تو بعض colonization‌ اور imperialism جیسے الفاظ سے اپنی تحریر یا تقریر کو زینت بخشتے ہیں؛ جبکہ معنی کے اعتبار سے یہ تینوں الفاظ ایک ہی ہیں۔ اس کی مختلف صورتیں؛ استعمار قدیم، استعمار جدید اور ترقی یافتہ استعمار کے ناموں سے مشہور ہیں۔ ہم یہاں استعمار کی ترقی یافتہ شکل، جس سے آج کا انسان روبر ہے، کی تعریف پر اکتفا کرتے ہیں۔ سادہ اور واضح الفاظ میں ترقی یافتہ استعمار یا پوسٹ ماڈرن کلونائزیشن کا معنی سامراجی اور استبدادی طاقتوں کا آزادی اور ترقی کے نام پر کمزور اور غریب ملکوں کے منابع پر قبضہ جمانا یا ان کے سیاسی اور غیر سیاسی ایشوز پر مداخلت کرنا ہے۔

استعمار کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قدیم استعمار یا کلاسیک استعمار کا آغاز سولہویں صدی میں رنسانس کے ساتھ ہوا۔ یہ مدت جو 400 سال پر مشتمل تھی، کے دوران استعماری قوتیں ڈائریکٹ فوجی مداخلت کے ذریعے کمزور اور پسماندہ اقوام اور ملل پر مسلط رہی ہیں۔ اس طریقہ کار کی سب بڑی خامی یہ تھی کہ ایک طرف اس کے ساتھ سنگین فوجی اور جنگی اخراجات تھے، جبکہ دوسری طرف ان کے خلاف لوکل مزاحمتی تحریکیں ایک غیر متوقع چیلنج کے طور پر سامنے آتیں تھیں۔ یہی وجہ بنی کہ استعمار قدیم نے اپنے طریقہ کار پر نظرثانی کی اور  نیو کلونائزیشن یا جدید استعمار کے روپ میں منصہ شہود پر ظاہر ہوا۔ جنگ عظیم دوم کا خاتمہ اور ساتھ ہی دو طاقتوں امریکہ و روس کا ابھرنا اور یورپی طاقتوں کا انحطاط استعمار جدید کے وجود میں آنے کے اصلی اسباب ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر آنے والی اس بڑی تبدیلی نے یورپی ممالک کے روابط کو ان کی کالونیز کے ساتھ یا تو کمزور یا پھر سرے سے ختم کر دیا تھا۔ استعمار کے خلاف اٹھنے والی مزاحمتی تحریکیوں نے سامراج کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

استعمار جدید نے زمینوں پر قبضہ جمانے کی پالیسی چھوڑ کر ملکوں کی سیاست اور حکمرانوں کو اپنا تابع بنانا شروع کیا، باہر سے جنگ مسلط کرنے کی جگہ ملکوں کو داخلی جنگوں میں دھکیل دیا، علی الاعلان مداخلت چھوڑ کر ایجنسیوں کا جال بچھا دیا اور سول وار کو مضبوط بنانے کے لئے مختلف ملکوں میں تربیت یافتہ عسکری و غیر عسکری گروپ تشکیل دیئے۔ لیکن اس کے نتایج  بھی استعمار قدیم سے چنداں مختلف نہ تھے؛ وہی اخراجات جنہیں استعمار قدیم جنگوں میں خرچ کرتا تھا، استعمار جدید کو سول وارز میں خرچ کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ مقامی مزاحمتی تحریکوں کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ صورت اختیار کر گیا۔ یوں نیو استعمار نے دوبارہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا استعمار کی ایک ترقی یافتہ شکل سے روبرو ہوئی۔ استعمار کی ترقی یافتہ شکل کا پورا دھیان لوکل مزاحمتی تحریکوں کو دبانا اور ان کی جگہ ایسے گروہوں کو وجود میں لانا تھا، جو استعمار کو ایک انسان دوست، ترقی پسند، دلسوز اور تمام مسائل کے لئے مشکل کشا کے طور پیش کریں۔

اس طرح ترقی یافتہ استعمار کی پالیسی "تھوڑا  دو اور بہت کچھ لو" کی بنیاد پر آگے بڑھنے لگی، تاکہ لوکل اینٹی استعمار نہ صرف مخالفت چھوڑ دیں، بلکہ ہر سطح پر ان کا دفاع بھی کریں۔ استعمار کی ترقی یافتہ شکل میں مذہب، عقائد، کلچر، تہذیب و تمدن، تعلیم و تربیت اور لوگوں کے نظریات اصلی ٹارگٹ تھے، جن تک پہنچنے کے لئے ان کا بنیادی سہارا میڈیا تھا۔ آج کا میڈیا؛ پرنٹ، الیکٹرانک ہو یا سوشل ترقی یافتہ استعمار کی خدمت میں سرگرم ہے۔ گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت ایک طرف اور خطہ کی متنازع آئینی اور سیاسی حیثیت دوسری طرف، اس بات کا سبب بنی کہ عرصہ دراز سے عالمی طاقتوں کی نظریں اس علاقہ پر مرکوز ہوں۔ یہ علاقہ قدیم نوآبادیات کی زد میں تو پہلے سے ہی رہا ہے، لیکن استعمار نو کے بعد اب استعمار کی ترقی یافتہ شکل بھی اپنی پوری تیاری کے ساتھ یہاں مصروف عمل ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے بعد اس علاقہ کی اہمیت دوچنداں ہوگئی ہے۔

اپنے حال اور ماضی سے نابلد یہاں کی قوم ہمیشہ سے کسی مسیحا کی منتظر رہی ہے، جو یہاں کی تقدیر بدل دے۔ مقامی قیادت کا فقدان اور حکومت سے وابستہ توقعات نے اس قوم کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ترقی کے نام پر کہیں سے کوئی بھی آواز سنائی دے تو یہ قوم آنکھیں بند کرکے اس کا استقبال کرتی ہے۔ سچ پوچھیں تو گلگت بلتستان کے موجودہ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی بھی طاقت یہاں سے اپنے مفادات حاصل کرسکتی ہے۔ ترقی یافتہ استعمار کی نظریں یہاں کے پہاڑوں میں مخفی خزانوں، بڑے بڑے گلیشرز، یہاں سے بہنے والے دریاوں، خوبصورت سیاحتی مقامات، نایاب جنگلی جانوروں اور قیمتی پرندوں پر ہوں یا نہ ہوں، یہاں کی قدیم اسلامی اور دینی ثقافت پر ضرور ہیں۔ یہاں پر حاکم دینی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار وہ اہم ترین سرمایہ ہیں، جو ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہیں۔ ان اقدار کو پھیلانے میں مبلغ اسلام امیر کبیر سید علی ہمدانی، طوسی برادران اور شیخ علی برلمو جیسی شخصیات کا خون پسینہ شامل ہے۔

ان سخت موسمی اور غیر موسمی حالات اور خطرات کی پرواہ کئے بغیر ان ہستیوں نے ہر گاوں اور دیہات کا سفر کیا اور اس عظیم ثقافت کو گھر گھر تک پہنچایا، جس نے ایک مختصر عرصہ میں عرب جاہلی معاشرے کو دنیا کے لئے نمونہ عمل بنایا۔ یہی وجہ ہے اس پورے خطہ میں شادی کی محفل ہو یا دکھ درد باٹنے کی مجلس، ہمیں خدا کے آخری نبی سے محبت اور ان کی آل سے مودت کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں کے ادب کو ہی لیجیے؛ نثر ہو یا شعر، حمد و نعت ہو یا قصیدہ، مرثیہ ہو یا نوحہ، ادب کے تمام شہ پاروں میں اسلامی تعلیمات اور محمد و آل محمد سے عشق و محبت کے جام چھلکتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ قیمتی سرمایہ ہے، جس کی بدولت آج، جب دنیا نئی تہذیب کی چکی میں پس رہی ہے، یہاں پر شرم و حیا، والدین سے محبت، غریب پروری، خدا سے راز و نیاز، انسان دوستی، بڑوں کا احترام، خواتین کا احترام، چار دیواری کا احترام وغیرہ جیسے بے مثال اقدار حاکم ہیں۔

یہ اقدار جہاں اس قوم کی بقا اور سلامتی کی ضامن ہیں، وہاں ترقی یافتہ استعمار کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔ جب تک یہاں مضبوط دینی عقائد، تعلیم، مذہبی آگہی، شرم و حیا، غیرت دینی اور قومی و ملی حمیت زندہ ہیں، تب تک استعمار کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ یہاں اپنی اجارہ داری قائم کرے۔ یہاں کا مذہبی طبقہ، علماء اور دینی مدارس وہ مضبوط قلعے ہیں، جو ہمیشہ سے ان اقدار کی حفاظت کرتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ استعمار نے پہلے نمبر پر ہی انہی قلعوں کو نشانہ بنایا۔ استعمار کے دیسی آلہ کار ایک عرصہ سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ یہاں کے مذہبی طبقہ، علماء اور مدارس کو علم دشمن، ترقی مخالف، دقیانوسی، خوشحالی کے منکر، شدت پسند اور جاہل کے طور پر متعارف کرائیں، تاکہ اس طبقہ کے خلاف رائے عامہ ہموار ہو، جبکہ مجالس، محافل، دینی رسومات اور اجتماعات دوسرے نمبر پر ہوسکتے ہیں۔

 علاقے کی ترقی، خوشحالی، تعلیم اور فلاح کے نام پر گلگت بلتستان میں داخل ہونے والے ادارے اب اپنی اصلیت دیکھا چکے ہیں اور کسی حد تک ایک ایسے طبقہ کو سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو کمال جرات کے ساتھ یہاں پر حاکم دینی و مذہبی اقدار کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ یاد رہے کہ دین کو سمجھنے کے لئے سوال کرنا یا شخصیات اور اداروں پر تعمیری تنقید سے کسی کی مخالفت نہیں، لیکن جو لوگ استعمار کے آلہ کار ہیں، ان کا ہدف سمجھنا نہیں بلکہ الجھن پیدا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محکم دلائل کے ساتھ مسئلہ کو واضح کرنے کے باجود بھی یہ اپنی ہٹ دھرمی پر باقی نظر آتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو وہ دن دور نہیں کہ جب گلگت بلتستان کی ہر گلی سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو نام کے تو مسلمان ہوں گے، لیکن ان کی فکر استعماری ہوگی۔

استعمار جس حربہ کو یہاں بروئے کار لا رہا ہے، وہ میدانی جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس جنگ میں زمینوں اور وسائل پر نہیں بلکہ لوگوں کے افکار پر قبضہ جمایا جاتا ہے، جس کے بعد زمینیں خود بخود ان کے قبضہ میں چلی جاتی ہیں؛ کیونکہ یہاں جس ذہنیت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، وہ بیگانوں کی تہذیب کو قبول کرنے کے لئے مکمل آمادہ اور استعمار کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے میں کسی پس و پیش کا شکار نہیں ہے۔ ان حالات میں ہمیں چاہیئے کہ نرمی، سمجھ بوجھ ، بصیرت، مفاہمت اور دلائل کے ساتھ عام لوگوں کو یہ بات سمجھائیں کہ گلگت بلتستان میں ترقی کے نام پر جو سرگرمیاں عروج پر ہیں، انہیں یہ لوگ علاقہ کی خوشحالی کا نام دیں یا روشن خیالی کہیں، تعلیم کے نام پر کام کریں یا فلاح و بہبود کا لبادہ اوڑھ لیں، غربت کے خاتمہ کا نعرہ لگائیں یا آزادی کا شور مچائیں، انسانی حقوق کے قصیدے پڑھ کر سنائیں یا گلگت بلتستان میں خال خال نظر آنے والی زیادتیوں پر مگرمچھ کے آنسو بہائیں، یہ وہی استعمار اور سامراج کی ترقی یافتہ شکل ہے، جو گلگت بلتستان میں حاکم دینی، عقیدتی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
خبر کا کوڈ : 858520
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش