0
Saturday 26 Dec 2020 17:11

غير الله سے مدد مانگنا (4)

غير الله سے مدد مانگنا (4)
تحریر: انجنئیر سید حسین موسوی

اللہ کے تمام افعال کے لیے وسیلے ہیں:
اب ضرورت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے تمام افعال کے متعلق قرآن مجید سے فیصلہ لیا جائے۔ اس جہان کا رب یعنی تدبیر کرنے والا اور چلانے والا مالک صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے، "إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الأَمْرَ مَا مِن شَفِيعٍ إِلاَّ مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ذَلِكُمُ اللّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَفَلاَ تَذَكَّرُونَ"۔ (يونس/3) تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے زمین اور آسمان کو سات دنوں (مراحل) میں خلق کیا پھر اس نے کائنات کی تدبیر کی۔ وہی امور کی تدبیر کرتا ہے۔ کوئی بھی اس کی اس تدبیر کا وسیلہ (شفیع) نہیں بن سکتا البتہ اس کے اذن کے بعد وہ اللہ ہی تمہارا رب ہے اسی کی بندگی کرو کیا سمجھتے نہیں ہو؟۔ یعنی اس کائنات کی تدبیر کا کام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے اور کوئی بھی چیز یا مخلوق اللہ تعالٰی کی اس تدبیر میں وسیلہ نہیں بن سکتی مگر اسکے اذن سے۔ اسی تدبیر کو آیت کے آخر میں ربوبیت کہا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے اس جہان کو چلانے کے لیے اپنے تمام افعال کو ذرائع اور وسائط سے مربوط فرمایا ہے۔

"فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا" (النازعات/5) پھر وہ (فرشتے، اللہ کے اذن سے) معاملات کی تدبیر کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالٰی کے تمام افعال لفظ تدبیر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا سے معلوم ہوا کہ کائنات کی تدبیر کا حقیقی فاعل اللہ تبارک و تعالٰی ہے اور قریبی و مجاری فاعل فرشتے ہیں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے، "فَالْمُقَسِّمَاتِ أَمْرًا" (الذاريات/4) پھر ان کی قسم جو حکم کے مطابق تقسیم کرتے ہیں۔ اسلیے اگر اللہ تبارک و تعالٰی اپنے کسی فعل کا وسیلہ بیان نہ کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ اسکا فعل بغیر وسیلے کے ظاہر ہوتا ہے بلکہ اس مادی دنیا میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ہر فعل ذریعے اور وسیلے سے ظاہر ہوتا ہے اور یہ سنت الاہی ہے جو تبدیل نہیں ہوتی،
"فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا"(فاطر/43) پس آپ اللہ کے دستور میں کبھی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور کو کبھی ٹلتا ہوا پائیں گے۔

تنبیہ تفویض:
لیکن یاد رہے کہ تفویض شرک ہے۔ تفویض یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ کام ان وسائل یا ذرائع کو تفویض کر دیئے ہیں اب یہ وسائل یا ذرائع اللہ تعالٰی سے بے نیاز ہوکر یہ کام کرتے ہیں۔ جس طرح ایک بیٹری چارج لینے میں تو بجلی کی محتاج ہوتی ہے لیکن جب چارج ہو جائے تو پھر ایک وقت تک کرنٹ دینے میں بجلی کی محتاج نہیں ہوتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فعل کے یہ وسائل بیٹری کی طرح نہیں ہیں بلکہ تمام مخلوقات ہر لمحے اپنے وجود اور اثر میں اللہ تبارک و تعالٰی کی محتاج ہوتی ہیں۔ مددگار، ناصر اور مشکل کشاء اللہ ہی ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کے فعل مدد اور نصرت کو بیان کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مخلوقات کا حقیقی مددگار اور مشکل کشاء اللہ تبارک و تعالٰی ہی ہے لیکن اسکی مدد اور نصرت بھی دیگر افعال الاہی کی طرح ذرائع، وسائل اور وسائط سے ظاہر ہوتی ہے۔

سب سے پہلے اللہ تعالٰی مدد کے فعل کی نسبت اپنی طرف دیتا ہے۔ فرماتاہے، "وَ مَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِاللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ"۔ (آل عمران/126) اور مدد و نصرت تو صرف اللہ کی طرف سے ہے جو غالب حکمت والا ہے۔ پھر ارشاد فرمایا، "وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ"۔ (التوبة/116) اللہ کے علاوہ تمہارا کوئی ولی اور ناصر نہیں ہے۔ پھر فرمایا، "وَكَفَى بِاللّهِ نَصِيرًا"۔۔(النساء/45) نصرت کے لیے اللہ ہی کافی ہے
پھر اپنی نصرت کے وسائل بھی بیان فرماتا ہے، حضرت موسی علیہ السلام کے لیے فرمایا، "سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ۔۔۔۔"(القصص/35) ہم جلد ہی تیرے بھائی (ہارون) کے ذریعہ تیرا بازو مضبوط کریں گے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق فرمایا، "وَ أَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ...."(البقرة/87) ہم نے روح القدس کے ذریعہ اس کی مدد کی۔

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے فرمایا، "إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَ إِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَ جِبْرِيلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ" (التحريم/4) اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو ) تو یہ تمہارے لیے اچھا ہے) کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو چکے ہیں۔ لیکن اگر تم دونوں اس (نبی اکرم) کے خلاف اتحاد کرو گی تو اس کا مولا اللہ ہے اور جبریل، صالح مومنین اور ملائکہ اس کے مددگار ہیں۔ جنگ خندق میں اللہ تبارک و تعالٰی نے مسلمانوں کی مدد ہوا اور ملائکہ کے وسیلے سے کی۔ فرمایا، "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا"(الأحزاب/9) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے اوپر اللہ کی اس نعت کو یاد کرو جب لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور لشکر جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے اور اللہ جو کرتا ہے اسے جانتا ہے۔

مدینہ منورہ والوں کو تو اللہ تبارک و تعالٰی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ناصر کے طور پر متعارف کراتا ہے، "وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ" ۔۔۔۔(التوبة/100) مہاجریں اور انصار میں سے پہلے سبقت کرنے والے۔ یاد رہے کہ انصار لفظ ناصر کی جمع ہے۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ کچھ انسان بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے وسیلے ہیں، انکو بھی مددگار یعنی ناصر (جمع انصار) کہا جا سکتا ہے۔ اسلیے مدد کا فعل اللہ تعالٰی سے بھی منسوب ہے کیوںکہ ہر مدد کا حقیقی فاعل وہی ہے جبکہ مدد کا فعل انسانوں سے بھی منسوب ہے کیونکہ وہ مدد کے قریبی فاعل ہیں جن سے اللہ تعالٰی کی مدد جاری ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مددگار تو دوسرے انسان بھی ہیں لیکن کیا غیراللہ سے مدد مانگی جا سکتی ہے؟ یا ہمیں صرف یہ کہنا چاہیئے کہ یا اللہ میری مدد فرما۔ پھر اللہ کی مشیت ہے کسی نہ کسی کو خود ہی ذریعہ بنادیگا۔

قرآن مجید میں غیر اللہ سے مدد مانگنے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ خود اللہ مدد مانگتا ہے، "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ" (محمد/7) اے ایمان والو! اگر اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔ رسول کا مدد مانگنا: مثال موجود ہےکہ، "وَ إِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۔۔"(آل عمران/81) اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ تعالٰی نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں، پھر تمہارے پاس رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرتا ہو جو تمہارے پاس ہو تو تم اس (رسول) پر ایمان بھی لانا اور اس کی مدد بھی کرنا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام انسانوں سے مدد مانگتے ہیں:
"فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللّهِ آمَنَّا بِاللّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ" (آل عمران/52} پھر جب حضرت عیسیٰ نے ان ( بنی اسرائیل) کا کفر محسوس کر لیا تو انہوں نے کہا کون ہے جو اللہ تعالٰی کی راہ میں میری مدد کرے۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں اللہ تعالٰی کے مددگار۔ ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم فرماںبردار ہیں۔ غزوہ احد میں جب گھمسان کا رن پڑا اور بڑے بڑے سورما جان بچاکر بھاگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدد کے لیے ان کو پکارا کہ واپس آجاؤ: "إِذْ تُصْعِدُونَ وَلاَ تَلْوُونَ عَلَى أحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غُمَّاً بِغَمٍّ لِّكَيْلاَ تَحْزَنُواْ عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلاَ مَا أَصَابَكُمْ وَاللّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ" (آل عمران/153) (وہ وقت یاد کرو) جب تم چڑھتے (بھاگتے ) چلے جاتے تھے اور کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھتے تھے حالانکہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمہیں پیچھے سے پکار رہے تھے۔ سو اللہ نے تمہیں غم پر غم دیا تا کہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو ہاتھ سے جاتی رہے اور نہ اس مصیبت پر جو تم پر آ پڑے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو سب خبر ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مددگار مانگتے ہیں:

"وَ قُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا"(الإسراء/80) اور آپ دعا کیجئے کہ اے رب مجھے خوبی کے ساتھ (مدینے میں) داخل کر اور خیر و خوبی کے ساتھ ہی (مکہ سے) نکال اور اپنی طرف سے مجھے مقتدر مددگار عطا فرما۔ پھر اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے کہ"وَ إِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ" (الأنفال/72) اگر وہ تم سے دین کے معاملے میں مدد طلب کریں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازمی ہے۔ معروف سلفی مفسر، ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں، يقول تعالى و إن استنصركم هؤلاء الأعراب، الذين لم يهاجروا في قتال ديني على عدو لهم فانصروهم، فإنه واجب عليكم‏نصرهم، لأنهم إخوانكم في الدين، إلا أن يستنصروكم على قوم من الكفار، بينكم و بينهم ميثاق أي مهادنة إلى مدة، فلا تخفروا ذمتكم و لا تنقضوا أيمانكم مع الذين عاهدتم، و هذا مروي عن ابن عباس رضي اللّه عنه (تفسير القرآن العظيم، ج ‏4، ص: 86)۔

اللہ تعالیٰ کہتا ہے اگر وہ (مسلمان) اعراب جنہوں نے ہجرت نہیں کی تم سے اپنے دشمن سے لڑنے کے لیے مدد طلب کریں تو ان کی مدد کرنا تم پر واجب ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ ایسے کافر گروہ کے خلاف تم سے مدد طلب کریں جن سے تمہارا معاہدہ ہو تو معاہدے کے خلاف نہ کرو اور اپنی قسمیں جن لوگوں سے تم نے معاہدہ کیا ہے نہ توڑو۔ یہ تفسیرابن عباس ( رض) سے مروی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ :
1۔ مدد صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔
2۔ اللہ کی مدد کے وسیلے ہیں۔
3۔ کسی کو وسیلہ سمجھ کر مدد مانگنا جائز ہے۔
4۔ ان وسیلوں کو اللہ کی مدد کا وسیلہ سمجھ کر مدد مانگنا اللہ سے ہی مدد مانگنا ہے، اسی لیے جب اللہ کے بنائے ہوئے وسیلے سے مدد مانگی گئی تو اللہ نے فرمایا کہ میں نے ان کی مدد کرنا تم پر فرض قرار دیا۔

پیروان مکتب اہلبیت محمد و آل محمد علیہم السلام کو نہ خدا سمجھتے ہیں نہ ہی خدا کی ذات، صفات یا افعال میں شریک سمجھتے ہیں بلکہ ان حضرات کے اصل مقام یعنی ''نور اول'' کو اللہ کے فیض کا وسیلہ سمجھتے ہیں ۔ ان میں سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، عالمین کے لیے رحمتِ خدا کا وسیلہ ہیں اور ان کے برحق جانشین ان کی تابعیت میں اسی مقام پر فائز ہیں۔یہ سب اللہ تبارک و تعالی کے بندے ہیں، اس کی مشیت کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ مکتب اہلبیت کے مطابق اگر ان حضرات سے "اللہ کی مدد کے وسیلے" کے طور پر مدد مانگی جائے تو جائز ہے۔ اس طرح کی مدد کے لیے ان کی زندگی اور موت یا حضور و غیوب سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ مدد ان کے جسم سے نہیں مانگی جاتی بلکہ ان کے اس نورانی مقام سے مانگی جاتی ہے جو اللہ کے فیض کا وسیلہ ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 903646
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش