0
Wednesday 24 Jun 2020 12:33

جنگ یمن، ایک نیا موڑ

جنگ یمن، ایک نیا موڑ
اداریہ
منگل کے دن یمنی میزائلوں اور ڈرونز نے ریاض کے حساس فوجی علاقوں پر حملہ کرکے سعودی عرب اور اس کے حامیوں کو ایک نئی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ قدس بالیسٹک میزائل اور دور مار الذوالفقار میزائل اور صماد 3 ڈرونز نے واشنگٹن، تل ابیب اور آل سعود کے محلوں میں لرزہ پیدا کر دیا ہے۔ ریاض تک ان میزائلوں کی بغیر کسی بڑی رکاوٹ کے رسائی اور امریکی پیٹریاٹ کی طرف سے غیر محفوظ دفاع نے امریکہ کے کئی حواریوں کی نیندوں کو حرام کر دیا ہے اور امریکی کالونیوں میں خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی ہے۔ یمن کی عوامی رضاکار فورس انصار اللہ نے اگست 2019ء میں سعودی عرب کے اندر 1200 کلومیٹر میں مشرقی علاقے الدمام کو نشانہ بنایا۔

اس کے بعد ستمبر 2019ء میں سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات بقیق اور خریص پر حملہ کیا اور محفوظ ترین آرامکو تیل کمپنی کی پچاس فیصد پیداوار کو روک دیا۔ فروری 2020ء میں بھی یمنی مجاہدین نے کامیاب کارروائی انجام دی۔ ان تین بڑی کارروائیوں کے بعد منگل کے دن ریاض پر حملہ ایک ایسا حملہ ہے، جس کے متعدد پیغام ہیں۔ آل سعود حکومت کرونا کے بحران میں جنگ بندی کے اعلان اور وعدے کے باوجود یمنی شہریوں پر ہوائی حملے کرتی رہی، لیکن یمنی مجاہدین نے صبر و تحمل سے کام لیا اور بار بار کہتے رہے کہ سعودی عرب جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے، لیکن کسی علاقائی اور عالمی طاقت نے اس پر کان نہیں دھرا۔

انصار اللہ نے بالآخر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ریاض کو نشانہ بنایا۔ یمن کے مجاہدین نے ایک بار اپنے حالیہ حملے سے اس بات کا پیغام دیا ہے کہ یمن کمزوری اور خوف کی وجہ سے جنگ بندی کو قبول نہیں کرتا بلکہ وہ اس جنگ کو ختم کرنے پر یقین رکھتا ہے، لیکن اس کے لیے سعودی عرب کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ اس حملے سے یمن نے سعودی عرب کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے ڈرونز اور بیلسٹک میزائل اب شاہی محلات سے زیادہ دور نہیں ہیں، جس طرح امریکی آرامکو کو یمنی میزائلوں سے نہیں بچا سکے، اسی طرح سعودی شاہی محلات بھی محفوظ نہیں رہینگے۔
خبر کا کوڈ : 870673
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش