1
Friday 17 Jul 2020 20:59

امریکہ طالبان امن معاہدہ اور افغانستان میں بڑھتی شدت پسندی

امریکہ طالبان امن معاہدہ اور افغانستان میں بڑھتی شدت پسندی
تحریر: سید عباس حسینی

جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا اور نیٹو اور امریکی فوجیوں نے افغانستان سے نکلنا شروع کر دیا تو توقع کی جا رہی تھی کہ اب اس ملک میں شدت پسندانہ اقدامات میں کمی واقع ہو گی اور مختلف افغان دھڑوں کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور طالبان کی جانب سے شدت پسندانہ اقدامت بڑھتے چلے گئے۔ تازہ ترین رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2020ء کے پہلے چھ مہینوں میں 1213 عام شہری جاں بحق جبکہ 1744 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف گذشتہ پانچ ماہ کے دوران طالبان نے افغانستان میں 5900 حملے انجام دیے ہیں جبکہ افغان حکومت نے طالبان کے خلاف 1600 فوجی آپریشن انجام دیے ہیں۔ طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں طالبان نے عہد کیا تھا کہ وہ شہری آبادیوں کو اپنے حملوں کا حصہ نہیں بنائیں گے لیکن حال ہی میں طالبان نے صوبہ سمنگان میں ایک اعلی سطحی سکیورٹی کمانڈر پر خودکش حملہ کیا جس میں 11 افراد جاں بحق اور 60 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ افغانستان میں اندرونی دھڑوں کے درمیان امن مذاکرات کے آغاز کیلئے افغان حکومت نے طالبان قیدیوں کو آزاد کرنے اور طالبان نے شدت پسندانہ اقدامات کم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

لہذا طالبان کی جانب سے شدت پسندانہ اقدامات میں اضافے نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے اور طالبان کن اہداف کے درپے ہے؟ افغانستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور بدامنی کا اصلی ذمہ دار امریکہ ہے کیونکہ ایک تو اس نے طالبان سے انتہائی ناقص معاہدہ انجام دیا ہے جبکہ دوسری طرف طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات اور اس سے امن معاہدہ طے کرنے میں افغان حکومت کو بھی شامل نہیں کیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس معاہدے میں امریکہ نے طالبان کو بعض ایسی مراعات دی ہیں اور ایسے وعدے کئے ہیں جن کی انجام دہی درحقیقت افغان حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے طالبان کو افغان جیلوں میں قید اس کے 5 ہزار قیدی آزاد کرنے کا وعدہ دیا تھا۔ دوسری طرف اس معاہدے میں طالبان کی جانب سے شدت پسندانہ اقدامات میں کمی لانے اور جنگ بندی برقرار رکھنے کی کوئی واضح حکمت عملی بھی طے نہیں کی گئی۔ مزید برآں، افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد بھی اس ملک میں بدامنی اور خانہ جنگی زیادہ ہونے کا باعث ہیں۔ لہذا طالبان سے امریکہ کا امن معاہدہ جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں اور وہ افغانستان میں امن لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

دوسری طرف طالبان بھی ایک ایسا گروہ ہے جو خودمختار نہیں اور اپنے فیصلے خود کرنے سے قاصر ہے۔ اس گروہ کے مرکزی رہنما بیرونی طاقتوں کے زیر اثر ہیں اور فیصلے کرتے وقت ان طاقتوں کی مرضی اور مفادات مدنظر قرار دینے پر مجبور ہیں۔ لہذا طالبان سے بھی یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ اپنے فیصلوں اور اقدامات میں سو فیصد ملکی مفادات کو پہلی ترجیح قرار دے گا۔ ایک اور اہم مسئلہ جس کی جانب توجہ ضروری ہے وہ طالبان کی جانب سے آئندہ امن مذاکرات شروع ہونے سے پہلے افغان حکومت کو دباو میں لا کر زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ ایسی رپورٹس بھی موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان نے تین صوبوں فراہ، قندوز اور غزنی پر قبضے کا منصوبہ بنا رکھا ہے تاکہ اس طرح مذاکرات کی میز پر مدمقابل سے ڈیل کرنے کی پوزیشن میں آ سکے۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ طالبان افغانستان میں ایک بار پھر امارت اسلامی قائم کرنے کے درپے ہے۔

افغانستان میں شدت پسندی اور بدامنی جاری رہنے کی ایک اور بڑی وجہ مقامی سطح پر سرگرم طالبان رہنماوں کی یکہ تازیاں اور مرکزی رہنماوں کے احکامات پر عمل نہ کرنا ہے۔ طالبان کے اندر بڑی تعداد میں چھوٹی چھوٹی ٹولیاں موجود ہیں جو اکثر اوقات اپنے علاقائی اور محدود مفادات کی خاطر ایسے اقدامات انجام دیتی ہیں جو مرکزی رہنماوں کی پالیسی کے مطابق نہیں ہوتے۔ اسی قسم کی طالبان کی علاقائی ٹولیاں ایسی بھی ہیں جو بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں جیسے سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور دیگر تکفیری گروہوں کے ساتھ مل کر داعش کے ساتھ تعاون کرنے میں مصروف ہیں۔ مذکورہ بالا تمام امور نے مل کر افغانستان میں قیام امن کو ایک انتہائی پیچیدہ اور چند پہلووں پر مشتمل عمل بنا دیا ہے۔ لہذا امریکہ کی جانب سے یہ دعوی کرنا کہ طالبان سے مذاکرات کا مقصد افغانستان میں قیام امن ہے ایک کھوکھلا اور منافتقانہ دعوی ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کا واحد راستہ مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز کو مضبوط بنانا ہے۔ اسی طرح مختلف سیاسی گروہوں میں باہمی اتحاد بھی انتہائی ضروری ہے۔ افغان گروہوں اور سیاسی جماعتوں کو اس اہم مقصد کے حصول میں ایکدوسرے پر اعتماد کرنے اور آپس میں تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 875052
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش