1
Sunday 4 Oct 2020 19:31

امریکہ عراق میں اپنا سفارتخانہ بند کرنے پر مجبور کیوں؟

امریکہ عراق میں اپنا سفارتخانہ بند کرنے پر مجبور کیوں؟
تحریر: محمد عبداللہی
 
بغداد میں امریکی سفارتخانے کی ممکنہ بندش اسلامی مزاحمتی بلاک کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔ واشنگٹن میں مشرق قریب کے امور کے ادارے سے وابستہ لکھاری مائیکل نائٹس نے وال اسٹریٹ جرنل میں اپنے تازہ کالم میں عراق میں امریکی سفارتخانے کی ممکنہ بندش کو اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بغداد میں موجود امریکی سفارتخانہ عراق پر امریکی تسلط کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ 42 ہیکٹرز رقبے پر پھیلا یہ سفارتخانہ دنیا کا سب سے بڑا سفارتخانہ ہے۔ اس کا رقبہ حتی ویٹیکن سٹی سے بھی زیادہ ہے۔ بغداد میں امریکی سفارتخانہ ایک سفارتخانہ ہونے سے زیادہ فوجی اڈہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ درحقیقت عراق اور خطے میں جاری انٹیلی جنس اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مرکز ہے۔
 
گذشتہ دو ماہ کے دوران بغداد میں امریکی سفارتخانے اور عراق کے دیگر حصوں میں امریکی فوجیوں پر حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی سفارتخانے پر راکٹ حملے تو اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ مزید برآں، امریکی فوجی قافلوں کے راستے میں بھی سڑک کے کنارے نصب شدہ بم حملوں کی شدت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایسے ہی ایک حملے میں سی آئی اے کے تین افسر ہلاک ہوئے ہیں۔ ان تمام واقعات کے تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے عراقی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر وہ امریکی فورسز اور سفارتخانے پر حملوں کی روک تھام نہیں کر پاتی تو امریکہ بغداد میں اپنا سفارتخانہ بند کر دے گا۔ انہوں نے اس کام کیلئے عراقی حکومت کو دس دن کی مہلت دی تھی۔
 
امریکی حکام کی جانب سے بغداد میں اپنا سفارتخانہ بند کرنے کے فیصلے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سے کچھ اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
1)۔ امریکہ نے حال ہی میں بغداد میں واقع اپنے سفارتخانے میں سی آر ایم نامی میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بغداد کے گرین زون میں واقع اس سفارتخانے پر آئے دن راکٹ حملے انجام پا رہے ہیں اور یہ ڈیفنس سسٹم ان کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس وقت امریکہ نے بغداد میں اپنے سفارتخانے کے تمام عملے کو کردستان کے علاقے میں منتقل کر دیا ہے۔ یہ عراق میں سرگرام اسلامی مزاحمتی گروہوں کیلئے بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ بغداد میں امریکی سفارتخانہ درحقیقت عراق میں بچے کھچے تکفیری دہشت گردوں خاص طور پر داعش سے وابستہ عناصر کے ساتھ امریکی حکام کے رابطے کا مرکز جانا جاتا ہے۔
 
جیسا کہ جان بولٹن نے اپنی کتاب میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ وینزویلا میں مادورو کی حکومت گرانے میں امریکہ کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ سوچے سمجھے بغیر وینزویلا میں امریکی سفارتخانہ بند کر دیا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں موجود امریکی سفارتخانے اصل میں جاسوسی کے اڈے ہیں جہاں سے اس ملک اور خطے میں دہشت گردانہ منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ یہ سفارتخانے سفارتکاری کے مراکز نہیں بلکہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کیلئے جاسوسی اور فوجی سرگرمیوں کے اڈے ہیں۔ عراق سے ایسی خبریں موصول ہو رہی تھیں کہ بعض مزاحمتی گروہ امریکہ کے آئندہ صدارتی انتخابات سے پہلے امریکی سفارتخانے پر وسیع حملوں کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
 
2)۔ اگر ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو امریکہ کی جانب سے بغداد میں اپنا سفارتخانہ بند کرنے کا مطلب اسلامی مزاحمت کے گروہوں کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان ہے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ نے عراق میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے 122 ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے بھی امریکی حکام کے بقول یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ عراق میں امریکی سفارتخانہ بند ہونے کے بعد حشد الشعبی کے تمام مراکز کو نشانہ بنایا جائے گا۔ یوں امریکی حکام کی جانب سے عراقی حکومت کو دھمکی درحقیقت اسلامی مزاحمتی گروہوں کو نشانہ بنانے کا حیلہ ہے۔ عراق میں بعض ایسے امریکہ نواز حلقے بھی موجود ہیں جو عراق میں امریکی موجودگی کو اپنی بقا کا ضامن سمجھتے ہیں۔ یہ حلقے بھی اسلامی مزاحمت کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
 
3)۔ بعض تجزیہ کار امریکی حکام کی جانب سے عراق میں امریکہ کا سفارتخانہ بند کرنے کی دھمکی کو عراق کے امریکہ نواز حلقوں کو بلیک میل کرنے کیلئے افواہ قرار دے رہے ہیں۔ عراق میں موجود یہ امریکہ نواز حلقے اعلانیہ طور پر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ملک کی فلاح و بہبود کیلئے امریکہ کے ساتھ تعلقات اور اقتصادی تعاون ضروری ہے۔ لہذا امریکی حکام ایسی دھمکیاں دے کر ان حلقوں کو اسلامی مزاحمت کے خلاف تگ و دو کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر ملک میں قابض بیرونی قوت کو ایک نہ ایک دن نکلنا ہی ہوتا ہے۔ لہذا وہ نکلنے سے پہلے پوری طرح سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہے کہ حشد الشعبی اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی جڑیں عوام کے اندر راسخ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 890117
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش