0
Thursday 17 Sep 2020 21:10

مسلمان کون؟ ہمارا آئیں و مذہب کیا کہتا ہے؟

مسلمان کون؟ ہمارا آئیں و مذہب  کیا کہتا ہے؟
تحریر: مولانا محمد اسرار مدنی
فاضل دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک

پاکستان میں جب بھی ہم فرقہ واریت کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ مسلمان کی متفقہ تعریف کیا ہے۔؟ کون مسلمان ہے؟ اور کون نہیں؟ اس مسئلے کا بہترین حل آئین پاکستان ہے، جس میں مسلمان کی تعریف پر تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور سیاسی قائدین کا اتفاق رہا ہے۔ آئین پاکستان کی دفعہ کے مطابق مسلم سے مراد ایسا شخص ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدت و توحید، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ کے آخری پیغمبر ہیں، کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور کسی بھی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم نہیں کرتا، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہو یا دعویٰ کیا ہو اور غیر مسلم سے مراد ایسا شخص ہے، جو مسلم نہ ہو اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ یا پارسی فرقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص یا کوئی بہائی اور جدولی ذاتوں میں سے کسی سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہیں۔

مذکورہ بالا تعریف کے مطابق پاکستان میں مسلمانوں کے تمام فرقے مسلمان ہیں۔ مسلمان کی اس تعریف پر تمام مسالک (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ) کے اکابرین علماء متفق ہیں اور آئین پاکستان پر ان کے دستخط موجود ہیں۔
٭ 1952ء کی متحدہ علماء کمیٹی، متحدہ مجلس عمل، ملی یکجہتی کونسل، اتحاد تنظیمات مدارس اور دیگر اتحاد میں تمام مسالک کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ ہر مسلک دوسرے مسلک کو مسلمان سمجھتا ہے۔
٭ مسلمانوں کے یہ فرقے اسلام کے بنیادی اعتقادات جیسے توحید و رسالت، وحی، آسمانی کتابوں کے نزول، آخرت، ملائکہ کے وجود، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت، تقدیر اور بنیادی ارکان جیسے نماز، روزہ، زکوٰة اور حج کی فرضیت پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں۔
٭ آئین پاکستان میں بیان کردہ مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کے علاوہ کسی مسلمان فرقے کو کافر قرار دینا اور سمجھنا آئین پاکستان کی صریحاً توہین ہے۔ اس لیے ایک مسلمان ریاست میں رہتے ہوئے اس طرح کا تکفیری منہج یا تکفیری طرز عمل انتہائی غلط ہے۔

کافر قرار دینے کی ممانعت!
٭ جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا، اسے کافر کہنا کسی طرح درست نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس شخص نے بھی کسی بھائی کو کہا کہ اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔(صحیح مسلم: 60)
٭ حدیث شریف میں ارشاد ہے۔۔ اگر کسی نے دوسرے کو کافر کہا، تو ان میں سے ایک نے کفر کیا۔ اگر دوسرا شخص کافر ہے تو اس کے ساتھی نے درست بات کہی اور اگر وہ ایسا نہ تھا، جیسا اس نے کہا (یعنی اگر وہ کافر نہ تھا) تو کافر کہنے والا کفر کے ساتھ لوٹا۔(صحیح مسلم: 20)
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین باتیں ایمان کی بنیاد میں سے ہیں۔ جو لا الہ الا اللہ کہے اسے تکلیف نہ دینا، کسی گناہ کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کرو اور نہ ہم اسے کسی عمل سے اسلام سے نکالیں (سنن ابی داود: کتاب الجھاد، باب الغزو مع ائمة الجور، س350، ج 1، مکتبہ حقانیہ)

٭ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے بارے میں امام ابو اللیث سمرقندی فرماتے ہیں: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو مناظرہ کرتے دیکھا تو ان کو منع کر دیا۔ آپ کے صاحبزادے نے کہا کہ آپ خود تو یہ کام کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہم بات اس طرح کرتے ہیں کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ تم مناظرہ کرتے ہو تو تم میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا کفر چاہتا ہے۔ جو اپنے ساتھی کے لیے کفر کا ارادہ کرے، وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔ (فتاویٰ النوازل، ص: 86، امام ابو اللیث نصر بن محمد بن ابراہیم سمرقندی، دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)
٭ علمائے امت نے صراحت کی ہے کہ کسی مسلمان سے کوئی ایسا قول و فعل سرزد ہو، جس میں ننانوے احتمالات کفر کے اور صرف ایک احتمال صحیح نکلتا ہو تو حسنِ ظن رکھتے ہوئے اس ایک صحیح احتمال کی بنیاد پر اسے مسلمان کہا جائے گا اور اس پر کفر کا فتویٰ عائد نہیں کیا جائے گا۔

٭ علمائے کرام اس بات میں تو علمی طور پر اختلاف کرتے ہیں کہ کسی کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ مگر سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی شخص کو محض اس کے کفر کی وجہ سے قتل کرنے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔
٭ ہر گروہ کے علماء خود بھی صدقِ دل سے اس کے قائل ہوں اور اپنے پیروکاروں کو بھی قائل کریں کہ ہم جو عقائد و تصورات رکھتے ہیں، ان کی وجہ یہ نہیں کہ ہم باقی تمام مسلم فرقوں کے عقائد و تصورات کو یکسر غلط یا کفر سمجھتے ہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ دلائل کے اعتبار سے ہمارے عقائد و نظریات قابلِ ترجیح ہیں، لیکن ہم شرعاً یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ دوسرے سب غلط یا خدا نخواستہ کفر پر ہیں۔
٭ کسی نظریہ یا عقیدہ کی تکفیر کرنا ایک الگ معاملہ ہے اور کسی شخص یا گروہ کو کافر قرار دینا ایک الگ مسئلہ ہے۔ علمائے دین کلماتِ کفر کو کفر قرار دے سکتے ہیں، مگر کسی شخص نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ قاضی یا عدالت کرے گی۔

فقہی اختلاف تکفیر کا باعث نہیں
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فقہی اختلافات تکفیر کا باعث نہیں بنے اور کسی نے فقہی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر نہیں کہا، مثلاً نماز اور دیگر عبادات کی ادائیگی کے طریقہ کار میں اختلافات و غیرہ۔ مسالک کے درمیان بعض اوقات قرآن و حدیث کی تاویل و تفسیر میں فرق ہوتا ہے۔ ایک مسلک نے قرآن و حدیث سے ایک طرح کا حکم لیا ہے اور وہ اس پر عمل کر رہے ہیں، جبکہ دوسرے مسلک نے دوسری طرح کا حکم لیا ہے اور وہ اس پر عمل کر رہے ہیں۔ اس میں جتنی ہم آہنگی ہوسکتی ہے، وہ اچھی ہے اور جہاں نہیں ہوسکتی، وہاں اپنے نقطہ نظر پر عمل کرنا ہی مناسب ہے۔ اختلاف میں کوئی حرج نہیں لیکن تناؤ، قتل و غارت اور تشدد کی کیفیت نہیں ہونی چاہیئے۔ وہ اختلاف جس کی نوعیت علمی و تحقیقی ہے، وہ برا نہیں بلکہ قابلِ تعریف ہے، یہ اختلاف بلاشبہ باقی رہنا چاہیئے کہ زندگی کی علامت اور علم و استدلال کے لیے مہمیز ہے، لیکن ایسا اختلاف جس کی عمارت دوسرے سے نفرت، اسے باطل، بدعتی اور کافر و گستاخ قرار دینے جیسی خطرناک بنیادوں پر کھڑی ہوئی ہے۔ یہ باعثِ رحمت اختلاف کو بھی زحمت اور عذاب میں بدل دیتا ہے۔

فقہی اور فروعی اختلافات فتنہ و فساد کا با عث نہ بنیں
یحییٰ بن سعید انصاری رحمة اللہ علیہ جو جلیل القدر تابعی ہیں، فرماتے ہیں: اہل علم وسعت اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، اس لئے ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔ چنانچہ ایک ہی چیز کو ایک عالم اور مفتی حلال قرار دیتا ہے اور دوسرا اسے حرام قرار دیتا ہے، اس لئے نہ تو پہلا دوسرے کو برا کہتا ہے اور نہ ہی دوسرا پہلے کو۔ (سیر اعلام النبلاء 5473-474) تحقیق: شعیب الاَرنووَط، طبع دوم الرسالة!۔ امام ابو حنیفہ کا قول ہے، یہ جو کچھ ہے، ایک رائے ہے، جس پر ہم کسی کو مجبور نہیں کرتے اور نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ کسی (دوسرے مجتہد) پر اسے قبول کرنا لازمی ہے، جس کے پاس اس سے بہتر کوئی بات ہو اور وہ لے آئے(یعنی ہم اسے بخوشی قبول کر لیں گے) (الانتقاء فی فضائل الثلاثة الائمة الفقہاء مالک والشافعی و اَبی حنیفہ للحافظ ابن عبد البر (ت 463ھ، ص140، دار الکتب العلمیہ بیروت تعلیق عبد الفتاح اَبو غدہ ص: 258 مکتبة المطبوعات الاسلامیہ بحلب۔ 1998

عقیدے اور رائے کی آزادی!
تکفیر کا مسئلہ کلامی اور عقیدتی بحثوں سے جڑا ہوا ہے اور ہر ایک مسلک کے لوگ اپنا ایک خاص عقیدہ یا نظریہ رکھتے ہیں۔ عام طور پر عوام کے نزدیک مذہبی نظریات ناقابل تغیر ہوتے ہیں اور اسی لیے زیادہ معتبر ہوتے ہیں۔ اس لئے جب کوئی مسلک اپنے عقید ے کا اظہار کرتا ہے تو دوسرے مسلک کے وابستگان کو یہ نہیں کہنا چاہیئے کہ ان کا عقیدہ درست نہیں یا وہ غلط کہہ رہے ہیں، یا یہ کہنا کہ ان کا عقیدہ یہ نہیں کچھ اور ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر دوسروں کی رائے اور دلیل جانے بغیر یکطرفہ رائے سے مسلکی اختلاف کو تقویت ملتی ہے۔ صدر اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد خلافت کے معاملے کا فیصلہ جس طرح سے ہوا، اس پر مختلف مسالک کے پاس کیا دلائل ہیں اور کن دلائل میں کتنا وزن ہے، اس سے قطعِ نظر ہمیں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ یہ معاملات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور تاریخ کے واقعات کو ہم اکیلے اکیلے کیا باہم اتفاق رائے سے بھی نہیں بدل سکتے۔

آج جو مسالک موجود ہیں اِن کا اُن واقعات کی تخلیق میں قطعاً کوئی حصہ نہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان واقعات کا مطالعہ کرکے ان کے بارے میں ایک رائے قائم کر لیتا ہے اور دوسرا کسی دوسری رائے تک پہنچتا ہے تو دونوں کے لئے باہمی احترام اور ایک دوسرے کو آزادیِ رائے دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے لئے دونوں کو ایک دوسرے کی رائے جاننے اور رائے رکھنے میں آزاد قرار دینا ہوگا۔ فرقہ واریت کا وجود بھی مسلّم ہے اور ہر فرقے کا اپنے آپ کو ہی برحق سمجھنا بھی ایک حقیقت ہے۔ لیکن دیگر مسالک کے بارے میں ایسا طرزِعمل اختیار نہیں کیا جا سکتا، جو کسی بھی قسم کی کشیدگی کا سبب بنے۔ ہر ایک فرقے اور مسلک کو اپنے عقائد بیان کرنے کی اجازت ہے، لیکن دیگر مسالک کے خلاف شدت پسندی کے جذبات کو فروغ دینا، کیچڑ اچھالنا، گالی گلوچ اور نفرت انگیزی مناسب نہیں۔

دین اسلام میں کوئی جبر نہیں!
اسلام میں مذہبی منافرت اور انتہاء پسندی کی کوئی گنجائش نہیں اور قرآن مجید کی متعدد آیات ایسی روش کی مذمت کرتی ہیں۔ دین اسلام کے اندر کسی قسم کا جبر، تنگی اور سختی نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:َلآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ الْغَیِّ (البقرة:255) "دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے۔" ہر انسان کو زندگی کا راستہ و طریق منتخب کرنے میں کلی طور پر آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ جبر و زیادتی سے اپنا راستہ اور طریق زندگی دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَ لَوْشَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (یونس:99) "اگر تیرا پروردگار چاہتا کہ لوگوں کو مومن بنا دے تو زمین کے سب لوگ ایمان لے آتے، تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں۔"

قرآن حکیم میں ایک مقام پر رسول کریمﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا: وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ(الکھف:29) "اور فرما دیجئے کہ یہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے۔" اسلام دین میں شدت اختیار کرنے سے منع کرتا ہے؛ فرمایا: قُلْ یٰاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْا اَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ(المائدة:77) "کہہ دو اے کتاب والو، اپنے دین میں ناحق شدت اختیار نہ کرو اور ایسے پہلے لوگوں کی خواہش پر نہ چلو، جو خود بھی گمراہ ہوئے اور بہت سے دوسروں کو گمراہ کیا اور سیدھی راہ سے بھٹک گئے۔"
خبر کا کوڈ : 886863
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش