0
Wednesday 5 Aug 2020 03:31

اُسے کب علم ہوگا کہ ہم سب مٹ چکے کب کے

اُسے کب علم ہوگا کہ ہم سب مٹ چکے کب کے
تحریر: سویرا بتول

ابھی چند لمحے پہلے یہ خبر سننے کو ملی کہ لبنان کے دارالخلافہ بیروت میں یکے بعد دو بڑے دھماکے ہوئے، جن میں درجنوں اموات اور بھاری نقصان کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اِن دھماکوں کے پیچھے کیا مذموم عزائم تھے، اِس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے. مگر تعجب اُن لوگوں پر ہے، جو اسرائیل کی جانب سے کیے گئے امدادی دعوؤں پر آنکھ بند کرکے یقین کر رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے قاتل اقدامِ قتل کے بعد مقتول کے لواحقین سے جھوٹی اظہار ہمدردی کرے اور کچھ نادان اُس پر یقین کر بیٹھیں. یہ جو آج so called humantarian aid کے دلسوز نعرے بلند کر رہے ہیں اور عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، اِن کے چہرے کس قدر سیاہ کار ہیں، اِس کا علم سب کو ہے۔ اگر اتنے ہی انسانیت کے علم بردار ہوتے تو آج لاکھوں فلسطینی بے گھر اور بے یار و مددگار نہ ہوتے۔ انہوں نے آج تک نہتے فلسطینیوں کو انسان تک تو تصور کیا نہیں، کجا اِسکے کہ لبنانیوں کی امداد کو پہنچیں گے۔

آج انسانیت کو جو مسائل درپیش ہیں، وہ اِسی نظام صیہونیت اور بربریت کا پیش خیمہ ہیں۔ آج نہ صرف اسلام بلکہ دنیائے انسانیت کا سب سے بڑا خطرہ یہی جبر و استبدادی نظام ہے، جو اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک گر سکتا ہے اور اِس سے کچھ بھی بعید نہیں۔ آج جس آگ میں فلسطین، یمن، لبنان شام اور برما جل رہا ہے، مستقبل قریب میں وہ آگ تمام مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اُس وقت آہ و بقا کرنا اور اپنی بقاء کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا ہرگز سود مند ثابت نہ ہوگا۔ ان تمام حالات میں مسلم امہ کی خاموشی افسوس ناک ہے، ہم مدتوں سے آج تک خود میں اتنی بھی اخلاقی جرات پیدا نہیں کرسکے کہ حق کو حق اور باطل کو باطل کہہ سکیں اور وہ جو اِس میدان میں عملی طور پر موجود ہیں اور مدتوں سے فرعونی اور طاغوتی طاقتوں کے سامنے آھنی دیوار بنے ہوئے نیز عالمی استکبار کے خلاف برسرپیکار ہیں، اُن کی پشت پناہی تو دور ہم اُن کی حمایت تک کا بھرم نہیں بھر سکتے۔

ہم کوفی مزاج لوگ ہیں اور کہتے خود کو کربلائی ہیں۔ ایک طرف "مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑ پڑتا ہے سپاہی" کے دعوے دار ہیں اور دوسری طرف دشمن سے ڈرتے بھی ہیں۔ ہم حق پر ہو کر منتشر ہیں اور دشمن باطل پر ہوکر متحد ہے۔ حقیقت میں ہر وہ شخص موسیٰ صفت ہے، جو دوسروں کی زندگی میں آسانی، امن اور خوشحالی لاتا ہے اور ہر وہ شخص فرعون صفت ہے، جو دوسروں کی زندگیوں کو تنگ، ظلم اور بدحال کرتا ہے، اب اِس کا فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم موسیٰ صفت ہیں یا فرعون صفت۔ مدتوں سے فرعونی و طاغوتی طاقتیں امریکہ، روس، اسرائیل اور نیٹو مل کر عالمی استبداد اور شیطانی نظام کو رائج کرنا چاہتی ہیں۔ اِن عالمی استکبار کی حرکتوں اور شیطانی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آج کا مسلمان دوراندیش ہو۔ کل کے استعمار گروں اور آج کے مستکبروں سے نمٹنے کے لیے میدانِ عمل میں حاضر ہونا اور دشمن شناس ہونا لازم ہے۔
خبر کا کوڈ : 878408
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش