0
Saturday 24 Oct 2020 21:30

کیا امریکہ کا زوال فقط ایک ریاست کا زوال ہے؟

کیا امریکہ کا زوال فقط ایک ریاست کا زوال ہے؟
تحریر: سید اسد عباس

جیسا کہ ہم نے اپنی گذشتہ تحریروں میں اعداد و شمار اور امریکی دانشوروں اور ماہرین کے اقوال کے ذیل میں دیکھا کہ امریکی ریاست، سیاست اور فوجی طاقت کے زوال کا عندیہ تقریباً ہر پیرائے سے عیاں ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال کرونا کے دوران امریکہ میں میڈیکل پراڈکٹس کی پیداواری صلاحیت کی کمی ہے، جس کے لیے یا تو امریکہ کو پیداوار بڑھانی تھی یا پھر ان مصنوعات کو چین سے درآمد کرنا تھا۔ چین گذشتہ کئی برسوں سے امریکی منڈی سمیت اینٹی بائیوٹکس کے خام مال کی برآمد میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔ چین نالج شیئرنگ، طبی سامان، عملے اور مالی اشتراک سے پوری دنیا کو اپنی کثیر الجہتی سفارتی امداد میں مسلسل توسیع کر رہا ہے۔ خود ٹرمپ نے چین کی طبی شعبے میں ترقی حتیٰ کہ صحت کے عالمی ادارے میں اثر و رسوخ کو نہ فقط قبول کیا بلکہ الزام لگایا کہ چین نے عالمی ادارہ صحت کو اغواء کر لیا ہے۔ عالمی ادارہ اقتصاد کے اعداد و شمار کے مطابق چین اپریل 2013ء سے اپریل 2019ء تک دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر رہا ہے اور امریکہ کی ایکسپورٹس چین کے مقابلے میں آدھی بھی نہیں رہیں۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا فقط امریکی ریاست زوال پذیر ہے یا اس کے ساتھ امریکہ کی زیر سرپرستی چلنے والا معاشی، سیاسی نظام بھی اس زوال سے متاثر ہوگا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس زوال سے جمہوریت، سیکولرزم، لبرلزم، جیسی اقدار جو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں سمجھی جاتی ہیں، وہ بھی متاثر ہوں گی؟ کیا چین اور مشرق سے ابھرنے والی قوتیں عالمی نظام میں بھی تبدیلیاں لائیں گی؟ کیا سرمایہ داری کی جگہ چین کا اشتراکی نظام لے لے گا؟ کیا جمہوریت کی جگہ استراکی پارٹی کی حکومت کا تصور سامنے آئے گا؟ دنیا کس حد تک تبدیل ہونے جا رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا سامنا آنے والی نسلوں کو کرنا ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو سرمایہ دارنہ نظام ان اصطلاحات کو فقط ایک نقاب کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ جمہوریت اپنے حقیقی معنوں میں شاید ہی کسی ملک میں نافذ ہوئی ہو۔ یہی حال سیکولرزم، لبرلزم، انسانی حقوق، خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق، ریاستوں کی خود مختاری جیسے نعروں کا بھی ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں اور اقوام کی ان بنیادی ضروریات کو قوموں کو غلام رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ ان حسین نعروں کے پیچھے انتہائی مکروہ سوچ کارفرما رہی، جس کے سبب آج اقوام کا ان اقدار سے تو نہیں، تاہم انہیں نافذ کرنے والوں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔

اب چونکہ دنیا کا معاشی اور اقتصادی قطب بدل رہا ہے تو یہ سوال نہایت اہم ہے کہ آیا عالمی اقدار میں بھی کوئی تبدیلی آئے گی؟ یقیناً تبدیلیاں ظہور پذیر ہوں گی۔ مشرق سے اٹھنے والی معیشت کے مدنظر سرمایہ ہی تہذیب ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور ایسی ہی اقدار اس معیشت کے مدنظر نہیں ہیں۔ یہ معاشی قوت دنیا کو ایک ایسا نظام دے گی، جہاں سرمایہ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی روا ہو۔ عوامی حکومت، عوامی مسائل، ریاستوں کی خود مختاری سب بے معنی ہو جائیں گے۔ دنیا میں ایک ہی اصول ہوگا اور وہ ہے سرمائے کے حصول کا اصول۔ توقع تو گذشتہ قطب سے بھی کچھ نہ تھی، تاہم کم از کم نام کی حد تک ہی سہی اقدار موجود تھیں۔ دنیا ایک بالکل نئے نظام کے دہانے پر کھڑی ہے۔ چین جو آج فقط ایک سرمایہ دار کی حیثیت سے نظر آرہا ہے، ضروری نہیں کہ کل بھی ایسا ہی ہو۔ جب چین کو برطانیہ اور امریکا کی مانند اپنی ریاستی حدود سے باہر نکل کر اقدامات کرنے ہوں گے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی ضرورت پڑے گی تو اس وقت اس کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے کھل کر آئے گا۔

میں چین میں موجود نظام حکومت، انسانی حقوق کی صورتحال اور اقدار کو دیکھ کر یہ بخوبی اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اگلا دور دنیا کی غریب اقوام بالخصوص بدقسمتی سے چین کے مقابل آنے والی اقوام کے لیے اچھا دور نہیں ہوگا۔ 1967ء میں معروف امریکی جریدے "فارن افیئرز" میں نکسن نے اپنی مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے لکھا تھا کہ: "مستقبل کو دیکھا جائے تو ہم چین کو ہمیشہ کے لیے اقوام عالم سے باہر نہیں رکھ سکتے ۔۔۔ دنیا اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک چین تبدیل نہیں ہو جاتا۔ اسی لیے جہاں تک ہوسکے ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیئے کہ ہم اس حوالے سے پیش آنے والے واقعات پر اثرانداز ہوں۔ تبدیلی کے لیے راہ ہموار کرنا ہی ہمارا مقصد ہونا چاہیئے۔" اس فہم کے باوجود امریکی چین کے سامنے مکمل طور پر بے بس رہے، ان کے پاس تماشا دیکھنے کے سوا کچھ نہ رہا، آج امریکہ کو اپنی معیشت، اقتصاد اور تجارت کے ساتھ ساتھ آزاد دنیا کا مستقبل بھی خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔

امریکیوں کو اپنی انٹلیکچوئل پراپرٹی کی چوری بھی نظر آرہی ہے اور نوکریوں کا خاتمہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ اردو کی ایک قدیم کہاوت ہے کہ ’’جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے، خود اسی میں گرتا ہے۔‘‘ امریکہ اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں گر چکا ہے۔ لیکن کیا امریکہ کے ساتھ وہ انسانی اقدار بھی دم توڑ رہی ہیں، جس کا فہم اقوام عالم نے اپنے اجتماعی شعور سے حاصل کیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ انسانی اقدار ہمیشہ قائم و دائم رہیں گی اور اب ان اقدار کو اپنے حقیقی وارثوں کی جانب پلٹنا ہے۔ ایسے میں عالم اسلام کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔ یہ وہ امت وسط ہے جسے دنیا کو ایک درمیانی راہ، ایک جدید تہذیب دینی ہے اور خدا خوفی کے ساتھ کار انبیاء یعنی انسانی اقدار کی حکمرانی کو انجام دینا ہے۔ آج وہ وقت قریب ہے کہ آپ کو مغرب سے بھی انسانی عظمت و سربلندی کے حقیقی علمبردار ملیں گے اور ہدایت کا یہ کارواں اپنے حقیقی وارث سے مربوط ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 893864
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش