12
Sunday 2 Aug 2020 20:38

پاکستان کو سیکولر مملکت بنانے کی سازش میں سہولتکار مولوی

پاکستان کو سیکولر مملکت بنانے کی سازش میں سہولتکار مولوی
تحریر:  محمد سلمان مہدی

سب سے پہلے تو یہ سوچیں کہ آیا واقعاً ایسا ہی ہے جیسا کہ اس تحریر کا عنوان ہے۔ کیا واقعی پاکستان کو سیکولر مملکت بنانے کی سازش ہو رہی ہے؟ اور اس میں بعض مولوی حضرات سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔؟ کیا انتہاء پسندوں نے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے یا نہیں۔ ملکی حالات کی تھوڑی سی شدھ بدھ رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ مذہبی طبقے کے بعض افراد سیکولر لابی کی سازشوں سے خبردار کرتے آرہے ہیں۔ ساتھ ہی سیکولر لابی کے بعض افراد مذہبی طبقے کی سازشوں پر قوم کا خبردار کرتے آرہے ہیں۔ فریقین کا یہ بیانیہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ لیکن دونوں ہی سازشی بظاہر ایک دوسرے پر تو الزام تراشی کی جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں، لیکن بعض مواقع پر دونوں ہی متفقہ موقف رکھتے ہیں۔ البتہ نچلی ترین سطح پر سیکولر ازم کے پیروکار بھی منقسم ہیں تو مذہبی نظریات کے پیروکار بھی منقسم ہیں۔ نائن الیون سے پہلے مذہبی انتہاء پسند جنونی طبقہ آشکار تھا۔ نائن الیون کے بعد سیکولر انتہاء پسند نے خود کو آزاد پایا تو اس نے خود کو بے نقاب کیا۔ البتہ ان کی بعض حرکتوں سے لگتا یوں ہے کہ ان کے آقا ایک ہی ہیں اور اس ضمن میں چند نئی مثالیں بھی ہیں، جو آگے بیان کی جا رہی ہیں۔

سیکولر مذہبی انتہاء پسند سازش
مثال کے طور پر کورونا وائرس نامی وبائی مرض جو کہ جنوری 2020ء میں امریکا اور یورپی ممالک میں پھیل چکا تھا۔ لیکن پاکستان میں اس حوالے سے خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کہیں سرگوشیوں میں مغربی ممالک کی مالی معاونت سے فیضیاب ہونے والی سیکولر این جی اوز چین کے خلاف اس حوالے سے بات کر رہی تھیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے کسی ملک جانے یا کہیں سے بھی پاکستان آنے والوں پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ جو بھی آیا بغیر کسی ٹیسٹ یا کوارنٹین (قرنطینہ) کے پاکستان میں اپنے گھروں کو لوٹا اور معاشرے میں گھل مل گیا۔ لیکن یکایک ریاست پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ ملحق زمینی سرحد تفتان کے مقام پر بند کر دی گئی۔ یکایک کورونا وائرس کے حوالے سے ایران کو سنگل آؤٹ کر دیا گیا اور ایران سے آنے والے پاکستانی زائرین کو تفتان بارڈر داخلے پر ہی تحویل میں لے کر دو ہفتے یا اس سے زائد مدت تک تفتان میں ہی کوارنٹین کے نام پر رکھا گیا۔ وہاں سے انہیں صوبوں کو منتقل کیا گیا اور صوبوں میں بھی یہی تماشہ لگایا گیا۔ مذہبی طبقہ اور سیکولر طبقہ اس حوالے سے متحد نظر آیا۔ سوشل میڈیا پر زائرین اور ایران کے خلاف منظم و متفقہ مہم چلتی رہی۔

گٹھ جوڑ اور اختلاف
لیکن ایران اور پاکستانی زائرین کے خلاف اس مہم کا آغاز کرنے والے سیکولر اور مذہبی انتہاء پسندوں کے غیر ملکی آقاؤں کے نچلی سطح پر الگ الگ گروپس میں تقسیم بلونگڑے آٹھ مارچ 2020ء کو بھی بے نقاب ہوئے۔ دین اسلام کے ہر پیروکار نے ان کی مخالفت کی اور بڑی حد تک ایسا ہی ہوا کہ 8 مارچ 2020ء کو پاکستان میں سیکولر انتہاء پسندوں نے عورت مارچ میں ایسا بیانیہ پیش کیا کہ معتدل مذہبی طبقہ بھی مخالفت پر مجبور ہوا۔ یعنی اسلام کے متفق علیہ شرعی قوانین، مشرقی شرم و حیا اور بنیادی انسانی اخلاقیات کے منافی باتیں کی گئیں۔ یہ سب کچھ کھلم کھلا کیا گیا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بنیادی طور پر دو قسم کی غیر سرکاری تنظیمیں یعنی این جی اوز کام کر رہی ہیں، ایک انٹرنیشنل این جی اوز اور دوسری پاکستانی این جی اوز۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ بعض پاکستانی این جی اوز بھی مغربی ممالک کی مالی معاونت سے فیضیاب ہوتیں ہیں۔ کچھ عرصے سے انہیں پروجیکٹس نہیں مل رہے تھے۔ اس لئے غیر ملکی مالی امداد لینے کے لئے انہوں نے کبھی اسٹوڈنٹس یونین کے عنوان سے فعالیت انجام دی تو کبھی عورت مارچ کے عنوان سے۔

درحقیقت کورونا وائرس کے حوالے سے بھی انہوں نے غیر ملکی مالی امداد کی بنیاد پر ہی فعالیت دکھائی۔ پہلے زائرین اور ایران کے خلاف تنگ نظر فرقہ پرست متعصب مذہبی افراد کو ساتھ ملایا۔ متعصب فرقہ پرست مذہبی طبقہ سیکولر سازش میں برابر کا شریک رہا اور جب زائرین کے دفاع میں پاکستان کے شیعہ مسلمانوں نے حقائق بیان کرنا شروع کئے تو تبلیغی جماعت کے کورونا وائرس زدہ مریضوں کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ سیکولر پروجیکٹس پر کام کرنے والوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے متعلق خبروں پر بھی فوکس کیا۔ لیکن بعد میں ان کا ہدف یہ تھا کہ مسلمان ممالک ہی کو ہدف بنائیں، جبکہ فرقہ پرست متعصب گروپ سعودی عرب کا دفاع کرنا چاہتا تھا۔ یہاں دونوں گروہ کا اختلاف ظاہر ہوا۔ لیکن پاکستان میں ایک طبقہ ایسا تھا، جس نے کورونا وائرس سے متعلق حقائق کو اس کے سارے زاویوں اور رخوں سے پیش کرکے یہ سازش ناکام بنادی۔

زائرین کے حامی پاکستانیوں نے پوری دنیا کے اعداد و شمار پیش کر دیئے کہ دنیا میں کس کس ملک میں کورونا وائرس کے کل کتنے مریض ہیں اور کہاں کتنی اموات ہوئیں ہیں اور آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ کورونا مریضوں کی تعداد اور اموات کے لحاظ سے امریکا پہلے نمبر پر ہے۔ برطانیہ میں 46 ہزار 193 انسان کورونا وائرس کے مرض کی وجہ سے مرگئے۔  فرانس میں 30 ہزار 265 کورونا وائرس مریض مرچکے ہیں۔ مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں بھارت کا تیسرا نمبر ہوچکا ہے۔ لیکن پاکستان میں نہ امریکا، نہ بھارت اور نہ ہی برطانیہ کسی کا بھی نام نہیں لیا جا رہا۔ تقریباً اڑھائی لاکھ پاکستانی دیگر ممالک سے پاکستان آچکے ہیں، لیکن کسی نے بھی ان کے حوالے سے کوئی مہم نہیں چلائی۔ یاد رہے کہ پاکستان نے انٹرنیشنل فلائٹس 21 مارچ 2020ء سے معطل کی تھیں۔ تب تک لاکھوں افراد پاکستان آچکے تھے، پاکستان سے جاچکے تھے۔

 بیمار ذہن انسانیت دشمن سیکولر اور مذہبی جنونی
برطانیہ جس نے پاکستان پر الزام لگایا کہ کورونا وائرس یہاں سے برطانیہ پہنچا، وہاں بی بی سی کے مطابق 31 جنوری 2020ء کو کورونا وائرس کے دو پہلے کیس رپورٹ ہوئے تھے اور برطانیہ میں رپورٹ ہونے والے پہلے دو مریض چین کے شہری تھے۔ 31 جنوری 2020ء کو بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تب پوری دنیا کے سارے ممالک میں کورونا وائرس مریضوں کی تعداد ایک سو سے کچھ زائد تھی جبکہ چین میں یہ تعداد لگ دس ہزار کے لگ بھگ تھی اور وہاں 213 مریض مرچکے تھے، جبکہ 83 برطانوی شہری ووہان شہر سے نکال لیے گئے تھے۔ امریکا میں بھی جنوری 2020ء ہی میں کورونا وائرس کے مریضوں کے ہونے کی تصدیق ہوچکی تھی۔ لیکن ایران میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 25 فروری 2020ء کو رپورٹ ہوا تھا تو کورونا وائرس کے ایشو پر جو انسانیت دشمن رویہ سیکولر اور مذہبی متعصب انتہاء پسندوں نے اختیار کیا، یہ اس حقیقت کا مظہر تھا کہ پاکستانی معاشرے کو انہی بیمار ذہن انسانیت دشمن افراد نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ لیکن ریاست و حکومت کی جانب سے بھی پوری دنیا کو چھوڑ کر صرف ایران اور زائرین کو سنگل آؤٹ کرنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔

یہ انسانیت دشمن پالیسی اس حقیقت کو ثابت کرچکی کہ پاکستان کی ریاست و حکومت میں امریکی، مغربی، سعودی بلاک کی لابی طاقتور حیثیت کی حامل ہے۔ البتہ جب سعودی و مغربی ممالک کے درمیان میں سے ایک کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو تبلیغی جماعت کے حوالے سے حکمران بھی تقسیم ہوئے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے تبلیغی جماعت کے کورونا مریضوں کا دفاع کیا۔ حالانکہ انہوں نے زائرین کا دفاع نہیں کیا تھا۔ یہ سوتیلا سلوک تاریخ کے دامن میں ریکارڈ کے طور پر محفوظ ہوگیا اور اب پاکستانی مسلمانوں کے مذہبی مسالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کی سازش پر عمل ہو رہا ہے۔ لال مسجد کے فوجی پولیس آپریشن کے وقت جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے والی قاف لیگ کے رہنماء اور اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ اور قاف لیگ کے امیدار کو وزیر اعظم بنانے کا ووٹ ڈالنے والے کالعدم دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے والے رکن اعظم طارق کے بیٹے معاویہ اعظم اور شراب کے نشے میں جیو ٹی وی پر اکتوبر 2014ء کو نقطہ نظر بیان کرنے والے اور نشے کی حالت میں پکڑے جانے والے مولوی طاہر اشرفی سبھی کس اسلام کی بنیاد کا تحفظ کر رہے ہیں!؟ یہ پوری قوم دیکھ رہی ہے۔

حنیف جالندھری جیسے مولوی حضرات کے مذہبی جذبات کا عالم یہ ہے کہ سانحہ راولپنڈی کے وقت بھی اپنے ہم مسلک دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے تھے، جو بعد میں ثابت ہوا کہ خود ہی دہشت گرد تھے۔ مولوی صاحبان آپ کو تو سال 1400ھجری سے اب تک کے سانحات میں کون مجرم ہے اور کون مظلوم، اسکا بھی نہیں معلوم تو آپ سال 11 ہجری سے سال 61 ہجری کی اسلامی تاریخ پر کیوں اس طرح رائے دے رہے ہیں، جیسے کہ آپ کی عدالت میں یہ کیس سماعت کے لئے پیش ہوا ہو اور قاضی آپ ہوں۔ اگر ایسا بھی ہے تو پھر کھلی سماعت کرکے ملزمان کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیں۔

پاکستانی ریاست کے اسلام کی تشریح
ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ان بے بصیرت مولویوں کی صفوں میں موجود ایک نادان طبقہ ایک نان ایشو پر سیاست کر رہا ہے۔ مفتی منیب صاحب سمیت وہ سارے مولوی حضرات جنہوں نے متنازعہ بل کی حمایت کی ہے یا دیگر افراد جو ان کی حمایت کر رہے ہیں، ان کی خدمت میں صرف چند باتیں کہ جس اکثریت نے مشترکہ جدوجہد کرکے ایک آزاد ملک پاکستان قائم کیا، ان ساروں نے قائداعظم محمد عملی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کے تحت جدوجہد کی اور وہ قائداعظم ہم سب پاکستانیوں کا بابائے قوم، بانی پاکستان شیعہ اثناء عشری مسلمان تھا۔ جس فاطمہ جناح کو پوری قوم مادر ملت کہتی ہے، وہ بھی شیعہ اثناء عشری مسلمان تھیں۔ جو علامہ اقبال پاکستان کا قومی شاعر اور نظریہ ساز ہے، اسی نے پاکستانی ریاست کے اسلام کی تشریح کر دی تھی اور اس میں تفضیل اہل بیت (ع) بشمول تفصیل حضرت علی ؑ، وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کر دی۔

تو اکثریت کا عقیدہ یہی ہے کہ پاکستان ایسے سنی شیعوں کا ملک ہے، جنہیں مفتی منیب یا حنیف جالندھری، لدھیانوی جھنگوی پارٹی کی تشریحات قبول نہیں ہیں۔ اس تاریخی حقیقت کی بنیاد پر مفتی منیب، حنیف جالندھری سمیت جو کوئی بھی ہے، وہ خود اقلیت میں ہی ہیں۔ جس کی نظر میں محمد علی جناح، فاطمہ جناح اور علامہ اقبال رافضی ہیں، وہ پاکستان میں اقلیت میں ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کے آئین نے سبھی کو قرآن و سنت کی اپنی اپنی فقہ کے مطابق تشریح کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس لئے کسی بھی مسلک کا مولوی اپنی فقہی تشریح کو خود پر اور اپنے پیروکاروں نافذ کرے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن جب کسی بھی مسلک کا کوئی بھی مولوی دوسروں کو دھمکی دے کہ تم بھی ہماری تشریح کو قبول کرلو اور ساتھ ہی دھمکی و انتباہ بھی جاری کرے تو یہاں وہ آئین و قانون کا مجرم بن جاتا ہے اور یہ نہ صرف نظریہ پاکستان بلکہ موجودہ پاکستان کے امن و سکون کے خلاف ایک اعلانیہ دھمکی اور سازش ہے۔

ریموٹ کنٹرول سازش کے سہولتکار نہ بنیں
امام حسین (ع) کی یاد میں محرم الحرام اور صفر میں اور 8 ربیع الاول تک مختلف علاقوں میں مجالس و جلوس ہوتے ہیں۔ چند ایام ایسے ہیںو جس میں عزاداران حسینی اپنے شہر یا گاؤں کی مرکزی شاہراہ پر امام حسین (ع) و دیگر شہدائے کربلا کی یاد میں اجتماعات جلوس یا مجالس کی صورت میں ہوتے ہیں۔ پچھلے چار عشروں سے منظم انداز میں عزاداران حسینی پر حملوں کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آئے ہیں۔ صرف یہی نہیں ہوا بلکہ شیعہ اسلامی مساجد میں شیعہ نمازیوں کو بھی دہشت گردوں نے شہید کیا اور ہر پاکستانی جو ان معاملات سے آگاہ ہے، اسے معلوم ہے کہ نشترپارک میں سنی تحریک کے قائدین کو دہشت گردی کرکے مارنے والا ٹولہ اور داتا دربار اور عبداللہ شاہ غازی کے مزارات کو دھماکوں اڑانے کی سازش میں ملوث ٹولہ اور عزادارن حسینی اور شیعہ نمازیوں کو دہشت گردی کے ذریعے شہید کرنے والا ٹولہ، یہ سبھی ایک ہی مسلک کے پیروکار ہیں۔

مفتی حنیف جالندھری اور مولوی منیب جیسے مولوی حضرات اگر اپنی توانائیوں کو اس اسلام دشمن اور پاکستان دشمن اور خود حنفی و جعفری مسلمانوں کے دشمن ٹولے کے خلاف استعمال کریں تو ان کی آخرت سنور سکتی ہے۔ ورنہ جس کسی نے ان کا سوئچ آن کیا ہے، وہ پاکستان اور اسلام کا خیر خواہ ہرگز نہیں ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ پانچ اگست 2020ء کو یوم استحصال کشمیر سے پہلے کشمیر کے حامی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے والے اسی کے اتحادی ہوسکتے ہیں، جس نے آٹھ شوال یوم انہدام جنت البقیع سے پہلے پاکستانی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کی سازش کی تھی۔ اس ریموٹ کنٹرول سازش کے سہولت کار نہ بنیں۔

پاکستان کا سافٹ امیج
مقام حیرت و افسوس ہے کہ جناح و اقبال کے دشمن ریاستی اداروں کے اندر ہونے کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک پاکستان اقوام عالم میں ایک باعزت کامیاب مقام حاصل کرچکا ہوتا، لیکن جناح و اقبال کے دشمنوں نے پاکستان کو چند شیوخ و شاہ کا منشی بنا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے خیرخواہ سازش کو ناکام بنائیں۔ پاکستان کے سنی شیعہ مسلمان ہوں یا ہندو، مسیحی، سکھ سمیت جتنے غیر مسلم شہری ہیں، سبھی کا اس ملک پر بحیثیت شہری یکساں حق ہے اور پاکستان ان سبھی پاکستانیوں کا ملک ہے۔ سبھی لاڈلے اور سگے ہیں، کسی کو سوتیلا بنانے کی سازش نہ کی جائے۔ دشمن پاکستان کو ناکام ریاست بنانے کی سازش پر عمل پیرا ہے اور ایک ایک پاکستانی کا فرض ہے کہ انفرادی و اجتماعی دونوں طریقوں سے اس سازش کو ناکام بناکر پاکستان کو کامیاب مملکت ثابت کرے۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ، پنڈی، آپبارہ، شاہراہ دستور قوم کو منقسم و منتشر نہ ہونے دیں۔

سانحات نے ثابت کر دیا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں کے قاتل اور حسینی عزاداروں کے قاتل ایک ہی مائنڈسیٹ ہے اور اسی مائنڈ سیٹ نے جی ایچ کیو پر حملے کئے تو بزرگان دین کے مزارات مقدسہ پر بھی دھماکے کئے۔ جب سبھی کچھ معلوم ہے تو اس تکفیری ٹولے کے پیش کردہ قانون کی حمایت سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے مقتول بچوں اور داتا دربار، بری سرکار، لعل شہباز قلندر، عبداللہ شاہ غازی، شاہ نورانی کے زائرین اور حسینی عزاداروں اور نمازیوں کے مقدس خون سے غداری کے مترادف ہے۔ پاکستان اور پاکستان کا یہ سافٹ امیج آج بھی زندہ حقیقت ہے اور کالعدم تکفیری ناصبی تنگ نظر سے لے کر سیکولر انتہاء پسندوں کی غیر مشرقی بے حیائی دونوں ہی اس کے لئے خطرہ ہیں۔ آپ کس طرف ہیں!؟  قاتلوں کے ساتھ یا مقتولین کے ورثاء کے ساتھ!؟ بے حیائی پھیلانے والوں کے ساتھ یا پاکستان کی اسلامی و انسانیت دوست اقدار کے ساتھ!؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 877950
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش