9
Tuesday 12 May 2020 06:42

کورونا وائرس حفاظتی تدابیر صرف شیعہ مسلمانوں کیلئے!؟ 

کورونا وائرس حفاظتی تدابیر صرف شیعہ مسلمانوں کیلئے!؟ 
تحریر : محمد سلمان مہدی

جیسے ہی کورونا وائرس نامی مہلک وبائی مرض دنیا میں پھیلا، پاکستان میں حفاظتی تدابیر کے نام پر طویل دورانیے کا قسط وار ڈرامہ شروع ہوگیا تھا۔ اب اس کی تازہ ترین قسط کا پہلا منظر 11 مئی 2020ء پیر کے روز دیکھا گیا۔ وفاقی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کی تصاویر دیکھ لیں، کہیں بھی حفاظتی تدابیر پر عمل ہوتا نظر نہیں آیا۔ ملک بھر میں عوام الناس نے بازاروں کا رخ کیا۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی قطاریں، ٹریفک جام اور مارکیٹوں میں عوام کا ہجوم نظر آیا۔ صدر مملکت نے کمیٹی آف ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کے اجلاس کی صدارت کی۔ وزیراعظم عمران خان کو کورونا وائرس پر بریفنگ دی گئی۔ تصویر ملاحظہ فرما لیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ماسک فار آل مہم کا افتتاح کیا۔ تصویر دیکھ لیں۔ موصوف نے اپنی ٹیم کے ساتھ دفتر میں بیٹھ کر وزارت اطلاعات کے افسران تعلقات عامہ کے ساتھ وڈیو کانفرنس اجلاس کیا۔ اس کی بھی تصویر دیکھ لیں۔ قومی اسمبلی کا باقاعدہ اجلاس بھی ہوگیا۔

کورونا وائرس حفاظتی تدابیر نامی اس ڈرامے کی پچھلی قسط ماہ رمضان المبارک میں باجماعت نماز یا دیگر مذہبی اجتماعات کے لئے تیار کردہ بیس نکاتی طریقہ کار (ایس او پیز) کا اعلان تھا۔ رمضان سے پہلے باجماعت نماز، حتیٰ کہ نماز جمعہ تک پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے پابندی لگ چکی تھی تو رمضان میں ایسی کون سی نئی عبادت ہونی تھی کہ جو یومیہ فرض یا واجب نمازوں یا نماز جمعہ سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی!؟ کیا تراویح یا شبینہ کے اجتماعات نماز جمعہ کے اجتماعات سے زیادہ اہم تھے۔ سبھی کو معلوم ہے کہ تراویح کے عنوان سے جو نماز پڑھی جاتی ہے، یہ بھی فرض یا واجب نماز نہیں ہے۔ لیکن اس کے لئے خصوصی رعایت دی گئی، البتہ مشروط کا لاحقہ یا سابقہ بھی نتھی کر دیا گیا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے ان باجماعت نمازوں کے نمازیوں کو کاندھے سے کاندھا ملائے اور گھلتے ملتے بھی دیکھا۔

اس سے پچھلی قسط میں رائے ونڈ لاہور میں دیوبندی تبلیغی اجتماع ہوا۔ نہ صرف ملک بھر سے بلکہ دنیا بھر سے لوگوں نے اس میں شرکت کی۔ وہ تو بارش نے مجبور کر دیا کہ اجتماع کا دورانیہ مختصر کرنا پڑگیا۔ لیکن اس کے بعد ہوا یہ کہ دیوبندی تبلیغی جماعت کے یہ افراد مسلمان اکثریتی ملک پاکستان میں تبلیغ کے لئے ملک بھر میں پھیل گئے۔ یہ غیر مقامی پاکستانی اور ان کے ساتھ غیر ملکی بھائی بند اپنے اپنے شہروں سے اور ملکوں سے دور گھومتے پھرتے رہے، جبکہ حکومت لاک ڈاؤن کا ڈھنڈورا پیٹتی رہی۔ آخرکار یہ بھانڈا پھوٹا کہ رائے ونڈ کے اجتماع میں بھی کورونا وائرس میں مبتلا افراد نے شرکت کی۔ ان کی وجہ سے یہ وائرس ان کے ساتھیوں میں پھیلتا چلا گیا۔ بعض جگہوں پر انہوں نے ٹیسٹ اور کوارنٹین سے بچنے کے لئے طبی عملے اور پولیس پر حملے بھی کئے۔ بعض جگہوں پر ان کی مساجد اور مدارس کو ہی کوارنٹین مرکز قرار دے دیا گیا اور اگر کسی سرکاری مرکز پر رکھا گیا تو وہاں سے بھی بھاگ نکلنے کی خبریں آئیں۔ یہ سہولت بھی صرف دیوبندی تبلیغی جماعت کے لئے مخصوص رکھی گئی تھی۔

اس ڈرامے کی پہلی قسط تو یاد ہی ہوگی۔ جنوری 2020ء کے آخر تک کورونا وائرس نے جدید ترین سہولیات سے مالا مال دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب دنیا بھر میں امریکی و مغربی ذرایع ابلاغ چین چین کا شور مچا رہے تھے، تب بھی یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا، برطانیہ، اٹلی، فرانس، جرمنی وغیرہ میں یہ وبائی مرض تباہیاں پھیلا چکا تھا۔ لیکن پاکستان میں حکومتی و ریاستی حکام نے پوری دنیا سے لوگوں کو پاکستان آنے دیا۔ یہ لوگ بغیر کسی کوارنٹین کے معاشرے میں آزاد گھوم پھر کر اس مہلک بیماری کو پھیلا چکے تھے۔ ماہ فروری2020ء کے آخری ہفتے میں جیسے ہی ایران میں کورنا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی، اس سے بھی پہلے تفتان بارڈر کراسنگ بند کر دی گئی۔ اس کے بعد وقفے وقفے سے کچھ گھنٹوں کے لئے سرحدی راستہ کھولا جاتا۔ زائرین کو وطن واپسی پر فوری طور پر ریاستی حکام اور مرکزی حکومت کے ادارے کوارنٹین کے نام پر تحویل میں لے لیتے اور بغیر کسی سہولت کے انہیں نظر بند رکھا جاتا اور یہ بندش بھی زائرین کے لئے، ورنہ بزنس ویزا اور سرحد کے دونوں جانب نواحی علاقوں کے افراد کی آمد و رفت بغیر کسی کوارنٹین کے جاری رہی۔

کوارنٹین کے نام پر تفتان میں کم سے کم دو ہفتے رکھنے کے بعد زائرین کو صوبائی حکومتوں کی تحویل میں دے دیا جاتا۔ پھر وہاں بھی کم سے کم دو ہفتے رکھا جاتا۔ حتیٰ کہ منفی ٹیسٹ رپورٹ کے بعد بھی کوارنٹین مراکز میں ان کی قید کی مدت میں اضافہ کر دیا جاتا۔ ہمارے ایک دوست غیر ملکی مسافر بردار طیارے کی پرواز میں کراچی پہنچے۔ انہیں چند دن بعد پولیس گھر سے اٹھا کر لے گئی۔ سرکاری اسپتال میں معائنہ کروایا۔ وارڈ انچارج نے کہہ دیا کہ نہیں یہ شخص کورونا وائرس کے مریض نہیں تو پولیس اہلکار نے ڈاکٹر کو بلیک میل کیا کہ اسے کوارنٹین میں رکھو، ورنہ اس کے ساتھ آپکو بھی رکھیں گے۔  بالآخر انہیں دو ہفتے کوارنٹین میں رکھا گیا۔ مطلب یہ کہ پہلے سے طے کر لیا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی آڑ میں ایران کو اور پاکستانی شیعہ مسلمانوں کو بدنام کرنا تھا اور اس کے بعد مسلسل یہی ڈرامہ آج تک چلایا جا رہا۔

اب اس ڈرامے کی تازہ ترین قسط کا منظر یہ ہے کہ مقرر کردہ فاصلے کی رعایت کئے بغیر غیر فرض عبادات کے اجتماعات بھی ہو رہے ہیں، بازاروں میں عوام الناس کا رش ہے۔ کہیں سے بھی کورونا وائرس پھیلنے کا گویا خطرہ ہے ہی نہیں۔ اس مرتبہ بھی کورونا وائرس نے لکھ کر دے دیا ہے کہ وہ ان شاپنگ سینٹرز میں، سڑکوں اور بازاروں میں عوام کے ہجوم کو کچھ نہیں کہے گا، نہ ان کو لگے گا، نہ ان سے پھیلے گا، بلکہ اس مرتبہ بھی کورونا وائرس نے حکومت کو حلفیہ بیان دیا ہے کہ امیر المومنین، امام المتقین، خلیفۃ المسلمین حضرت علی (ع) ابن ابی طالب (ع) کے یوم شہادت کی مناسبت سے یوم علی ؑ کی مجالس اور ماتمی جلوسوں سے ہی پھیلے گا۔ ورنہ عزادار کم سے کم مقرر کردہ فاصلے یعنی سوشل ڈسٹینسنگ کی کوئی نئی قسم کی خلاف ورزی تو کرنے سے رہے۔ زیادہ سے زیادہ بھی خلاف ورزی کریں گے تو اتنی ہی جتنی مساجد میں، بازاروں میں اور حکومتی اجلاسوں میں یا تقاریب میں ہوتی رہیں ہیں اور اب بھی ہو رہیں ہیں۔  تو کورونا وائرس حفاظتی تدابیر کے حوالے سے اب بھی یوم علی ؑیا عزاداری کے اجتماعات ہی کیوں ہدف قرار دیئے جا رہے ہیں۔

حفاظتی تدابیر کا ہدف شروع سے شیعہ مسلمان کیوں ہیں!؟ ان کے لئے سرکاری مراکز میں ایک مہینے سے بھی زیادہ کوارنٹین کے بعد بھی ریاست و حکومت مطمئن نہیں ہو پائی، کیوں!؟ کیا صرف اس لئے کہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم راحیل شریف سعودی عرب میں ملازمت کر رہے ہیں!؟ یا پھر سعودی عرب نے سود پر کچھ رقم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں کریڈٹ کی ہے!؟ یا پھر امریکا و برطانیہ وغیرہ نے عالمی مالیاتی اداروں سے امداد کے نام پر فوری قرضہ دلوانے کے لئے یہ شرط لگائی تھی!؟ ریکارڈ کی درستگی کے لئے ایک اور مرتبہ دہرا دیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس میں مبتلا جو پہلا آدمی مرا وہ سعودی عرب سے آیا تھا اور دوسرا آدمی جو مرا، وہ متحدہ عرب امارات سے آیا تھا اور یہی نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات سے اب جو پاکستانی لوٹ رہے ہیں تو ہر پرواز میں چالیس تا پچاس فیصد پاکستانی کورونا وائرس کا مرض لے کر پاکستان آرہے ہیں۔

سابق سینیٹر وقار گلزار کی بہن نازیہ گلزار غالباً برطانیہ سے کورونا وائرس لے کر لاہور آئیں۔ وہاں ساٹھ افراد کی دعوت بھی کی۔ اسی طرح ضلع گجرات سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں اسپین، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک سے بھی لوگ آئے۔ امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سے کورونا وائرس لانے والوں کے اعداد و شمار بیان نہ کرنے کی حکومتی پالیسی پاکستان کے لئے کورونا وائرس سے زیادہ مہلک ہے۔ یہ انہی ممالک کی ڈکٹیشن ماننے کا نتیجہ ہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور افغانستان میں آج تک امن قائم نہیں ہو پایا۔ سعودی، اماراتی و امریکی خوشنودی کے لئے زائرین اور عزاداروں پر متعصبانہ و امتیازی پالیسی کا اطلاق کرنے والے اس عبرتناک ماضی سے سبق سیکھیں، ورنہ وہ خود اگلی نسل کے لئے عبرتناک سبق میں تبدیل ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.dawn.com/news/1556371/in-pictures-sops-out-the-window-as-pakistani-markets-open-after-weeks-long-hiatus
http://www.radio.gov.pk/11-05-2020/president-directs-it-ministry-to-improve-internet-accessibility-in-rural-areas
https://www.geo.tv/latest/287482-people-rush-to-markets-as-pakistan-eases-lockdown-restrictions
http://www.radio.gov.pk/11-05-2020/protection-of-publics-health-govts-foremost-priority-shibli
http://www.radio.gov.pk/11-05-2020/information-minister-launches-campaign-masks-for-all
http://www.radio.gov.pk/11-05-2020/business-advisory-committee-decides-to-continue-na-session-till-friday
https://www.dawn.com/news/1556362/crowds-traffic-jams-as-markets-open-across-pakistan-with-easing-of-lockdown
https://www.pakistantoday.com.pk/2020/03/18/ex-senators-sister-suspected-of-spreading-coronavirus/
https://nayadaur.tv/2020/03/former-senators-sister-accused-of-spreading-coronavirus-in-lahore/
https://www.dawn.com/news/1556225/ritual-na-session-on-covid-19-impact-gets-under-way-today
https://www.dawn.com/news/1556371/in-pictures-sops-out-the-window-as-pakistani-markets-open-after-weeks-long-hiatus
خبر کا کوڈ : 862113
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش