0
Saturday 23 Jan 2021 14:55

 اِسلامی حکومت میں خُفیہ اداروں کا کردار

 اِسلامی حکومت میں خُفیہ اداروں کا کردار
تحریر: نصرت علی شہانی

آیات و روایات کی رُو سے خفیہ معلومات، جاسوسی کا جواز ذیادہ تر دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے اور سرکاری اہلکاروں، مناصب پر فائز افراد کی کارگزاری کا جائزہ لینے کے لئے ہوتا ہے۔ سورہ مبارکہ الانفال آیت 60 میں دشمن سے مقابلہ کے لئے ہر قسم کی طاقت کے استعمال کا حکم ہے۔ بعض مفسّرین اس سے اسلحہ کے علاوہ تدبیر، صلاحیت، حکمت عملی بروئے کار لانا اور دشمن کی جاسوسی، خفیہ معلومات حاصل کرنا بھی مراد لیتے ہیں۔ جنگ خندق میں رسول اکرمﷺ نے اپنے معتمد صحابی جناب حذیفہ بن یمان کو دشمن کی جنگی تیاریوں کے بارے خفیہ طریقے سے معلومات حاصل کرنے کے لئے بھیجا۔ ابو سفیان کے تجارتی قافلے کی معلومات کے لئے آںحضور ؐ نے بسیسہ نامی جاسوس کو بھیجا تھا۔ اسی طرح دشمن کے جاسوسی نظام کو ناکارہ بنانا بھی اسلامی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے، جیسا کہ بخاری کی روایت ہے کہ فتحِ مکہ کے لئے اسلامی لشکر کی تیاری کی خبر جب حاطب بن بلتعہ نے ایک خط کے ذریعے کفار کو بھیجی تو جبرئیل نے حضور کو خبر دی، جس پر آپ نے علیؑ کو حکم دیا، جنہوں نے خفیہ خط لے جانے والی عورت سے خط برآمد کرکے جاسوسی کی کوشش ناکام بنائی۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے مکہ میں اپنے ساتھی قثم بن العباس کو ایک خط میں تحریر فرمایا ’’مغرب سے میرے جاسوس نے اطلاع دی ہے۔۔۔۔۔‘‘ اس سے مولا علیؑ کے قائم کردہ جاسوسی کے نظام کا پتہ چلتا ہے۔ امیر المومنین علی ؑ نے مصر میں اپنے حاکم مالک بن اشتر کے نام اپنے معروف دستور َحکومت میں لکھا کہ سرکاری حکام کے امور کی نگرانی، کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ’’سچے اور وفادار‘‘ مُخبر، جاسوس مقرر کریں۔ اِس حکم سے خفیہ ایجنسی کے اہلکار کی بنیادی شرط سچائی اور اسلامی حکومت سے وفاداری ہے۔ سچائی درحقیقت دینداری کی بنیاد ہے یعنی مذکورہ اہلکار دیندار ہو، نیک سیرت ہو، کسی پر ظلم نہ کرے۔ ذاتی عناد، تعصّب یا کسی اور بنا پر کسی کے خلاف غلط رپورٹ نہ دے۔ یہ نگرانی بھی ان سرکاری حکام کے فرائضِ منصبی کا جائزہ لینے کے لئے ہو، نہ کہ اُن کی ذاتی زندگی کے بارے، کیونکہ سورہ مبارکہ الحجرات آیت نمبر 12 میں صراحت کے ساتھ کسی کے ذاتی امور میں تجسّس سے منع کیا گیا ہے۔

ویسے تو ایک عرصہ سے ہمارے خفیہ اداروں کے بارے بحث مباحثہ جاری ہے، لیکن جب بھی دہشت گردی کا کوئی سانحہ ہوتا ہے، ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی کوئٹہ کے پے در پے سانحات پر کہا تھا ’’18 گلیوں کے شہر کوئٹہ میں دہشت گردی ختم کیوں نہیں کی جاتی؟‘‘ اب 3 جنوری کے سانحہ مچھ کے بعد بھی کہا گیا کہ ہماری فوج کی طرح خفیہ ایجنسیاں بھی دنیا بھر میں اپنی مہارت کی خاص شہرت رکھتی ہیں تو طویل عرصہ سے بلوچستان میں ہونے والی مسلسل دہشت گردی کا نیٹ ورک ختم کیوں نہیں ہوسکا؟ انڈیا کی تخریب کاری کبھی لسانی تعصب کو ہوا دے کر اپنے آلہء کاروں کے ذریعے امن و امان کو تباہ کرتی ہے تو کبھی مذہبی انتہاء پسندی کے حربے سے وہ ہمیں زک پہنچاتا ہے، جیسا کہ کچھ عرصہ سے بدنامِ زمانہ ’’را‘‘ کی درندہ صفت ’’داعش‘‘ کی سرپرستی کی خبریں عام ہیں۔

مچھ کے مزدوروں کے سفاکانہ قتل کی ذمہ داری داعش نے اعلانیہ طور پر قبول کی ہے۔ محب وطن حلقوں کا موقف ہے کہ کوئی بھی بیرونی ہاتھ یا خفیہ ایجنسی مقامی ایجنٹ (سہولت کار) کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے، لہٰذا متعلقہ ادارے انہیں نمونہء عبرت بنائیں۔ بلوچستان میں مسلسل دہشت گردی میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے مقامی سرغنوں کے اپنے بیانات بڑے واضح ہیں۔ چند سال قبل ایک سو کے قریب بے گناہوں کو ہدف بنانے کے بعد کوئٹہ میں دہشت گردوں کے جشن کی شیطانی تقریب میں کالعدم تنظیم کے سرغنہ نے ’’سنچری‘‘ مارنے کے اعترافِ جرم کی وڈیو وائرل ہوئی تھی، جو یقیناً خفیہ ایجنسیوں کے علم میں ہے۔ نوائے وقت 10 جنوری کے کالم میں سابق وزیرِ داخلہ جناب رحمن ملک نے سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ شام کی جنگ میں داعش کا ساتھ دینے کے لئے جنوبی پنجاب سے ہزاروں افراد بھرتی کئے گئے تھے، جن میں سے تربیت یافتہ 8000 جنگجو اب ہمارے ملک میں ہیں۔ خفیہ ادارے یقیناً اس سے باخبر ہوں گے۔ ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی و دیگر شہروں میں مسلکی شناخت کی بنیاد پر بے گناہوں کو چُن چُن کر مارا جاتا رہا۔ ان کے قاتلوں کا سراغ لگانا کس کی ذمہ داری ہے۔؟

دہشت گردی کے متاثرین کو بجا طور پر سرکاری اداروں کی اس پالیسی پر تشویش ہے کہ کالعدم تنظیموں کے سرغنوں کو فورتھ شیڈول سے نکال دیا جاتا ہے، جبکہ ایسی تنظیم سے وابستگی ہی کسی کو اس شیڈول میں ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ اگر تمام سرکاری و ریاستی ادارے آئین اور محکمانہ قواعد و ضوابط کے اندر رہ کر کام کریں تو شاید زیادہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ بعض لوگ جبری لاپتہ شدگان کا معاملہ بھی خفیہ اداروں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ملکی امن تباہ کرنے والے بعض خطرناک مجرم قانونی سقم یا کسی اور وجہ سے قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں، جس کے لئے ادارے اپنی صوبدید کے مطابق عمل کرتے ہیں، لیکن کم درجہ کے ملزموں سے یہ سلوک تشویشناک ہے۔

قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی شہری کو غائب کر دینا اور طویل عرصہ تک عدالتی چارہ جوئی کے بنیادی حق سے محروم رکھنا امن و امان کے ذمہ دار اداروں کے لئے ہرگز نیک نامی کا باعث نہیں۔ اس حوالے سے عوامی تشویش میں اُس وقت اضافہ ہوا، جب کچھ عرصہ قبل چیئرمین سینیٹ نے بھی کہا تھا کہ ’’کہیں لاپتہ نہ کر دیا جائوں۔‘‘ خفیہ اداروں کے ذمہ داران ان الزامات، شکایات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ جس ملک و قوم کے لئے وہ اپنی جانوں پر کھیل کر ملک دشمن، امن دشمن عناصر کے خلاف مصروفِ جہاد ہیں، ایسا نہ ہو کہ اپنے ہی بے گناہ ہم وطن کسی اہلکار کے غیر ذمہ دارانہ رویئے کا شکار ہوں، جس کا الزام پورے ادارے پر عائد ہو، نیز ہر صاحبِ اختیا اپنی قبر اور حشر کی منزل کو یاد رکھے، جہاں ذرہ، ذرہ کا حساب دینا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 911906
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش