0
Wednesday 22 Jul 2020 04:00
طوری قبائل کیساتھ حکومتی رویہ سمجھ سے بالاتر ہے

شاملات مسائل کے حوالے سے علامہ عابد حسینی کا بڑے اجتماع سے خطاب

شاملات مسائل کے حوالے سے علامہ عابد حسینی کا بڑے اجتماع سے خطاب
رپورٹ: ایس این حسینی

گذشتہ روز سابق صدر تحریک حسینی علامہ یوسف حسین جعفری کی اہلیہ کی قرآن خوانی کے سلسلے میں منعقدہ ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے تحریک حسینی کے سپریم لیڈر علامہ سید عابد حسین الحسینی نے کہا کہ کرم میں طوری قبائل کے متعلق سرکار کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے، سرکار نے ہر دور میں عدل و انصاف کو بالائے طاق رکھ کر طوری قبائل کو اپنے جائز حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخالف فریق کبھی کہتا ہے کہ یہ زمین انہوں نے خریدی ہے، جس کا ثبوت ان کے پاس سٹامپ پیپرز کے طور پر موجود ہے۔ کبھی وہ انگریز کے تیار کردہ ریونیو ریکارڈ سے انکار کرتا ہے۔ کبھی جنگ کا سہارا لیکر طوری قبائل پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی کچھ اور کبھی کچھ اور سہارا لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخالف فریق سے ہمارا کوئی گلہ شکوہ نہیں، کیونکہ وہ لوگ تو اپنے نفع اور مفادات کی خاطر ایسا کرتے ہیں، جبکہ یہ دنیا میں اکثر ہوتا رہتا ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر انسان ہر جائز و ناجائز کا سہارا لیتا ہے۔

تاہم ہماری شکایت مقامی انتظامیہ سے ہے کہ یہ لوگ اپنی قبر اور قیامت کی فکر سے بے خبر اور جان بوجھ کر طوری قبائل کی مخالفت پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی طوری قبیلے کے جائز مطالبات کو نظر انداز کرتی اور مقابل فریق کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے۔ تحریک حسینی کے رہنماء نے کہا کہ انتظامیہ کچھ عرصہ پہلے پاڑہ چمکنی قبیلے کی زبان بولتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ یہ زمین چمکنی نے خریدی ہے، جن کے سٹامپ پیپرز ان کے پاس موجود ہیں۔ جواب میں جب ہمارے عمائدین نے کہا کہ سٹامپ پیپرز دکھائیں کہ کن لوگوں نے زمین بیچی، کتنی زمین بیچی اور جن لوگوں نے یہ زمین بیچی ہے، وہ لوگ اس کے مجاز بھی تھے اور اتنی ہی زمین بیچنے کے مجاز تھے، تو صحیح۔ ورنہ اگر سودا ہی باطل ہو اور بایع سرے سے مجاز ہی نہ ہوں، تو سودا ہی باطل ہے، جبکہ یہ واضح ہے کہ یہ شاملاتی اراضی ہے، جس پر بالش خیل کے شیعہ اور خار کلی کے سنی قبیلے کے فرد فرد اور بچے بچے کا حق ہے تو ایک شخص غیر کی زمین کیسے بیچ سکتا ہے۔

جب اس سے بات نہیں بنی تو اس کے بعد کہا کہ ایف آر (سنٹرل کرم) میں ریونیو ریکارڈ موجود نہیں بلکہ وہاں روایات لاگو ہیں۔ جواب میں جب اہلیان بالش خیل نیز تحریک حسینی اور انجمن حسینیہ اور ہمارے زعماء نے کہا کہ ٹھیک ہے، پہلے بندوبستی اور علاقہ غیر (ایف آر) کی ڈی مارکیشن کرائی جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ یہ زمین علاقہ غیر (ایف آر) میں واقع ہے یا کرم میں۔ اگر زمین کرم کی ہو تو یہ زمین اہلیان کرم، ورنہ اہلیان ایف آر یعنی چمکنی قبیلے کو دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پر بھی حکومت پس و پیش کرتی نظر آتی ہے۔ اس بات پر سرے سے توجہ ہی نہیں دیتی۔ اس کے بعد چمکنی قبائل نے بالش خیل پر پریشر ڈالنے کیلئے جنگ مسلط کی۔ بالش خیل نے اپنی ہی زمین پر ٹینٹ نصب کئے، فریق مخالف نے حکومت سے رجوع کرنے کی بجائے ڈائریکٹ طاقت کا سہارا لیتے ہوئے جنگ مسلط کر دی۔ حالانکہ ایک عشرے سے انہوں نے بالش خیل کی زمین پر سینکڑوں گھر تعمیر کئے اور مسلسل تعمیر کر رہے ہیں۔

بالش خیل نے قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے حکومت کو درخواستیں دیں، جبکہ یہ اتنے سرکش ہیں کہ انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لیکر جنگ مسلط کی۔ تین دن تک جنگ جاری رہی۔ مگر اس مرتبہ حکومت نے جانبداری اور ناانصافی کی حد ہی کراس کر دی۔ صدہ میں بیٹھ کر ایک ایس ایچ او نے مخالف فریق سے املا لیکر طوری قبائل کے چیدہ چیدہ رہنماؤں پر ایف آئی آر درج کراتے ہوئے جارح کو بے قصور جبکہ مظلوم فریق کو جارح اور ظالم ثابت کرنے کی کوشش کی اور یہ سب کچھ فریق مخالف نے خود ڈائریکٹ نہیں بلکہ سرکار کے کندھے پر بندوق رکھ کر گولی چلائی اور سرکار نے جارح کے سہولتکار کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی۔ علامہ عابد حسین الحسینی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہر طرف سے ناکامی کا سامنا ہونے کے بعد چمکنی قبیلے کے ترجمان بعض سرکاری افسران نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ شاملات کی اراضی چونکہ کسی خاص بندے کی نہیں، لہذا اسے جو بھی آباد کرے اور جو بھی قبضہ کرے، یہ اسی کی ہے۔

مگر یہ ان کی بھول ہے، کیونکہ کرم میں شاملاتی اراضی کے مالک کا تعین ہوچکا ہے۔ شاملاتی زمین بیشک کسی ایک فرد کی نہیں ہوتی، مگر ریکارڈ میں اس کے مالک قبیلے کا تعیین ہوچکا ہوتا ہے۔ اب اس حوالے سے یہ ثابت ہے کہ یہ زمین بالش خیل اور خار کلی کے اہلسنت قبیلے کے مابین مشترک ہے۔ ان دو قبائل میں بھی حصے اور بخرے متعین ہیں۔ تاہم ان کے لوگوں میں اگر قبضے پر مسئلہ ہوتا تو اس حوالے سے ایسی بات کسی حد تک ممکن تھی۔ تاہم پاڑہ چمکنی کیلئے تو کوئی صورت ہی نہیں بنتی۔ علامہ عابد حسین الحسینی نے عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بالش خیل کی زمین آپکے لئے ٹیسٹنگ پوائنٹ ہے۔ اسی پر آپ کو آزمایا جا رہا ہے۔ لہذا آپس میں اتفاق اور اتحاد رکھیں، اس کے لئے متحد ہوجائیں۔ اب الحمد للہ قوم، انجمن اور تحریک متحد ہے۔ وہ ہر فورم پر واشگاف انداز میں اپنے جائز مطالبات پیش کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپ لوگ کبھی یہ نہ کہیں کہ یہ مسئلہ ہمارا نہیں، بلکہ بالش خیل کا ہے۔ انہوں نے سرکاری اداروں میں موجود بعض کالی بھیڑوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اسلام اور پاکستان سے کوئی واسطہ نہیں، بلکہ وہ یہود اور ہنود کے ایجنٹ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 875747
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش