1
Friday 1 May 2020 23:05

آلِ سعود کا امریکہ سے 75 سالہ اسٹریٹیجک اتحاد خطرات کی زد میں

آلِ سعود کا امریکہ سے 75 سالہ اسٹریٹیجک اتحاد خطرات کی زد میں
ترتیب و تنظیم: ٹی ایچ بلوچ

امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلق کی اہم بنیاد تیل ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ نے ان دونوں ممالک کو متاثر کیا ہے۔ روس اور سعودی عرب کی تیل جنگ نے انرجی مارکیٹ کو بھی شدید متاثر کیا ہے جو پہلے ہی کورونا کی وبا کی وجہ سے دباؤ میں تھی۔ تیل کمپنیاں امریکا کی جی ڈی پی میں 8 فیصد حصہ ڈالتی ہیں جبکہ ایس اینڈ پی فائیو ہنڈرڈ انڈیکس میں تیل کمپنیوں کا حصہ 2.6 فیصد ہے۔ تیل مارکیٹ کے اس بحران کا امریکی معیشت پر اثر 2020ء کے بعد بھی برقرار رہنے کا امکان ہے۔ روس کے ساتھ معاہدے سے پہلے ہی سعودی عرب نے اپنے اداروں کو اخراجات میں 30 فیصد کمی کی ہدایت کردی تھی۔ سعودی حکومت کو اپنے بڑے منصوبے روکنا پڑیں گے اور ولی عہد کا وژن 2030ء بھی رک جائے گا۔ سعودی تیل سیکٹر میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد ملازمت کر رہے ہیں۔ اخراجات کے لیے سعودی عرب کو ویلتھ فنڈز سے خرچ کرنا پڑے گا اور شہریوں کو بھی مدد دینا پڑے گی۔ معاشی بحران مزید گہرا ہونے کی صورت میں سعودی عرب میں بدامنی کا بھی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب کا معاشی بحران پورے خطے کو متاثر کرسکتا ہے۔ مصر، سوڈان، لبنان، شام اور تیونس میں سعودی معاشی بحران کے اثرات فوری محسوس کیے جائیں گے کیونکہ ان ملکوں کے لاکھوں افراد کا روزگار سعودی عرب میں ہے۔

عالمی سطح پر طلب میں نمایاں کمی کی وجہ سے تیل کی پیداوار کم کرنے کی تجویز اوپیک پلس کے اجلاس میں 6 مارچ کو زیرِ بحث آئی۔ اس اجلاس میں اوپیک پلس ممالک کسی بھی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے کیونکہ اس اجلاس سے کچھ دیر پہلے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کا فون پر رابطہ ہوا تھا اور اس میں اہم ترین بات یہ تھی کہ یہ گفتگو 2 سربراہانِ حکومت کے درمیان روایتی سفارتی آداب سے ہٹ گئی تھی۔ عرب ویب سائٹ مڈل ایس آئی کے مطابق اس فون کال میں دونوں رہنما ایک دوسرے سے کافی ناراض نظر آئے۔ سعودی ولی عہد اس فون کال کے دوران بہت جارحانہ موڈ میں تھے اور پیداوار کم کرنے کا معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں محمد بن سلمان نے روسی صدر کو دھمکی دی کہ وہ پرائس وار شروع کردیں گے۔ روسی صدر اس دباؤ میں نہیں آئے اور یوں فون پر ہونے والا یہ رابطہ انتہائی بدمزگی کے ماحول میں انجام کو پہنچا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ سعودی ولی عہد نے صدر پیوٹن کے ساتھ فون پر رابطے سے پہلے وائٹ ہاؤس میں اپنے دوست اور صدر ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر کے ساتھ صلاح مشورہ بھی کیا تھا۔ جارڈ کشنر نے سعودی ولی عہد کو صدر ٹرمپ کے ایما پر مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی۔

اوپیک پلس کے اجلاس میں سعودی عرب نے روس کو کونے میں دھکیلنے کی پوری کوشش کی لیکن تیل کی پیداوار میں مجموعی طور پر 15 لاکھ بیرل یومیہ کٹوتی کا معاہدہ طے نہیں پا سکا۔ جس کے بعد سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافے کا اعلان کرکے قیمتیں گرا دیں اور صدر ٹرمپ نے سعودی اقدام کی تعریف کی۔ لیکن اب امریکا نے اپنے دہائیوں پرانے اتحادی سعودی عرب کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے تیل کی پیداوار اور سپلائی کم نہ کی تو وہ سعودی عرب سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں گے۔ امریکا کی جانب سے سعودی عرب پر تیل کی قیمتوں کے معاملے پر روس سے جاری محاذ آرائی ختم کرنے کا مطالبہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی رہنماؤں کو اس سلسلے میں الٹی میٹم جاری کردیا تھا۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق 2 اپریل کو ٹرمپ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم (اوپیک) تیل کی پیداوار میں کمی نہیں کرتی، اس وقت تک وہ سعودی عرب سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے قانون سازی روکنے میں بے اختیار ہوں گے۔

اس سے قبل کبھی بھی اس 75 سالہ اسٹریٹیجک اتحاد کے خاتمے کی دھمکی کے حوالے سے کوئی بھی خبر رپورٹ نہیں ہوئی اور اس کا بنیادی مقصد امریکا کی جانب سے تیل کی پیداوار کے تاریخی معاہدے کے حوالے سے دباؤ ڈالنا ہے جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی مانگ میں کمی ہوئی ہے اور اس تمام پیشرفت کو امریکا کی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے بریفنگ میں شریک امریکی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو یہ پیغام تیل کی پیداوار میں کمی کے اعلان سے 10 دن قبل دیا تھا اور اس دھمکی کا محمد بن سلمان پر اس حد تک اثر ہوا تھا کہ انہوں نے کمرے میں موجود تمام افراد کو باہر نکلنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ رازداری کے ساتھ گفتگو کو جاری رکھ سکیں۔ ٹرمپ کی ان کوششوں کا مقصد تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے بحران کے دوران امریکی تیل کی صنعت کو تباہی سے بچانا ہے جہاں کورونا وائرس کے سبب دنیا بھر کی معیشتوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔

یہاں امریکی صدر کے موقف میں بھی واضح طور پر یوٹرن نظر آ رہا ہے جو ماضی میں تیل کی پیداوار کم کر کے تیل کی قیمتیں بڑھانے پر تیل کی کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں امریکی عوام کو مہنگی توانائی و بجلی خریدنی پڑ رہی تھی۔ البتہ اب امریکی صدر خود اوپیک ممالک سے تیل کی پیداوار کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایک سینئر امریکی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب کو بتا دیا ہے کہ اگر انہوں نے تیل کی پیداوار کم نہ کی تو وہ امریکی کانگریس کو ان پر پابندیاں عائد کرنے سے نہیں روک سکیں گے اور اس کے نتیجے میں امریکی افواج کا سعودی عرب سے انخلا یقینی ہے۔ انہوں نے سعودی اور امریکی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو واضح طور پر پیغام میں کہا گیا تھا کہ ہم اپنی صنعت کا دفاع کر رہے ہیں جبکہ آپ اسے تباہ کر رہے ہیں۔ جب امریکی صدر سے رائٹرز نے بدھ کو ہونے والی گفتگو میں سوال کیا کہ کیا انہوں نے سعودی ولی عہد کو امریکی افواج کے انخلا کی دھمکی دی ہے تو انہوں نے کہا کہ مجھے انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے سعودی ولی عہد سے کیا کہا تو ٹرمپ نے جواب دیا کہ سعودی عرب اور روس کو معاہدے تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے، میں نے سعودی ولی عہد سے ٹیلی فون پر بات کی اور ہم پیداوار میں کمی کے معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ جب سعودی حکومت کے متعلقہ حکام سے اس سلسلے میں رابطے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا البتہ ایک سعودی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ معاہدہ اوپیک اور تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک کی خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے۔ انہوں نے امریکی اور سعودی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب، امریکا اور روس کا اوپیک اور تیل کی پیداوار میں کمی کے معاہدے میں اہم کردار ہے لیکن معاہدے میں شرکت کرنے والے 23 ممالک کے تعاون کے بغیر یہ ہونا ممکن نہ تھا۔ امریکی صدر کی جانب سے سعودی ولی عہد کو کی گئی کال سے ایک ہفتہ قبل ریپبلیکن سینیٹرز کیون کریمر اور ڈین سولیوان نے ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر سعودی عرب تیل کی پیداوار کم نہیں کرتا تو سعودی عرب میں موجود امریکی فوجی دستوں، پیٹریاٹ میزائل اور میزائل شکن دفاعی سسٹم کو ہٹا لیا جائے۔

اس موقع پر سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کی قیمتوں پر جاری کشمکش کے بعد اس قرارداد کی منظوری کے لیے دباؤ بڑھنے لگا تھا کیونکہ روس نے اوپیک کے تیل کی سپلائی کے معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے پیداوار کم کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے بھی تیل کی پیداوار تیزی سے بڑھاتے ہوئے عالمی منڈی میں تیل کی بٖڑے پیمانے پر ترسیل شروع کردی تھی۔ 12اپریل کو ٹرمپ کے دباؤ کے نتیجے میں امریکا سے باہر تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک نے تیل کی پیداوار میں کمی کے تاریخ کے سب سے بڑے معاہدے پر اتفاق کرلیا تھا۔ اوپیک، روس اور تیل پیدا کرنے والے دیگر اتحادیوں نے روزانہ کی بنیاد پر 97 لاکھ بیرل پیداوار کم کردی تھی جو عالمی پیداوار کا تقریباً 10 فیصد بنتی ہے اور اس سے سب سے زیادہ نقصان روس اور سعودی عرب کو ہوا کیونکہ آدھی سے زیادہ پیداوار ان ممالک سے کم ہوئی جہاں دونوں ہی ملکوں کو 25، 25 لاکھ بیرل کی پیداوار کم کرنے پڑی۔

عالمی سطح پر پیداوار میں 10 فیصد کمی کے باوجود دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں گرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور امریکی تیل کی قیمتیں گزشتہ ہفتے صفر ڈالر سے بھی نیچے چلی گئی تھیں کیونکہ تیل بیچنے والوں کے پاس اسے رکھنے کی کوئی جگہ نہیں رہی تھی۔ سال کے آغاز میں برینٹ کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل تھی لیکن یہ کم ہو کر 15 ڈالر فی بیرل تک آ گئی تھیں جو 1999 کے بعد سب سے کم قیمت ہے۔ اب تیل کی پیداوار میں کمی اور مختلف ملکوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد معمولات زندگی بحال ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔ ان مذاکرات کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن فی الحال یہ مذاکرات تیل کی پیداوار کے حامل ممالک پر امریکی اثر و رسوخ کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ امرکی سیکریٹری توانائی ڈین برولیٹ سے رائٹرز نے جب سوال پوچھا کہ کیا ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو امریکی افواج کے انخلا کی دھمکی دی تو انہوں نے کہا کہ امریکی صدر اپنے تیل کی پیداوار کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں جس میں ہماری جانب سے ان کی دفاع کی ضروریات سے دستبرداری بھی شامل ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر روس کو سبق سکھانے کے لیے سعودی عرب کو تیل قیمتوں کی جنگ میں دھکیلا تو قبر اپنی تیل انڈسٹری کے لیے بھی کھودی۔ اگر سعودی ولی عہد نے روسی صدر کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے تو نقصان خود بھی اٹھایا ہے۔ امریکا اور سعودی عرب میں اسٹریٹیجک شراکت کا آغاز 1945 میں اس وقت ہوا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز بن سعود سے امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کوئنسی پر ملاقات کی تھی۔ سعودی عرب نے امریکا کو اپنے تیل کے ذخائر تک رسائی دی تھی جس کے بدلے امریکا نے اپنی فوج کے ذریعے ان کے دفاع کا بیڑا اٹھایا تھا۔ اس وقت امریکا کے تین ہزار فوجی سعودی عرب کے مختلف اڈوں پر موجود ہیں اور امریکی بحری بیڑا خطے سے تیل کی برآمدات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ ہتھیاروں کی فراہمی اور ایران جیسے حریف سے تحفظ کے لیے سعودی عرب مکمل طور پر امریکا پر انحصار کرتا ہے۔ سعودی عرب کی ناکامی اور کمزوری گزشتہ سال اس وقت کھل کر عیاں ہو گئی تھی جب 18 ڈرونز اور 3 میزائلوں نے سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا اور امریکا نے ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا۔ لیکن نئی صورتحال اسلامی جمہوریہ ایران کیخلاف اسرائیل کی حمایت میں اتحاد بنانے والوں کو مایوسی کی گہری دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 860137
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش