0
Wednesday 5 Aug 2020 20:07

سہید عارف حسین الحسینی، روشنی تیرے سفیروں کا نشاں باقی ہے

سہید عارف حسین الحسینی، روشنی تیرے سفیروں کا نشاں باقی ہے
تحریر: ارشاد حسین ناصر

وہ تقریباً ساڑھے چار سال (10 فروری 1984ء سے 5 اگست 1988ء) کے مختصر دورانیہ کیلئے ملت جعفریہ کی قیادت و رہبری میں رہے، مگر آج بتیس برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کی تنظیمی، نورانی و معنوی شخصیت کا سحر پوری قوم پر ایسے ہی طاری ہے کہ جیسے آج ہی وہ ہم سے جدا ہوئے ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ کئی ایک بار تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں موجود ہوں اور کسی مسئلہ یا پریشانی میں راہنمائی فرما رہے ہوں، ظاہر ہے کہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شہداء از روئے قرآن زندہ ہیں اور خدا کے ہاں سے رزق پاتے ہیں، البتہ ہم اس کا شعور نہیں رکھتے، پھر کیسے ممکن ہے کہ مکتب اور اس کے پیروان کا درد لیکر میدان عمل میں اپنے خون سے اپنی پیشانی رنگین کرنیوالی ہستی مکتب کے یہ حالات، تفرقہ و تقسیم، دہشتگردی، استعماری سازشیں اور ارض پاک پر عالمی سازش گروں کی اس ملک کو نقصان پہنچانے اور کمزور کرنے کے منصوبے دیکھ کے انہیں چین ملا ہو اور وہ ایسے حالات کو جوں کا توں چھوڑ دیں۔

وہ یقیناً حق پرستوں اور مخلصان خدا و دین خدا کی نصرت و رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں، اس کا احساس اس تحریک اور تحرک میں کئی ایک مقامات پر محسوس ہوتا ہے، جب کچھ دکھائی نہیں دیتا، عقلیں فیصلے کرنے سے عاری آجاتی ہیں تو غائبانہ امداد سے ناممکنات ممکن ہو جاتے ہیں، ایسا صرف شہید بزرگوار اور اس راہ میں جانیں قربان کرنے والوں کی خصوصی نظر سے ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ 25 نومبر 1946ء کی ایک سہانی فجر تھی، جب شہید قائد نے کرم ایجنسی کے ایک نجیب اور بے حد محترم سادات حسینی کے فرد سید فضل حسین شاہ کے گھر میں آنکھ کھولی تھی، پیواڑ کے پرائمری سکول سے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کرنیوالے سید عارف حسین نے پاراچنار شہر کے ہائی سکول سے میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے نجف و قم کی فضاؤں میں پرواز کی اور علم و عرفان کی منازل طے کیں۔ آپ کے بچپن سے آشنا لوگ گواہی دیتے ہیں کہ عارف حسین بچپن سے ہی بے حد دیندار، متقی اور پرہیزگار بلکہ شب زندہ دار تھے اور یہ سب تو جیسے آپ کو وراثت میں ملا تھا۔

آپ نے اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کیلئے پہلی بار 1967ء میں نجف کا سفر کیا، اس دور میں قم کا حوزہ آباد نہیں تھا اور لوگ اعلیٰ علمی مدارج کو طے کرنے کیلئے نجف کی علمی و روحانی فضاوں کا رخ کرتے تھے اور باب العلم کے در سے فیض پاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب عراق میں آقائے محسن الحکیم مجتھد اعلیٰ تھے، سید عارف الحسینی شروع سے ہی ملکوتی صفات کے مالک تھے، جن کی کرنیں صاحبان نظر کو محسوس ہو جاتی تھیں۔ آپ کے اساتذہ بھی آپ میں عرفانی و معنوی صفات دیکھ لیتے تھے۔ جب حضرت امام خمینی (رہ) ایران سے جلا وطن ہو کر نجف پہنچے تو آپ ان کی محفل کے شریک بن گئے اور ہمیشہ نماز ان کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعی کرتے۔ یہ تعلق اتنا گہرا ہوا کہ عشق خمینی (رہ) میں تبدیل ہوگیا، اسی عشق نے آپ کو بعد میں قومی حقوق کے نگہبان اور استعمار دشمن قائدین کی صف میں لا کھڑا کیا۔

عراق کے بعد آپ ایران میں قم المقدسہ میں بھی زیر تعلیم رہے، ان دنوں شاہ کے خلاف انقلاب کی تحریک عروج پر تھی، آپ چونکہ بڑھ چڑھ کے انقلابی پروگراموں میں شریک ہوتے تھے، لہذا شاہ کی حکومت اور ایجنسیوں کی نظر میں آگئے اور ایران میں گرفتار ہوئے، بعد ازاں انہیں ایران سے نکلنا پڑا۔ پاکستان میں آکر آپ نے اپنی علاقائی درسگاہ جامعہ جعفریہ پاراچنار میں بطور مدرس خدمات سرانجام دینا شروع کیں، آپ نے کرم ایجنسی کے اہل تشیع کے حقوق کیلئے بھی آواز بلند کی اور ملی سطح پر بھی روابط مستحکم کئے اور اسی وجہ سے  1980ء میں مفتی جعفر حسین قبلہ کی تحریک میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیا اور قبائلی لوگوں کے ایک بڑے وفد کیساتھ اسلام آباد ایجیٹیشن میں شریک ہوئے۔

29 اگست 1984ء کو مفتی جعفر حسین قبلہ کی رحلت ہوئی تو قوم میں ایک خلا پیدا ہوا، جس کے بعد 10 جولائی 1984ء کے دن ایک بھرپور اجلاس میں آپ کو بھکر میں قائد ملت جعفریہ منتخب کیا گیا۔ ساڑھے چار سال کے بعد 5 اگست 1988ء کی دم فجر جمعہ کے دن پشاور میں قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کو ہم سے چھین لیا گیا۔ اس مختصر عرصہ قیادت کو دیکھیں اور ان کے کاموں کی تفصیل، ان کے ملک گیر دورہ جات، گاؤں گاؤں، سکردو، گلگت سے لیکر اندرون بلوچستان کے بہت ہی چھوٹے چھوٹے دیہات اور سندھ کے گوٹھ بھی آپ کی پہنچ سے دور نہ رہے، آپ ملک کے شہروں اور دیہاتوں میں جاتے، تاکہ علم کی خیرات بانٹیں، شعور کی زکوٰۃ دیں، اسلام کا حقیقی پیغام جو خاتم الانبیاء کی شکل میں اُمت تک پہنچا تھا اور جسے وقت کیساتھ ساتھ بھلا دیا گیا تھا، اسے یاد کروانے کیلئے آپ نے اپنے اوپر آرام اور چین کو حرام کر لیا تھا۔

پاکستان بلا شبہ تمام اقوام اور مکاتب فکر کی محنتوں اور قربانیوں کا ثمر ہے، جس میں حکمرانوں نے اپنے اقتدار اور کرسی کی خاطر یا غیر ملکی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے فرقہ واریت اور شرپسندی کا بیج بویا، جس کی وجہ سے ملکی فضا مکدر ہو چلی تو شہید قائد علامہ عارف الحسینی نے اتحاد بین المسلمین کا علم بلند کیا اور اس پرچم کو تھام کر ملک کے گوش و کنار میں وحدت امت اور باہمی احترام و اخوت کی جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، اس حوالے سے انہیں بانی اتحاد بین المسلمین اور داعی وحدت کا لقب دیا گیا، ان کی روش تھی کہ وہ جہاں بھی دورے پہ جاتے، اہلسنت علماء و عمائدین ان کیساتھ ہوتے، جو امت کو اتحاد و وحدت کی دعوت دیتے۔

علامہ عارف الحسینی کی جہاں دیگر خوبیاں اور خصوصیات ان کی شخصیت کو روشن کیئے ہوئے ہیں، وہاں ان کا سیاسی میدان میں وارد ہونا اور اس دور کے آمر کے سامنے سینہ سپر ہو کر جمہوری و سیاسی و دینی قوتوں کیساتھ رابطے بڑھانا نیز پہلی بار اہل تشیع کی طرف سے سیاسی اجتماعات کا انعقاد، جن میں مینار پاکستان لاہور، دھوبی گھاٹ گراؤنڈ فیصل آباد، قلعہ قاسم باغ ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قرآن و سنت کانفرنسز کا انعقاد، جن میں سیاسی پروگرام اور منشور کا اعلان کیا گیا اور پھر ضیاء کے جھوٹے وعدوں پر سخت تنقید اور ریفرنڈم کی کھل کر مخالفت سے ان کا قد سیاسی حلقوں میں بلند ہوا، آمریت کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت کے قائدین کیساتھ ان کے روابط بہت گہرے تھے اور سیاسی قائدین ان کے خلوص اور بے باک موقف، جس کا اظہار برملا کرتے تھے، نے سب کے حوصلوں کو تقویت بخشی۔

یہ علامہ عارف الحسینی ہی تھے، جنہوں نے ملک کی ایک بڑی آبادی جو بکھری ہوئی تھی اور کوئی موقف نہیں رکھتی تھی، حکمران چند گنے چنے لوگوں کیساتھ ساز باز کرکے ان کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے، ان کی جدوجہد کے بعد ملکی مسائل کے بڑے فیصلوں میں اہل تشیع کی شرکت اور انہیں نظر انداز کرنے کا سلسلہ ترک کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے خلوص، جدوجہد، تحرک، للہیت اور مسلسل عمل سے پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر کی ریاست اور گلگت بلتستان تک کے اہل تشیع کو ایک لڑی میں پرو دیا اور ایک ایسی تنظیم و تحریک کی بنیادیں مضبوط کیں، جس نے بعد ازاں ان کی محنتوں کا پھل ایک عرصہ تک کھایا بلکہ آج تک اسی شہید بزرگوار کی عظیم قربانی اور جدوجہد کے بل بوتے پر زندہ ہیں۔ کسی بھی قوم کی قوت اور طاقت اس کے نوجوان اور طلباء ہوتے ہیں، علامہ عارف الحسینی کی شخصیت کی کشش ایسی تھی کہ اس دور میں نوجوانوں نے اپنی زندگیاں ان کے نام پر وقف کر دیں۔

نوجوانوں کا ہجوم، ان کیساتھ ہر جگہ ان کی گفتگو، ان کی تقاریر اور ان کے افکار تازہ سے معطر ہونے کیلئے بیتابی سے شریک ہوتا، اجتماعات جس بھی سطح کے ہوتے نوجوان، بلکہ علماء کی بھی بڑی تعداد اس پرخلوص قیادت کا ساتھ دینے کیلئے موجود ہوتے۔ علامہ عارف الحسینی کی انقلابی جدوجہد اور افکار دراصل پاکستان کے ہمسائے ایران میں اسلامی انقلاب برپا کرنیوالی عظیم شخصیت امام خمینی (رہ) سے بے حد متاثر و مماثل تھے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ وہ امام خمینی کی محفل کا ہی ایک چمکتا ستارہ تھے۔ جنہوں نے اس پاک وطن کو استعمار کے شکنجوں سے نکال باہر کرنے کیلئے امام خمینی کے انقلابی راستے یعنی ولایت فقیہ کے فلسفہ اور فکر پر گامزن ہوکر اپنا تن من دھن قربان کر دیا اور ایک مکتب میں نئی روح پھونکی۔ وہ پاکستان کو استعمار اور تکفیریت و آمریت سے آزاد کروانے کیلئے دن رات ایک کیئے ہوئے تھے۔

وہ حق کے پیرو تھے، سچائی و صداقت کی علامت تھے، خلوص کے پیکر تھے، ان کی عبادت و دعاؤں کی محافل اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ ایک برگزیدہ ہستی تھے، وہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں میں شمار ہوتے تھے، اللہ جنہیں اپنی راہ میں جہاد کرنیوالوں کو فرقان عطا کرتا ہے۔ علامہ عارف الحسینی ایسی ہی ہستی کا نام ہے، ان کے کردار، عمل، روحانیت، خلوص، تقوٰی، معرفت، فکر و شعور کو ایک روشن اور واضح شکل میں ہم نے دیکھا ہے، ہم اس کے گواہ ہیں کہ وہ مستضعف اور کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کی امید تھے، ہم اس کے گواہ ہیں کہ وہ اس دھرتی کا ایک ایسا فرزند تھے، جس نے اسے اسلام ناب محمدی سے متعارف کروایا اور اس کے نفاذ کی عملی جدوجہد میں اس کی شہادت ہوئی۔

ہم اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ وہ ہماری محافل میں، دعا و مناجات میں گڑ گڑا کر آرزوئے شہادت کرتے تھے، وہ متمنئی شہادت تھے، انہوں نے اپنے پاک خون سے اپنی پیشانی کو سرخ کرنے کی تڑپ میں زندگی گزاری اور بالآخر استعمار اور اس کے آلہ کاروں نے ایک عالمی سازش کے تحت انہیں راستے سے ہٹایا، 5 اگست 1988ء کی فجر دم جب وہ اپنے مدرسہ میں باوضو نماز کی تیاری کر رہے تھے، انہیں اجرتی قاتلوں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا، یہ کوئی عام قتل نہیں تھا۔ اس قتل کے پس پردہ عالمی سازش کارفرما تھی، جس کے تانے بانے تھوڑے ہی عرصہ میں ظاہر ہوگئے، قاتل پکڑے گئے، پاکستان کی تاریخ کا یہ اتنا بڑا اور واضح کیس تھا، جس میں چھپن گواہوں نے عدالت کے روبرو گواہی دی اور قتل کو تسلیم کیا، ایک دوسرے کے بیانات کی تصدیق کی۔

مگر افسوس کہ اس دور میں جب ایک کیئر ٹیکر حکمران یہاں پر عالمی طاقتوں کا نمائندہ بن کر حکمرانی کر رہا تھا، تمام قاتل آزاد کر دیئے گئے، اس فیصلہ کیخلاف اپیل دائر کی گئی تھی مگر۔۔۔ شائد ابھی تک اس کیس کی باری نہیں آئی کہ اعلیٰ عدالت اس اپیل کیلئے وقت نکالے اور عدل و انصاف کے اسلامی و قانونی معیار کو برقرار کرے، عجیب ہے کہ وہ جو کام فقط ساڑھے چار سال کے عرصے میں کر گئے، بعد میں آنے والوں نے ان بتیس برس میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں کیا، یقیناً یہ ایک قوم کیلئے باعث فکر ہے کہ اسے کیسے جانشین اور وراثت کے دعویدار ملے ہوئے ہیں۔ بقول شاعر
روشنی تیرے سفیروں کا نشان باقی ہے
دامن شب میں چراغوں کا دھواں باقی ہے
مسکرائیں بھی کسی رُت میں تو کیسے عارف
آنکھ میں تیری جدائی کا سماں باقی ہے
خبر کا کوڈ : 878575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش