0
Friday 24 Jul 2020 10:35

شام میں انتخابات، مثبت پیشرفت

شام میں انتخابات، مثبت پیشرفت
اداریہ
شام میں 19 جولائی کو منعقد ہونیوالے انتخابات انتہائی پیچیدہ حالات میں انجام پائے۔ ایک ایسا ملک جو عالمی اور بعض علاقائی ممالک کی سازشوں کا شکار رہا ہے، جس کا انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہوا ہے، لاکھوں شامی شہری مہاجر اور آوارہ وطن ہوچکے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب بعض شہروں میں اب بھی دہشت گردوں کا قبضہ ہے، انتخابات کا انعقاد قابل تحسین ہے۔ شام میں گذشتہ دس برسوں میں پانچ مختلف انتخابات منعقد ہوچکے ہیں، جن میں دو پارلیمانی اور تین بلدیاتی انتخابات شامل ہیں۔ حالت جنگ میں اس طرح کے انتخابات کا تسلسل ایک ایسی پیشرفت ہے، جو ان علاقائی ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، جہاں جمہوریت کی جیم تک نہیں ہے اور ان ممالک کے جمہوریت سے محروم عوام نے انتخابات کو شاید خواب میں بھی نہیں دیکھا ہے۔

شام کی قومی اسمبلی کی 250 نشستیں ہیں اور ان انتخابات میں شرکت کے لیے آٹھ ہزار افراد نے رجسٹریشن کی تھی، تاہم 1658 افراد کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے۔ شام کے چودہ صوبوں میں انتخابات منعقد ہوئے اور شام کے 95 فیصد علاقوں میں پولنگ بوتھ بنائے گئے۔ تاہم بیرون ملک شامی شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا۔ دہشت گردی کے شکار اس ملک میں انتخابات کا پرامن انعقاد حیران کن ہے۔ شام جیسے ملک میں صرف ایک صوبے درعا میں بدامنی کا ایک واقعہ پیش آیا، جب درعا صوبے کے شہر الحراک میں گورنر کو اس وقت حملے کا نشانہ بنایا گیا، جب وہ پولنگ اسٹیشن کا دورہ کرنے کے لیے الحراک شہر میں داخل ہوئے تھے۔

درعا وہ صوبہ ہے جہاں سے 2011ء میں بدامنی کا آغاز ہوا تھا۔ شام کے انتخابات میں بظاہر ٹرن آوٹ 33 فیصد سے زیادہ رہا ہے اور ممکن ہے کوئی اعتراض کرے کہ شرکت کم رہی ہے، لیکن اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں اور اسرائیل سمیت علاقے کے دیگر مقاومت دشمن عناصر شام کے حالیہ انتخابات کے مخالف تھے، کیونکہ شام میں انتخابات کا انعقاد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین وغیرہ جیسے ممالک میں اس سوال کے اٹھنے کا باعث بنتا ہے کہ شام میں سخت ترین حالات میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں، لیکن مذکورہ ممالک کے ڈکٹیٹر انتخابات کا نام تک نہیں لیتے۔
خبر کا کوڈ : 876248
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش