0
Monday 14 Dec 2020 09:51

فوج پر کرپشن کے الزامات اور بڑھتا سیاسی بحران

فوج پر کرپشن کے الزامات اور بڑھتا سیاسی بحران
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پاکستانی سیاست اس وقت تاریخ کے سخت ترین بحران کا شکار ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گریٹر اقبال پارک میں اس جگہ کھڑے ہو کر جہاں قراداد پاکستان منظور ہوئی، محمود خان اچکزئی سب سے بڑے صوبے پنجاب کے باسیوں کو طعبہ دے رہے تھے کہ انہوں نے ہندو اور سکھوں کی طرح ہندوستان پر قابض انگریزوں کا ساتھ دیا۔ ان کا لب و لہجہ، انداز بیان اور باڈی لینگوئج یہ صاف بتا رہی تھے کہ وہ سٹپٹا رہیں ہیں، وہ عین اس جگہ کھڑے تھے جہاں پاکستان کے متعلق علامہ محمد اقبال کے تخیل کو عملی شکل میں ڈھالنے کیلئے پہلی مرتبہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ہندوستان کے مخلص اور باوقار مسلمانوں نے عہد و پیمان باندھا اور محمود اچکزئی جیسوں کی مخالفت اور منافقت کے باوجود انگریزوں، متعصب ہندووں اور سکھوں کو پرامن جد و جہد کے ذریعے شکست دی۔

نظریہ پاکستان کے دوام اور قیام کیلئے آئین اور ووٹ کی عزت بحال کروانے کا نعرہ لیکر میدان میں آنے والے نواز شریف اس وقت لندن میں بیٹھے ہیں، جس وجہ سے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے مسلم لیگ کے قائد کے متعلق جب موجودہ وزیراعظم کو کٹھ پتلی ہونے کی بھپتی کسی جاتی ہے تو وہ جواب میں بھگوڑا کہہ کر یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر آپ سیاسی رہنماء ہیں تو لندن میں کیا کر رہے ہیں؟۔ جس سے رائے عامہ یہ الزام آسانی سے قبول کرتی ہے کہ میگا پروجیکٹس کے ذریعے شریف خاندان نے ملک کو لوٹا ہے اور اپبھی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جمہوری و سیاسی جد و جہد کا نعرہ لگا کر صرف اپنے خلاف چلنے والے مقدمات کو ختم کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن مینار پاکستان میں ہونیوالا پی ڈی ایم کا جلسہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود کامیاب رہا ہے۔

یہ جلسہ اور پی ڈی ایم کی تحریک سیاسی بحران میں کیسے اضافے کا سبب ہے، دونوں صورتوں میں اگر حکومت برقرار رہے تب بھی اور حکومت کمزور پوزیشن میں رہے اور چلتی رہے تب بھی، مستحکم خارجہ پالیسی اور عوامی مسائل کا کوئی پائیدار حل ممکن نہیں رہیگا۔ بظاہر پی ڈی رہنماء آئین اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن ان شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ لندن میں بیٹھے پی ڈی ایم رہنماء دراصل سیاست کا لبادہ اوڑھے بھتہ خوری اور جرائم کا گڑھ ایم کیو ایم کے سربراہ کی طرح غیرملکی طاقتوں کے ایماء انتقامی سیاست کی راہ پہ چلتے ہوئے اپنا گصہ نکال رہے ہیں۔ لیکن نواز شریف اپنی بیٹی کو سیاسی لیڈر حتیٰ حکمران دیکھنے کے خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عالمی طاقتوں اور عرب مسلم ممالک کا اثرورسوخ بڑا نمایاں رہا ہے۔

موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے میں شامل جماعتوں، رہنماؤں اور اسرائیل کی حمایت میں پاکستان پر دباؤ ڈالنے والے عرب مسلم ممالک، برطانیہ اور امریکہ کے مقاصد اور مفادات ایک ہو چکے ہیں۔ عالمی صیہونی لابی کی سرٹوڑ کوشش ہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی سیٹ اپ کی بساط لپیٹ دی جائے۔ جیسا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والے 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد نے یہ ایکشن پلان کے تحت 3 مرحلے پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہے۔ پہلے کی طرح ایک دفعہ پھر سعودی عرب نے سو ارب ڈالر واپس مانگے ہیں، جو نئی آنیوالی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی درخواست پر پاکستان کو دیئے گئے تھے۔ اس دفعہ بھی اس کی ادائیگی چین کے تعاون سے ممکن ہوگی۔

سعودی عرب، امریکہ کی جانب سے پاکستان کیخلاف معاشی و سیاسی دباو اور اندر خانے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک اور اقتدار میں شریک اتحادی چھوٹی جماعتوں کی جانب سے بھی موجودہ حکومت مسلسل دباو میں ہے، دوسری جانب سے جس طاقتور سیاسی کاروباری شخصیت نے گٹھ جوڑ اور جوڑ توڑ کر کے حکومت بنانے کی راہ ہموار کی انکی اصل جائیداد برطانیہ میں ہے، چند ہفتے قبل جب انہیں چینی اسکینڈل کیس میں احتساب اور مقدمے کا سامنا کرنا تھا، وہ بالواسطہ لندن میں مقیم نواز شریف سے رابطوں کی خبریں چلواتے رہے تاکہ پی ٹی آئی مسلسل اس دھڑکے کا شکار رہے کہ صف اول کا سیاسی رہنما اور پشت بان مخالف سیاسی کیمپ کا حصہ بن سکتا ہے، جس سے چوہدری برادران سمیت اہم اتحادیوں کو شہہ ملے گی اور کسی بھی وقت حکومت گرا دی جائیگی۔

بیرونی اور اندرونی دباو کیساتھ ساتھ سیلکٹرز کی بحث نے عمران خان کی ساکھ کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، بالخصوص ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو، اس سے پہلے نیب کو ہی سیاسی ایجینئرنگ کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا، حال ہی میں چیئرمین سی پیک اتھارٹی جنرل عاصم سلیم باجوہ پر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ ملکی اداروں کو کمزور کرنیکی بیرونی سازش کا حصہ لگتے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ پانامہ کیس بے بنیاد تھا اور اسے بنیاد بنا کر پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے ذریعے مارچ اور بعد دھرنے کروائے گئے، جس کے پیچھے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا تھے، اور اسوقت چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے اثاثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف کو سیاست سے اس لیے آوٹ کیا گیا کہ کھاک کاروباری سیاسی لیڈر کی موجودگی میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ سی پیک جیسے عظیم منصوبے سے کمائی نہیں کر سکتی تھی۔

یہ وہ الزامات ہیں جن کے متعلق عدالت میں بھی آوازیں بلند ہوئی، مقامی اور عالمی میڈیا میں بھی بحث جاری ہے، جسکا جواب آنا ملکی وقار، عساکر پاکستان کی ساکھ اور سی پیک جیسے اہم منصوبے اور چین کیساتھ تعلقات کو ہموار رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ موجودہ دور میں کوئی بھی ملک تنہا معاشی اور سیاسی سفر جاری نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کسی بلاک کا حصہ رہتے ہیں، اس وقت علاقائی ممالک میں پاکستان اور چین نہایت قریب ہیں، خطے کا مستقبل ان طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس ساری صوتحال میں فوج کا کردار بہت اہم ہے، اقتدار کی رسہ کشی میں فوج ہی بدنام کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے، ساتھ ہی یہ نعرہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹا جائے تو ہم اسٹیبلشمنٹ کیساتھ بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں۔

اسکا یہی مطلب ہے کہ جمہوریت، ووٹ کی عزت اور آئین کی پاسداری کے نعرے حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ ان نعروں کی آڑ میں فوج کو دباو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ذاتی سیاسی مفادات کی خاطر ملک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، جسکا حل ضروری ہے۔ یہ ایک منافقانہ طرز عمل ہے، جو بیرونی طاقتوں کے ایماء اور اقتدار میں لائے جانے کے جھوٹے وعدوں کی وجہ سے دہرایا جا رہا ہے، مینار پاکستان کے سائے میں کھڑے ہو کر محمود خان اچکزئی حقیقت میں تو قیام پاکستان کی جد و جہد میں قربانیاں دینے والوں کی توہین کر رہے تھے، مریم نواز عاصم سلیم باجوہ پر کرپشن کے الزامات اور احستاب کی بات تو کر رہی تھیں لیکن راحیل شریف کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتیں، جو ایسے ملک میں بیٹھے ہیں جہاں سے سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے، اپوزیشن رہنما اقتدار کے لالچ میں اندھے اور اقتدار کھو جانے کے غم میں بدحواس ہو چکے ہیں۔ عوام کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 903553
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش