0
Tuesday 29 Dec 2020 23:39

جمعیت بکھر گئی۔۔؟

جمعیت بکھر گئی۔۔؟
رپورٹ: سید عدیل زیدی

مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں موجود جمعیت علمائے اسلام (ف) کو مکتب دیوبند سے تعلق رکھنے والی ایک اہم مذہبی و سیاسی جماعت کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کی سینٹ، قومی اسمبلی سمیت ملک کی صوبائی اسمبلیوں میں عرصہ دراز سے کسی نہ کسی صورت نمائندگی رہی ہے، اس کے علاوہ ملک میں موجود دیوبند مدارس پر بھی جے یو آئی کا اچھا خاصا اثر و رسوخ رہا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ ملکی سیاست اور مذہبی معاملات میں جمعیت کا ہمیشہ سے کسی نہ کسی طرح کا رول رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کی اپنی شخصیت کو بھی خاص انفرادیت حاصل رہی ہے، مولانا فضل الرحمان کو ایک مذہبی رہنماء کیساتھ ساتھ اہم سیاستدان کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، دیگر اہم مذہبی جماعتوں اور شخصیات کے برعکس مولانا صاحب ہمیشہ سے حکومتوں کیساتھ رہنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں، گوکہ مولانا فضل الرحمان جنرل مشرف دور میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتے رہے، تاہم اس وقت بھی مولانا صاحب پر حکومت کی سہولت کاری اور فرینڈلی اپوزیشن کے الزامات عائد ہوتے رہے۔ 

گذشتہ انتخابات کے نتیجہ میں عمران خان کی حکومت قائم ہونے کے بعد مولانا کی سیاست نے ایک نیا رخ لیا اور اس حکومت میں مولانا کو حصہ ملنا تو درکنار موصوف پارلیمان سے ہی باہر ہوگئے، جس پر ان کا سخت ردعمل آیا۔ مولانا نے انتخابات کو جعلی قرار دیا اور حکومت گرانے کی ٹھان لی۔ احتساب کے بحرانوں میں گھری پی پی اور نون لیگ کے مقابلے میں مولانا کا درعمل سخت تھا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا، تاہم اس تحریک میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے مولانا کا اسطرح ساتھ نہیں دیا، جسکی توقع وہ کر رہے تھے۔ تاہم مولانا فضل الرحمان عمران خان کی حکومت کو ’’سلیکٹڈ‘‘ قرار دیتے ہوئے ’’سلیکٹرز‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کرتے رہے۔ تاہم مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے جب عمران خان کیخلاف کھل کر میدان میں آنے کا فیصلہ کیا تو مولانا کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا گیا اور پی ڈی ایم کی شکل میں تشکیل دیئے جانے والے اپوزیشن اتحاد کی باگ دوڑ مولانا فضل الرحمان کے حوالے کردی گئی۔

پی ڈی ایم نے ملک بھر میں جلسوں کا سلسلہ شروع کیا اور عمران خان کے اقتدار چھوڑنے تک احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا، پی ڈی ایم کے پی ٹی آئی کی حکومت کیساتھ ساتھ ریاستی اداروں پر بے جا تنقید کے رویہ کو کئی معتدل سیاستدانوں نے پسند نہ کیا، اسی طرح مولانا فضل الرحمان کی اپنی جماعت میں اس حوالے سے بحث شروع ہوگئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض پارٹی رہنماوں نے مولانا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر ریاستی اداروں کیخلاف ایسا منفی اور سخت رویہ اپنایا گیا تو اس سے مولانا کی اپنی سیاست سمیت پارٹی کی سیاست بھی ہمیشہ کیلئے دفن ہوجائے گی۔ تاہم مولانا کے رویہ میں روز بروز شدت آتی رہی۔ جمعیت علمائے اسلام  میں مولانا شیرانی کی قیادت میں ایک گروپ موجود تھا، جس کو کسی زمانے میں جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، جو مولانا کے طرز سیاست سے مطمئن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بعض پارٹی کے اندرونی معاملات میں بھی اس گروپ کو شدید تحفظات تھے۔

یہ گروپ جمعیت میں ’’ون مین شو‘‘ کیخلاف تھا، یہ گروپ معتدل سوچ کا حامل اور پارٹی امور آزادانہ اور جمہوری انداز میں چلانے، سیاسی معاملات سیاسی انداز میں حل کرنے کا حامی تھا۔ گزرتے وقت کیساتھ مولانا شیرانی، حافظ حسین احمد، مولانا گل نصیب اور مولانا شجاع الملک کے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ معاملات بگڑتے گئے اور آخر ایک وقت آیا کہ مزکورہ رہنماوں کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ ان رہنماوں کا کہنا تھا کہ جمعیت میں کئی افراد انکے نظریات کے حامی اور فضل الرحمان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ حسب توقع آج ان ناراض رہنماوں کا اجلاس مولانا محمد خان شیرانی کی سربراہی میں اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں حافظ حسین احمد ویڈیو لنک سے شریک ہوئے۔ اجلاس کے بعد مولانا محمد خان شیرانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں جے یو آئی پاکستان کے اراکین نے شرکت کی، گزشتہ تین عام انتخابات میں جے یو آئی (ف) کے نوٹیفیکیشن ساتھیوں کے سامنے رکھے، 2018 میں جے یو آئی فضل الرحمان کے نام سے الیکشن کمیشن میں درخواست دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ساتھیوں کو کوئی ابہام نہیں کہ جے یو آئی (ف) کے نام سے فضل الرحمان نے اپنا گروپ تشکیل دیا ہے، جبکہ ہم کبھی بھی جے یو آئی (ف) یا فضل الرحمٰن گروپ کا حصہ نہیں رہے، ہم ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام کے دستور کے مطابق رکن رہے اور رہیں گے۔ جمیعت علمائے اسلام پاکستان کے پلیٹ فارم سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا، تجویز یہ ہے کہ مرکزی مجلس عمومی سے ایک قرار داد پاس کی جائے کہ الیکشن کمیشن میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان فضل الرحمٰن اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن، ان دونوں قسم کے نوٹی فکیشن کو منسوخ کیا جائے، ایک نیا نوٹی فکیشن جمعیت علمائے اسلام پاکستان جاری کیا جائے جس طرح ہمارے منشور میں موجود ہے اور الیکشن کمیشن کو پیش کیا جائے۔مولانا شیرانی نے کہا کہ جمیعت کے اندر انتشار کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے، کسی ساتھی کو بھی کسی بھی کام پر مجبور نہیں کیا جائیگا، تمام ساتھیوں کو جماعت اور جماعتی اداروں کے ساتھ رابطے رکھنے کی ترغیب دیں گے، ہمارے بارے میں جو بھی کہا گیا ہم اس کا جذباتی انداز میں جواب یا ردعمل نہیں دیں گے۔

مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ ہم ان کو تنہا کریں گے، ان کو اکیلا کیا جائے گا۔ فضل الرحمان گروپ کسی پروگرام میں ہمیں دعوت دیں گے تو ہم شریک ہوں گے۔ ہم تمام ساتھیوں کو ترغیب دلائیں گے کہ جماعت کے اداروں سے رابطہ نہ توڑیں، ہمارے بارے جو کچھ بھی کہا جائے گا ہم جواب نہیں دیں گے، ہم اپنے پروگراموں میں انہیں بلائیں گے، ہم اپنے پروگرام میں منفی رویہ اختیار نہیں کریں گے، اس پوری انتشار کو وحدت میں بدلا جاسکتا ہے، ہمارا دستور سکھر میں تقویٰ کی بنیاد والا بحال کیا جائے، وہ دستور بحال اور باقی ترامیم ختم کردی جائیں، مرکزی عمومی قرارداد پاس کرے کہ صوبائی تنظیموں کو اختیارات واپس کرے۔ مولانا شیرانی کی پریس کانفرنس انکی شخصیت کی عکاسی کرتے ہوئے کسی جذباتی فیصلے کی بجائے تحمل مزاجی اور مدبرانہ فیصلوں پر مبنی تھی۔ یہاں اس رہنماوں نے خود کو پارٹی سے الگ کرکے نئی جماعت بنانے کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس بات پر زور دیا گیا کہ پارٹی کیساتھ رہا جائے گا، تاہم مولانا فضل الرحمان کے ٹیگ کو جمعیت سے علیحدہ کیا جائے گا، پارٹی رہنماوں سے رابطہ رکھا جائے گا، اور نظریاتی کارکنوں کو متحد کیا جائے گا۔

جمعیت کے ناراض رہنماوں کا یہ ’’ٹھنڈا رویہ‘‘ یقینی طور پر مولانا فضل الرحمان کیلئے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں، جمعیت علمائے اسلام کا شیرازہ تو یقینی طور پر بکھرتا نظر آرہا ہے، اور اگر یہ کہا جائے کہ اس عمل میں مولانا فضل الرحمان کا اپنا زیادہ کردار ہے تو غلط نہ ہوگا۔ مولانا محمد شیرانی اور حافظ حسین احمد جیسے مدبر سیاسی و مذہبی رہنماوں کا مولانا فضل الرحمان سے الگ ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ ان دونوں شخصیات میں تحمل مزاجی اور فیصلے سیاسی انداز میں کرنے کی بے پناہ صلاحیتیں ہیں، اور جب جماعتوں میں بات اصولوں کی ہونا شروع ہوجائے تو باضمیر اور اصول پسند لوگ سخت فیصلوں پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ توقع ہے کہ آنے والے دنوں میں جمعیت کے بعض دیگر رہنماء بھی مولانا شیرانی کی چھتری تلے آجائیں گے، جس کا فضل الرحمان کی جمعیت پر بے پناہ اثر پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 906927
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش