0
Thursday 26 Nov 2020 21:00

یمن عالمی طاقتوں کے حصار میں(1)

یمن عالمی طاقتوں کے حصار میں(1)
تحریر: شاہد عباس ہادی

صیہونیت اور عالمی طاقتیں ہمیشہ سے اسلام اور انسانیت کیلئے زہر قاتل ثابت ہوئیں ہیں، مگر افسوس اسلام کے ماننے والے اور انسانیت کے رکھوالے ناصرف اس صورتحال پر خاموش ہیں بلکہ ان ظالمین کی حمایت اور مدد بھی کر رہے ہیں۔ یمن کی تاریخی اہمیت اور حالیہ صورتحال پر نظرثانی کریں تو بہت سارے شواہد مل جائیں گے کہ بلاشبہ یمن مسلمانوں کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یمن براعظم ایشیاء میں جزیرہ عرب کے جنوب میں واقع ہے، جس کے شمال میں سعودی عرب اور مشرق میں عمان ہے، یعنی دونوں اطراف مسلمان ممالک ہیں۔ یمن میں شہر مأرب دنیا کا مشہور قدیمی شہر ہے، جو قدیم زمانے میں ملکہ سباء، بلقیس اور دوسرے یمنی حکمرانوں کا دارالخلافہ اور ارض الجنتین (دو جنتوں کی زمین) سے مشہور تھا۔ مأرب کا پرانا ڈیم بھی اس ملک کے تاریخی عمارتوں میں سے ہے۔ یہ ڈیم حضرت عیسیٰ (ع) کی ولادت سے 500 سال پہلے بلق الایمن اور بلق الایسر نامی دو پہاڑوں کے درمیان عبدالشمس موسیٰ کے دور میں بنا ہے۔ حضرت سلیمان (ع) کا تخت بھی یمن میں تھا۔

یمن وہ واحد ملک ہے جو کسی جنگ کے بغیر پیغمبر اسلام صلی الله عليه وآله وسلم کی طرف سے بھیجے گئے نمائندے، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے سامنے تسلیم ہوا اور اسلام قبول کیا۔ مسلمانوں کیلئے یمن کی اہمیت اس لحاظ سے بھی زیادہ ہے کہ یمن کے مغرب میں واقع بحیرہ احمر پر بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے، جو کہ مسلمانوں کے خلاف مفادات حاصل کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یمن میں گذشتہ عبدالله صالح کی حکومت جو کہ 1978ء سے 2011ء تک لمبے عرصے پر مشتمل ہے، تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد عوام اور تنظیم انصارالله کی طرف سے مسلسل مظاہرے ہوتے رہے اور آخرکار فاسد نظام حکومت کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد انصارالله یمن کے سیاسی میدان میں وارد ہونے کے بعد اس ملک کی نئی حکومت تشکیل پائی، جس کی ریاست خالد بحاح کے ذمہ تھی، لیکن حالات ایسے پیش آئے، جس کی وجہ سے خالد بحاح نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور منصور ہادی نے حکومت کی باگ دوڑ چلانے کی کوشش کی، مگر اس حرکت پر انصارالله حوثیوں نے عکس العمل دکھایا اور آخرکار منصور ہادی بھی سعودی عرب بھاگ گیا۔

تنظیم "انصارالله" یا "الحوثیون" کا مقصد ملک میں موجود سیاسی اور مالی کرپشن، بیرونی عالمی طاقتوں کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس تحریک کے آغاز کے بعد یمن میں موجود القاعدہ اور دوسرے تکفیری دہشت گرد گروہوں نے حکومت، سعودی عرب اور مغربی طاقتوں کی حمایت سے اسے کچلنا چاہا، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ملک بھر کے عوام میں حد درجہ مقبول ہوگئی۔ 26 مارچ 2015ء جمعرات کی صبح سعودی عرب نے یمن کے مستعفی صدر کی حمایت اور یمن میں انصارالله کی بڑهتی ہوئی قدرت کو بہانہ بنا کر اس ملک پر حملہ کیا جبکہ درحقیقت انصاراللہ سے یہودی و صہیونی اور عالمی طاقتوں کو خطرہ تھا، کیونکہ انصاراللہ ہی واحد تنظیم تھی جو عالمی طاقتوں کے مدمقابل آئی اور ان کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کا راستہ روکا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے نیتن یاہو 2016ء میں یہی بیانیہ دیتے نظر آتے ہیں کہ فلسطین و یمن ہمارا حصہ ہے اور ہم اسے جبراً حاصل کریں گے۔ پھر آل سعود اور اس کے اتحادیوں (اسرائیل و امریکہ) کی واضح طور پر انصارالله سے جھڑپیں ہوتی رہیں، لیکن آل سعود سمیت عالمی طاقتیں یمنی انصارالله کے سامنے ناکام رہیں۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک (امریکہ و اسرائیل) کی ہوائی، زمینی اور سمندری/دریائی حملوں نے یمن کو بہت بڑے نقصان سے دوچار کیا اور یمن کو ویرانے میں تبدیل کر دیا۔ جس کا خمیازہ یمنی عوام آج بھی بھگت رہی ہے۔ یمن پر 2015ء سے لے کر اب تک سعودی و یہودی مظالم کا تذکرہ کریں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اتنی مظلومت کہ یمن براہ راست عالمی طاقتوں کے حصار میں ہو اور پاکستان جیسے مسلمان ممالک اور میڈیا اس مظلومیت کی آواز نہ بن سکیں، آخر ایسا کیوں؟ کیا آل سعود کے مظالم ظلم میں شامل نہیں؟ کیا اسلامی تعلیمات میں آل سعود کو استثنائی طور پر اس قدر ظلم و بربریت کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے؟ کیا آل سعود نے یہود و کفار کے اشاروں پر جنگ مسلط نہیں کر رکھی؟ کیا آل سعود کو خطرہ صرف یمن کے مسلمانوں سے ہے؟ کیا آل سعود کو امریکہ و اسرائیل سے کوئی خطرہ نہیں؟ یہ سوالات تاریخی لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں، جن کے جوابات اگلی سطور میں ذکر کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 900160
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش