0
Tuesday 19 Jan 2021 12:30

اُس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

اُس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
تحریر: سیدہ مرضیہ نقوی

قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستین
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

3 جنوری 2020ء کا وہ سیاہ دن تھا، جب وقت کے فرعون نے مالک اشترِ زمان، مظلوموں کے یارومددگار سردار قاسم سلیمانی کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مگر اسے کیا معلوم شہید قاسم سلیمانی، سردار قاسم سلیمانی سے فرعونوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ اسے خبر نہ تھی کہ وہ سردار قاسم سلیمانی کو شہید کرکے خود ان کے ساتھ اور تمام عالم اسلام کے ساتھ کتنی بڑی نیکی کر رہا ہے۔ وہ آشنا نہ تھا کہ وہ سردار کو شہید کرکے ان کے مقاصد کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ ان کے افکار کو ہر باضمیر انسان میں زندہ کر رہا ہے، جب کبھی ایران کو دنیا میں اپنا تاثر بہتر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو امریکہ فوری طور پر اس کی مدد کو دوڑ پڑتا ہے۔ عالمی طاقتوں جیسے روس اور چین کی نظر میں ایران کا مقام اور بڑھا دیتا ہے۔ پھر چاہے وہ ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہو یا ان کے عظیم جنرل کا قتل۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا


وہ سردار قاسم سلیمانی پاسداران انقلاب کی القدس بریگیڈ کے سربراہ جنھوں نے اپنی عمر کے چالیس سال مظلوموں کی حمایت اور استعماری قوتوں کو نابود کرنے کی کوشش میں صرف کیے۔ جو کبھی عراق و شام سے داعش کا صفایا کرتے ہیں تو کبھی فلسطین و لبنان میں اسرائیلیوں کو شکست فاش سے ہم کنار کرتے ہیں۔ یہی قاسم سلیمانی ہمیں افعانستان و یمن میں بھی استعمار کے خلاف برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ قاسم سلیمانی کی زندگی کا بنیادی مقصد ہی اسرائیل کی نابودی اور فلسطین کی آزادی تھا۔ بقول شاعر:
خدمت شاہِ نجف میں کبھی لبنان میں ہے
معرکہ زن وہ کبھی عرصۂ افغان میں ہے
 کبھی اہواز میں تہران میں کرمان میں ہے
ایک ہی شخص کبھی شام کے میدان میں ہے
دشمن دین تجھے کاہے کی حیرانی ہے
وہ تو سردار ہے قاسم ہے سلیمانی ہے


اس کے برعکس امریکہ کا بنیادی مقصد اسرئیل کو عالمی سطح پر فروغ دینا اور تسلیم کروانا ہے اور اسی کے تناظر میں اس نے گریٹر اسرائیل اور ڈیل آف سینچری جیسے حربے استعمال کیے ہیں۔ عراق و شام میں داعش کو مسلط کرنا اور لبنان و یمن میں جارحیت اور سعودی عرب سے اتحاد اسی مقصد کو تکمیل تک پہنچانے کی ناکام کوششیں تھیں اور سردار قاسم سلیمانی سے وہ اسی لیے خائف تھے اور ہیں کہ اس کے اس مقصد کی راہ میں سب سے بڑا کانٹا تھے، کیونکہ وہ فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کے خواہاں تھے اور امریکہ نے سردار قاسم سلیمانی کے اس مقصد و فکر کو عالم اسلام میں پھیلا دیا۔ اب فلسطینی ان کو شہید قدس کہتے ہیں، یمنی ان کو شہید یمن کہتے ہیں۔ لبنانی ان کو شہید لبنان کہتے ہیں اور عراقی ان کو شہید عراق کہتے ہیں۔ تمام عالم کے مظلومین ان کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ وہ قاسم سلیمانی جو کبھی گمنامی میں زندگی بسر کرتے تھے، اب دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں


یہ پہلی بار تھی جب امریکہ نے اپنے کسی جرم کے بعد ببانگِ دہل ذمہ داری قبول کی، جس سے امریکہ عالمی برادری میں ذلیل و رسوا ہو کر رہ گیا ہے۔ خود امریکی عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف مظاہرے کرنے لگے ہے۔ عالمی برادری سے بھی کئی ایک ممالک نے امریکہ کے اس قبیح عمل کی مذمت کی۔ اس طرح امریکہ کا مکروہ چہرہ سب کے سامنے آشکار ہوگیا اور وہ اس کے حواری اب خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ سردار قاسم سلیمانی کی شہادت سے جہاں استعماری قوتیں رسوائی و ناکامی کا شکار ہوئیں، وہیں انتشار کا شکار مسلم امہ اتحاد کی طرف مائل ہوگئی۔

شہید اپنی زندگی میں بھی استعمار کی آنکھ کا کانٹا بنے رہے اور امت مسلمہ کی امید اور ان کی شہادت نے بھی عالمی استکبار کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ اس کا منہ بولتا ثبوت شہید قاسم سلیمانی کا عظیم الشان جنازہ تھا، جسے مسلسل چھ دن تک اڑھائی کروڑ عوام نے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ دو ممالک اور ان میں موجود معصومینؑ کے مزارات کا طواف اور سفر اللہ اکبر! آج تک ایسا جنازہ دیکھنے میں نہ آیا۔ لوگوں کے اس سمندر کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کسی نئے انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ بقول شاعر:
آیا ہے تیرے خون سے اب انقلاب ثانی
ان کا ملکوتی جنازہ دنیا کے ہر فرد کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ایسے ہوتے ہیں کربلا والے، کربلا کے درسِ حریت و شہادت کو عملی جامہ پہنانے والے ایسے ہوتے ہیں۔ شہید محسن نقوی نے کیا خوب کہا تھا، جیسے سردار قاسم سلیمانی کے لیے ہی کہا ہو:
اک جنازہ اُٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کے کسی فاتح کی سواری نکلے
خبر کا کوڈ : 911060
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش