1
Friday 18 Sep 2020 14:57

کیا یزید بے قصور تھا؟

کیا یزید بے قصور تھا؟
تحریر و تحقیق: سویرا بتول

سقیفہ سے کربلا کا رشتہ ہمارے تحت الشعور میں رہا ہے لیکن ہم نے ملت مسلمہ کے احترام میں اس کے علی اعلان اظہار میں احتیاط کی، کیونکہ مسلمان یزید لعین کو اربابِ سقیفہ سے مختلف قرار دیتے تھے، مگر اب ابو سفیان اور یزید بلکہ بعد کے سارے خلفائے بنو امیہ راسخ العقیدہ مسلمان، عاشقِ رسول اور نیک نفس قرار دیئے جاتے ہیں اور نقطہ آغاز سے سیرت و کردار کے خطِ مستقیم کی صورت میں آگے بڑھا دیئے جاتے ہیں، جس کے برعکس چادرِ تطہیر میں جڑے ہوئے ستاروں کو زنگ آلود بتایا جاتا ہے۔ آیئے تاریخ کے ضمر میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا یزید لعین کا جرم صرف میدانِ کربلا تک ہی تھا اور اسے محض اسلاف کے خون کے انتقام تک ہی محدود کیا جاسکتا ہے یا آلِ رسولؑ سے یہ دشمنی نسلوں سے چلتی آرہی تھی۔

یزید اپنے پورے جاہ و حشم کے ساتھ تخت طلائی پر متمکن تھا۔ سیدالشہداؑ کا سر ایک سونے کے طشت میں یزید کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ باقی سر اس کے بعد قرینے سے سجے ہوئے تھے۔ سروں کے اس طرح سے سجائے جانے کی نظیر ماضی کی تاریخ میں بھی مشکل سے ملے گی۔ ہاں آگے چل کر چنگیز خان نے اس کی تقلید کی اور سروں کا ایک چبوتره بنوایا۔ مگر بنو امیہ دیکھنے میں متمدن اور اندر سے خونخوار بھیڑیئے جن کی مثال چنگیز خان سے بھی نہیں دی جا سکتی۔ سات سو کرسی نشین دربار کی زینت تھے۔ ایسے میں یزید لعین شراب کے نشے میں جھومتے ہوئے چوبِ زریں سے سرِ امامؑ کے لبوں کو چھو رہا تھا۔ ایسے میں صحابی رسولﷺ ابوبرزہ اسلمی، سمرہ بن جنادہ اور سفیر روم کا احتجاج کرنا اور کہنا کہ: کچھ تو حیا کر! یہ سردارِ بہشت کے ہونٹ ہیں۔ حضورﷺ انہیں چوما کرتے تھے اور یہ اُس محمدﷺ کے نواسے کا سر ہے جس کا تم کلمہ پڑھتے ہو۔

یزید سرِ امام ؑدیکھ کر رسالت و نبوت کی نفی کر رہا ہے اور یوں شہادتِ امام حسینؑ اور واقعہ کربلا کے اسرار و رموز سے خود اپنے ہاتھوں پردہ اٹھا رہا ہے، حسینؑ کی ذات گویا نبوت و وحی کا جیتا جاگتا ثبوت تھی اور ان کی شہادت اس پورے ادرہ کی نفی۔ پھر مقتولین بدر کو یاد کرکے یزید کا خود کہنا کہ کاش آج وہ ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے اولادِ پیغمبر سے کیسا قصاص لیا ہے، کیا بجائے خود منہ بولتا ثبوت نہیں ہے کہ کربلا کی جنگ بدر کی متوازی جنگ تھی اور یہ وہی کفر و اسلام کا تصادم تھا، جو آج پھر ایک مرتبہ دہرایا گیا۔

یزید کے فسق و فجور اور آلِ رسولؑ سے عداوت کی داستان یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔ مدینۃ الرسولﷺ کی تباہی یزید کا سب سے سیاہ کارنامہ ہے۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کو مدینہ والوں کی سرکوبی کے لیے متعین کیا اور بمقام حرہّ اہلِ مدینہ کا مقابلہ ہوا۔ گھمسان کا رن پڑا مگر افسوس اہلِ مدینہ کو شکست ہوئی۔ ٢٧ ذی الحج سنہ ٦٢ ھ کو مسلم بن عقبہ نے اپنے لشکر کو شہر کی غارتگری کے لیے چھوڑ دیا۔ جس نے تین دن تک شہریوں کا قتلِ عام کیا۔ باکرہ لڑکیوں کو حاملہ بنایا، مسجدِ نبوی میں گھوڑے باندھے۔ وہ شہر جس نے رسولﷺ کو پناہ دی تھی، وہ شہر جو مصیبت کے وقت آنحضرت کے ساتھ رہا تھا، اب کشت و خون اور قتل عام کا آماجگاہ بن رہا تھا۔ انتہا یہ کہ جامع مسجد کو طویلہ بنا دیا گیا۔ مزارات زر و جواہر کی خاطر زمین کے برابر کر دیئے گئے۔ یہ عوض تھا بنی امیہ کی طرف سے اُس لطف و کرم کا جو فتح مکہ کے وقت ان کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔

عرب شاعر ابن سنان خفاجی نے کیا خوب کہا ہے:
اعلی المنابر تعلنون بسبہ
و بسیفہ نصبت لکم اعوادھا

"منبروں پر بیٹھ کر امیر المومنین علیہ سلام (اور انکی اولاد پہ) پر اعلانیہ لعن طعن کرتے ہو، جبکہ یہ منبر جو تمہارے لگائے جاتے ہیں، اِن کی لکڑیاں بھی اس کی شمشیر حیدری کے طفیل میں تمہیں نصیب ہوئی ہیں۔" امام حسینؑ کی سب سے اہم ترین الہیٰ ذمہ داری نفاق کے چہرے سے نقاب اٹھانا تھا۔ منافق نہ تو کافر ہے، نہ مومن، نہ مسلمان۔ یہ لوگ ایمان ظاہر کرتے ہیں مگر عمل کافروں کا سا ہے اور امرِ حق کو جھٹلاتے ہیں۔ وہ لوگ جو یزید اور اس کے ساتھیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، حقیقت میں نفاق کا روپ دھار کر اسلام کو نقصان پہچانا چاہتے ہیں۔ ہمارا حسینی فریضہ ہے کہ ان عناصر کو ناصرف بے نقاب کریں بلکہ ان کی ہر لحاظ سے بیخ کنی کی جائے۔
خبر کا کوڈ : 886989
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش