2
Saturday 30 Jan 2021 22:30

جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات(8)

جہانِ اسلام کے فراموش شدہ موضوعات(8)
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

مسئلہ کشمیر کے حل کے امکانات آج بھی روشن ہیں۔ یہ روشنائی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے پھوٹتی ہے۔ عمومی طور پر سلامتی کونسل اور چناب فارمولے کو اس مسئلے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم اگر پسِ منظر میں جا کر جائزہ لیا جائے تو  صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ سلامتی کونسل کی جتنی بھی قرار دادیں ہیں، وہ مستقل طور پر تحریکِ آزادی کشمیر کی خاطر منظور نہیں کی گئیں۔ ان قراردادوں نے پاکستان و ہندوستان کے مابین کشیدگی سے جنم لیا ہے۔ جب بھی ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھی تو عالمی برادری کی توجہ بھی اس مسئلے پر مرکوز ہوئی اور پھر وہی توجہ کسی قرارداد کا باعث بنی۔ جیسے ہی کشیدگی کم ہوئی تو وہ قرارداد بھی سردخانے میں چلی گئی۔ حتی کہ جب پاک و ہند نے ایٹمی دھماکے کئے تو تب بھی ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں دونوں ملکوں سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی تاکید کی گئی۔

اہم بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو خود ہندوستان سلامتی کونسل میں لے گیا ہے۔ اب عالمی برادری کے سامنے اس مسئلے کی اگر کوئی قانونی حیثیت ہے تو انہی قرادادوں کی وجہ سے ہے۔ اب جہاں تک شملہ معاہدے کی بات ہے تو یہ اپنے وقت کے مطابق ضروری تھا۔ 1971ء کی جنگ میں پاکستان 93 ہزار قیدیوں سمیت کافی زیادہ رقبہ بھی کھوچکا تھا۔ چنانچہ بھارت پاکستان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ تسلیم کروانا چاہتا تھا۔ پاکستان نے اس کڑے وقت میں اس پر اتفاق کیا کہ اس مسئلے کو بھی کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر حل کیا جائے گا۔ بعد ازاں بھارت اس حل کی طرف بھی نہیں آیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بھی قرار نہیں دلوا سکا۔

سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کے آٹھویں، نویں اور دسویں سیشن سے بالترتیب  محترم جاوید راٹھور صاحب، قابلِ قدر ڈاکٹر عنایت اللہ اندرابی صاحب اور جناب میر عدنان الرحمان صاحب نے مذکورہ مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی۔ راٹھور صاحب کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ فی الحال وہ امریکہ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز صحافت سے کیا، جہاں انہوں نے بطور رپورٹر اور سب ایڈیٹر کام کیا۔ ماہنامہ ریاست اور ہفت روزہ وطن کے مدیر بھی رہے۔ 1990ء میں وہ وزیراعظم آزاد کشمیر کے پریس سیکرٹری بھی رہے۔ 1992ء میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے انہیں اپنے مرکزی دفتر میں کشمیر ڈیسک کا انچارج  بھی بنایا۔ کشمیر ڈیسک انچارج کی حیثیت سے وہ کشمیر کے  متعلق محترمہ بےنظیر بھٹو کے ترجمان اور سپیچ رائٹر بھی رہے۔  انہی کی کوششوں سے پاکستان کی پارلیمنٹ میں پہلی بار پارلیمنٹری کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

22 سال پہلے وہ امریکہ منتقل ہوگئے، جہاں وہ ایک پاکستانی امریکن کی حیثیت سے امریکی سیاست میں کافی سرگرم رہے۔ امریکہ میں مسلم امہ کے مسائل پر اٹھنے والی آوازوں میں سے ایک آواز ان کی بھی ہے۔ وہ ایک کتاب Kashmir Myth and Reality کے مصنف بھی ہیں جبکہ ان کی دوسری کتاب "کشمیر سے امریکہ تک" جلد ہی مارکیٹ میں آنے والی ہے۔ جاوید راٹھور ایک پبلک سپیکر ہونے کے علاوہ ایک تجزیہ کار بھی ہیں اور وائس آف امریکہ کے علاوہ دیگر امریکی، پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس پر بین الاقوامی حالات بالخصوص ساؤتھ ایشیاء اور کشمیر کے متعلق اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ وہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں عملی طور پر سیاست سے بھی منسلک رہے ہیں اور پانچ سال پہلے انہوں نے امریکہ میں "کشمیر سالیڈیرٹی کونسل" کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد بھی رکھی ہے، جس کے وہ چیئرمین بھی ہیں۔ یہ تنظیم امریکہ میں کشمیر کے حوالے سے اہم رول ادا کر رہی ہے۔

اسی طرح نویں سیشن کے مہمان تجزیہ کار سید ایم عنایت اللہ اندرابی تھے۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں پیدا ہوئے۔ انہیں زمانہ طالب علمی سے ہی لکھنے پڑھنے اور تجزیہ و تحلیل کا شغف ہے۔ 1980ء سے مسلسل وہ اپنی سیاسی و اجتماعی سرگرمیوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 1983ء میں ہندوستان سے لسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ جامعہ کشمیر یعنی کشمیر یونیورسٹی میں اپنی خدمات انجام دینے کیلئے وطن واپس آئے، جہاں پر وہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ کشمیر کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی فعال رہے۔ تاہم کشمیر میں بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ڈاکٹر اندرابی اپنی فعالیت کو وہاں جاری نہیں رکھ سکے اور  انہیں 1994ء میں برطانیہ منتقل ہونا پڑا، جہاں وہ اپنی اہلیہ اور پانچ بچوں سمیت رہ رہے ہیں۔

ان دنوں وہ مختلف مقامی اور عالمی مسائل پر ٹویٹ کرتے ہیں، ٹی وی مباحثوں میں حصہ لیتے ہیں اور ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر تجزیہ و تحلیل کرنے اور لکھنے لکھانے  میں مصروف ہیں۔ مسئلہ کشمیر اور حالات حاضرہ کے حوالے سے ان کی  متعدد کتابیں اور کئی تحقیقی مضامین اسلام آباد، سرینگر اور لندن سے شائع ہوچکے ہیں۔ دسویں سیشن سے میر عدنان الرحمان صاحب نے خطاب کیا۔ وہ 2008ء سے آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفر آباد میں شعبہ قانون کے استاد ہیں۔ ایک دانشمند اور قانون دان ہونے کے ناتے وہ ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے  جھگڑے کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقاتی کاموں میں حصہ لیا ہے۔ اب تک وہ اس مسئلے سے متعلق کئی قومی و بین الاقوامی کانفرنسز سے خطاب کرچکے ہیں۔ بین الاقوامی مسائل خصوصاً مسئلہ کشمیر پر وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حوالے سے انتہائی جاندار تجزیہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 913327
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش