1
0
Wednesday 8 Jul 2020 23:08

طلبہ یونین۔۔۔۔۔ دائیں بائیں

طلبہ یونین۔۔۔۔۔ دائیں بائیں
تحریر: سید شکیل بخاری ایڈووکیٹ

طلبہ یونین کی بحالی اور تمام جماعتوں کا اسکے حق میں ہونے کے باوجود ابھی تک کن وجوہات کی بنیاد پر عمل درآمد نہ ہوسکا ہے، اس کے لئے سب سے پہلے دائیں بائیں بازو کی طرفداری اور یہ اصطلاح سمجھی جانا ضروری ہے، تاکہ اس کی وضاحت کی جائے کہ دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں سے کیا مراد لی جاتی ہے، اس کے بعد بہت ساری چیزیں آسانی سے سمجھی جا سکتی ہیں۔ قانون سازی کے حوالے سے اٹھارہویں صدی عیسوی میں فرانس کی پارلیمنٹ میں اجلاس ہوا، جس میں بادشاہ کے اختیارات میں کمی کرنے کے حق میں اور اختیارات برقرار رکھنے اور زیادہ کرنے کے حق میں بحث و مباحثہ ہوا، اس مباحثہ کے دوران پارلیمنٹیرینز کا ایک گروہ سپیکر کے دائیں جانب بیٹھ گیا، جو کہ بادشاہ کے اختیارات کے حق میں تھا اور دوسرا گروہ بائیں جانب جمع ہوا، جو کہ اختیارات میں کمی کا خواہاں تھا، اسی سے دائیں بازو اور بائیں بازو کی اصلاحات پیدا ہوئیں۔۔۔
 
دائیں بازو Right hand سے مراد ایسی جماعتیں جو روایتی نظام اور سوچ کی حامی سمجھی جاتی ہیں، یعنی جو رسم و رواج کو چھوڑنا نہیں چاہتے اور بتدریج تبدیلیوں کو پسند کرتے ہیں، لہذا کچھ لوگ ان کے بارے یہ خیال رکھتے ہیں کہ یہ ایسی سوچ کے حامی ہیں جو کہ نظریہ ترقی کے مخالف ہیں۔ بائیں بازو Left hand کے طرفدار ترقی پسند کا دعویٰ کرتے ہیں اور روایتی سوچ کے مخالف ہیں۔ دونوں سوچ کے حامل طبقے معیشت، سیاست اور سماجی نظام میں اپنی رائے اور نظریہ کو پروان چڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتوں میں ریڈیکل نظریات کی حامل کوئی بھی جماعت نہیں ہے، کیونکہ ایسی جماعتوں کا ووٹ نہیں ہے اور پاکستانی سیاست میں کامیابی ناممکن نظر آتی ہے، اس لحاظ سے یہ جماعتیں سنٹرل دائیں کی جگہ کو فل کرتی نظر آتی ہیں۔

اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں، طلبہ یونین کی بحالی کے لئے پچھلے دنوں لال لال لہرائے گا، نعروں کے ساتھ چند طلبہ روڈز پر آئے اور بحالی کا مطالبہ کیا۔ یہ طلبہ بائیں بازو کے طرفدار نظر آتے ہیں، یہ لوگ مذہبی جماعتوں کو کیونکہ دائیں بازو کی طرفدار جانتے ہیں، اس لئے یہ ان کے مخالف ہیں اور جامعات میں ان جماعتوں کی چودھراہٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لحاظ سے ان سرخ ہو سرخ ہوگا کے نعروں کو ایک طبقہ زیادہ پسند کرنے لگا، جبکہ اسلامی ملک میں یہ لوگ مغربی ثقافت اور تہذیب کے حامی نظر آتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کی بہت بڑی جگہ کم ہی بننے کے امکان نظر آتے ہیں۔ دونوں گروہ جامعات میں اپنی اپنی اجارہ داری چاہتے ہیں، اس لحاظ سے جب بھی بائیں بازو والے بحالی کے لئے آگے بڑھے تو دائیں والے پیچھے ہٹ گئے، جب دوسرے آگے آئے، تب پہلے والے پیچھے ہٹ گئے، اس لحاظ سے طلباء یونیں بحالی پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔

ہم چونکہ مسلمان ہیں اور پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، لہذا یہاں اسلامی نظریات و ثقافت کی ترویج کی حامل متدین و معتدل جماعتوں کو آگے آنا چاہیئے۔ طلبہ یونین پر پابندی کی وجوہات جو بھی ہوں، لیکن اس پابندی کی وجہ سے قومی سیاست کے میدان میں منجھے اور سلجھے ہوئے سیاستدانوں کا شدید فقدان آچکا ہے۔ طلبہ یونین سیاست سیکھنے کا بہترین پلیٹ فارم تھا، جس میں ایک کچے ذہن کے طالب علم کو سیاست سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یونین کا حصہ بننے والے طلباء یونین میں رہ کر بہت کچھ سیکھ جایا کرتے تھے اور قومی سیاست میں آکر اپنا بہترین کردار ادا کرتے تھے۔ آج کل سیاسی حلقوں میں جو بدتمیزی کا طوفان برپا ہے، اس کی بھی ایک وجہ طلبہ یونین پر پابندی ہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 873312
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نثار ترمذی
Pakistan
زبردست
ہماری پیشکش