0
Saturday 10 Oct 2020 16:30

مولانا کی سیاست اور مذہبی کارڈ

مولانا کی سیاست اور مذہبی کارڈ
تحریر: نادر بلوچ

نیب کیسز میں الجھی اپوزیشن نے اس وقت اپنی باگ ڈور مکمل طور پر مولانا فضل الرحمان کے حوالے کر دی ہے، جبکہ مولانا اپنی سیاسی طاقت کو بحال کرنے کیلئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں، مولانا چاہتے ہیں کہ ناصرف اس حکومت کا خاتمہ ہو بلکہ وہ کسی بڑی ڈیل کے نتیجے میں پاور کورویڈور کا حصہ بن جائیں، جہاں فیصلے ان کی مرضی کے بغیر نہ ہوں۔ سلیم صافی کا یہ کہنا کہ مولانا فضل الرحمان اس بار مذہبی کارڈ کا بھرپور استعمال کریں گے، اس بات نے سیاسی افق پر اپوزیشن جماعتوں کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کسی صورت بھی مذہبی کارڈ کی حامی نظر نہیں آتی، وہ سمجھتی ہے کہ اگر مذہبی کارڈ استعمال ہوا تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ سلیم صافی نے ایک پروگرام میں انکشاف کیا کہ جب انہوں نے مولانا کو مشورہ دیا کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ مذہبی کارڈ کا استعمال نہیں ہوگا تو مولانا تعیش میں آگئے اور یہاں تک کہہ گئے کہ صافی میاں اپنی بکواس بند رکھو، سلیم صافی کے بقول مولانا نے کہا کہ جب سندھ کارڈ استعمال ہوتا ہے تو اس وقت سب خاموش ہوتے ہیں، جب قوم پرست جماعتیں قومیت کا کارڈ استعمال کرتی ہیں، تب بھی کوئی بات نہیں کرتا، حتیٰ میری کردار کشی کی جاتی ہے اور بہت کچھ کہا جاتا ہے، مگر کوئی کچھ نہیں کہتا، جیسے ہی ہم مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہیں تو سب کی رگ پھڑک اٹھتی ہے۔

اس صورتحال سے تو واضح ہوتا ہے کہ مولانا اس بار مذہبی کارڈ کا بھرپور استعمال کریں گے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ مذہبی کارڈ کے ذریعے نشانے پر کون ہوگا۔؟ مولانا غفور حیدری کا مولانا کی آرمی چیف سے ملاقات کا حوالہ دینا اور سابقہ دھرنے میں خود مولانا عبدالغفور حیدری کی جانب سے ایک تقریر جس میں راقم خود بھی موجود تھا، جس انداز میں قادیانیوں کو نشانے پر رکھا اور پیغام ایک خاص جانب دیا، اس وقت واضح ہوگیا تھا کہ مولانا کے دھرنے کا مقصد کیا ہے۔؟ انتہائی باخبر ذرائع نے راقم کو بتایا ہے کہ اس بار بہت بڑا بحران پیدا ہونے جا رہا ہے اور سابق گورنر سلیمان تاثیر جیسا واقعہ رونما ہوسکتا ہے، جس کے بڑے امکانات موجود ہیں۔ اداروں کو نشانے پر رکھنا اور متنازع بیانات سیاسی انتشار کے ساتھ ملک میں حالات کی مزید ابتری کی  گواہی دیتے ہیں۔ دوسری جانب محکمہ اوقاف کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی اور ایف اے ٹی ایف کے ایماء پر ہونے والے اقدامات مذہبی جماعتوں اور ان کے قائدین کو سمجھ نہیں آرہے، لیکن جب سمجھیں گے تو اس وقت پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوگا۔ آنے والے حالات بہت ہی ابتر دکھائی دیتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان فوجی اسٹیبلمشنٹ اور عمران خان دونوں سے اپنا بدلہ لینا چاہتے ہیں، جس کیلئے میاں محمد نواز شریف بھی ہمراہ ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مولانا نے نیب کیسز کو اپنی طاقت کیساتھ ہوا میں اڑا دیا ہے جبکہ نواز شریف ایک سزا یافتہ شخص ہیں، جو اب بھی ڈیل کی تگ دو میں لگے ہوئے ہیں۔ مولانا کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بڑی ڈیل ہوگئی تو وہ سب کو بیچ کر چلے جائیں گے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کو ڈھیل دینے کو ملک کے ساتھ خیانت سمجھتے ہیں اور وہ آخری وقت تک اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اپوزیشن اپنی تحریک کو مختلف احتجاجات، لانگ مارچ اور آخری آپشن اجتماعی استعفوں کی صورت میں آگے بڑھانے کی طرف جا رہی ہے، ادھر حکومت نے واضح اعلان کیا ہے کہ اگر اپوزیشن کے استعفے آئے تو اسی وقت ضمنی الیکشن کا اعلان کر دیا جائیگا اور آئین میں اس کی گنجائش بھی موجود ہے، حکومت کا پیپلزپارٹی کے ساتھ نرم رویہ اور دیگر جماعتوں کو ٹف دینا ثابت کرتا ہے کہ پیپلزپارٹی اس ساری صورتحال کی بینفشری ثابت ہوگی۔ اس بار کا احتجاج خونی بھی ثابت ہوسکتا ہے اور اداروں میں ایک ایسا ماحول پیدا کرسکتا ہے کہ جس کے پاکستان کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سینیٹ الیکشن تک حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 891276
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش