0
Sunday 13 Dec 2020 13:24

اسرائیل اور ضمیر کی عدالت کا فیصلہ

اسرائیل اور ضمیر کی عدالت کا فیصلہ
تحریر: تصور حسین شہزاد

متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے بعد چوتھے عرب ملک مراکش نے بھی اپنے گلے میں اسرائیلی غلامی کا طوق ڈال لیا ہے۔ مذکورہ چاروں عرب ممالک کے اس اقدام پر پوری امت مسلمہ میں ایک ہی سوال زبانوں پر ہے کہ انہوں نے آخر اسرائیل کو تسلیم کیوں کیا؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ اپنے مفادات کیلئے، یعنی مفادات کی خاطر یہ عرب کچھ بھی کر گزرنے کیلئے تیار ہیں۔ مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کیوں کیا، اس کو کیا ملا، تو مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے امریکہ سے پوری پوری قیمت وصول کی ہے۔ مغربی صحرا کے متنازع علاقے کو مراکش کی گود میں ڈال دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ 1991ء میں یہاں گھسی اور دعویٰ یہ کیا کہ وہ اس تصفیہ کو حل کروائے گی۔ مگر یہ مسلسل التواء کا شکار کیا جاتا رہا اور اب اسرائیل کی غلامی تسلیم کرنے پر "انعام" کے طور پر اسے مراکش کی گود میں ڈال دیا گیا ہے۔

پولیساریو فرنٹ اس خطے کو ایک آزاد ریاست بنانا چاہتے تھے، مگر امریکہ اور اقوام متحدہ نے مل کر ان کیساتھ دھوکہ کیا اور مراکش کو یک طرفہ طور پر اس جنگ کا "فاتح" قرار دیدیا۔ مراکش اسرائیل معاہدے کو ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں "امن کی فتح" قرار دیا ہے۔ اب رباط اور تل ابیب میں رابطہ دفاتر کھولے جائیں گے اور پروازوں کا آغاز بھی جلد کر دیا جائے گا۔ مراکش کے بادشاہ نے یہاں دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور دوسری طرف فلسطین کے صدر محمود عباس کو ٹیلی فون کرکے یہ یقین دہانیاں کروا رہا ہے کہ وہ فلسطین کے حقوق کا دفاع کریں گے۔ پولیساریو فرنٹ کی قیادت نے مراکش کے اس اقدام کو ضمیر کا سودا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مراکش نے اپنا ضمیر فروخت کر دیا۔ یہ یزید سے بھی دوستی، حسین کو بھی سلام جیسی کیفیت ہے۔ فرنٹ کے نمائندے کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام سے ہم اپنی جدوجہد سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دوسرے لفظوں میں حالیہ صورتحال کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو تسلیم کروا کر دو مسلمان گروہوں میں تصادم کی بنیاد رکھ دی ہے۔ جس کے مستقبل میں خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

فلسطینی اتھارٹی نے بھی اس معاہدے کی مذمت کی ہے، جبکہ خطے میں امریکہ کے دوست وہ ممالک جو اسرائیل کو پہلے تسلیم کرچکے ہیں، وہ اس معاہدے اور "اسرائیلی غلاموں" کی تعداد میں اضافے پر خوش ہیں۔ سعودی عرب اس معاملے میں کبھی خوشی کبھی غم کی کیفیت میں ہے۔ سعودی حکام کے اپنے مختلف نظریات ہیں۔ ایک اگر گرین سگنل دیتا ہے تو دوسرا فوراً سرخ جھںڈی دکھا دیتا ہے۔ سعودی عرب تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کے مصداق امت کا رجحان دیکھ رہا ہے۔ امریکہ میں تعینات سعودی سفیر شہزادہ سلطان بن بندر نے کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں فلسیطنی قیادت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ العربیہ کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ فلسطین کو کوئی حق نہیں وہ خلیجی ممالک کی قیادت پر تنقید کرے۔ دوسرے لفظوں میں سلطان بن بندر کا جھکاو اسرائیل کی طرف واضح تھا۔ لیکن بعض سعودی حکام "ہم اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کریں گے، جب تک فلسطینی مطمئن نہ ہوتے" جیسے بیانات دے رہے ہیں۔ فلسطینی قیادت نے تو عربوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اقدام کو فلسطین کی پیٹھ میں چھرا گھوپنے کے مترادف قرار دیا تھا۔

سعودی عرب اس معاملے میں منافقت کا مظاہرہ کر رہا ہے، جسے پاکستان میں موجود سعودی نواز لابی ڈپلومیسی کا نام دے رہی ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان پر بھی دباو ڈالا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ عوض میں سارے قرضے معاف کرنے اور دیگر سہولیات دینے کی پیشکش بھی کی جا رہی ہے اور انکار کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ ایک طرف سعودی عرب پاکستان پر دباو ڈالے ہوئے ہے اور دوسری جانب خود اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلان سے گریزاں ہے، حالانکہ اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کی خبریں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ پاکستان کے انکار کے پاداش میں سعودی عرب میں کام کرنیوالے پاکستانیوں کے ویزوں میں توسیع نہیں دی جا رہی۔ ابھی 15 سو پاکستانیوں کو فارغ کیا گیا ہے۔ جس کا جواز یہ بتایا گیا ہے کہ وہ سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔ جناب، جب آپ ویزوں میں توسیع نہیں دیں گے تو ان کا قیام غیر قانونی ہی ہو جائے گا۔ جس کو بنیاد بنا کر آپ پاکستانیوں کو نکال رہے ہیں۔ اگر آپ کو پاکستان کا اتنا ہی درد ہے، جو پیکیج سعودی عرب نے موجودہ حکومت کو معاشی بحران سے نکلنے کیلئے دیا تھا، اس کو واپس کیوں مانگا گیا ہے۔؟

کیا سعودی حکام بتائیں گے کہ پاکستان میں سیاسی و مذہبی بحران پیدا کرنے کیلئے سعودی سفیر پاکستان کی مذہبی و سیاسی شخصیات کیساتھ کس پوزیشن میں ملاقاتیں کرتے پھر رہے ہیں۔ کیا یہ بھی بتائیں گے کہ نواز شریف سے لندن میں ہونیوالی ملاقاتوں کا مقصد کیا تھا، جس کے بعد نواز شریف ایک دم بستر علالت سے اُٹھ کر پاک فوج کیخلاف بولنے لگ گئے ہیں۔ کیا سعودی دوست اس بات کی وضاحت کریں گے کہ پاکستان میں صف اول کے چند صحافیوں کو ایک دم اسرائیل کی ہمدردی کا خیال کیسے آگیا۔ اسرائیل فلسطین تنازع آج کا نہیں، لیکن پاکستانی صحافیوں کو آج یہ فکر کیوں ستا رہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں نقصان نہیں فائدہ ہے۔ کیا سعودی عرب بتا سکتا ہے کہ سعودی سفیر نے لاہور میں گورنر پنجاب سے ملاقات میں انہیں یہ کیوں کہا کہ آپ عمران خان کو سمجھائیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں پاکستان کا فائدہ ہے۔؟ کیا سعودی حکام یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ گورنر پنجاب چودھری سرور کو اچانک سعودی عرب کے دورے کی دعوت کیوں دی گئی ہے۔؟

یہ دو اور دو چار کی طرح واضح ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔ جس نے فلسطین کے سرزمین پر قبضہ کیا ہے۔ دو تین دہائیاں پیچھے چلے جائیں تو سعودی بتا سکتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنا رقبہ تھا؟ اور آج گوگل میپ سے ہی فلسطین کو کیوں غائب کر دیا گیا ہے؟؟ کیا اسرائیل کے حامی صحافی اور اسرائیل کو قبول کرنیوالے عرب حکمران بتا سکتے ہیں کہ کتنے یہودی جلاوطن ہوکر کسی ہمسایہ ملک کے مہاجر کیمپ میں پڑے ہیں؟ جبکہ ہزاروں فلسطینی آج بھی مختلف ممالک میں جلاوطن ہو کر مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیا یہ شوق سے اپنے علاقے، گھر بار، مال اموال چھوڑ کر آئے ہیں؟؟ یقیناً انہیں بے دخل کیا گیا ہے تو یہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، تو کیوں اس ظالم اسرائیل کو تسلیم کرلیں، جو غاصب ہے، جو ناجائز ہے۔؟ اگر ہمارے یہ ڈالر خور اسرائیلی حامی صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ یہودیوں کا علاقہ تھا اور حضرت عمر نے فتح کیا تھا، اب یہودیوں کو واپس دیا جانا چاہیئے تو اس طرح تو پوری دنیا میں مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔

پھر تو آپ کا اسلام مکہ اور مدینہ کے دو شہروں تک محدود ہو جائے گا۔ اس کا کیا کریں گے؟ مکہ مدینہ کیساتھ بن سلمان جو کر رہا ہے، وہ تو اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات کے ہی خلاف ہے۔ نائٹ کلب، جوئے کے اڈے، سینماز اور عریانی و فحاشی کا فروغ، کس اسلام کے عقائد ہیں، یہاں تو امام کعبہ کو بھی بولنے کی جرات نہیں ہوتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے، یہ غاصب ریاست ہے، جسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں پاکستان میں اگر کسی کو یہودیوں کا زیادہ درد ہے تو وہ پاکستان کے گرین پاسپورٹ کو پھاڑ ڈالے، جس پر لکھا ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ پوری دنیا کیلئے کارآمد ہے اور اسرائیل میں جا بسے۔ پھر ممکن ہے اس کو اسرائیل کے حق میں بولنے کا جواز مل جائے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے کم از کم ظالم اور غاصب کی حمایت نہیں کی جا سکتی اور یہی فیصلہ ضمیر کی عدالت کا ہے۔
خبر کا کوڈ : 903444
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش