1
Saturday 13 Feb 2021 22:30

انقلاب اسلامی ایران اور پاکستان

انقلاب اسلامی ایران اور پاکستان
تحریر: تصور حسین شہزاد

انقلاب اسلامی ایران کی 42ویں سالگرہ کی تقریبات دنیا بھر میں جاری ہیں۔ مستضعفینِ جہاں سے لے کر مظلومین جہاں تک، ہر طبقہ انقلاب کی روشنی سے مستفید ہو رہا ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے بالخصوص اور غیر مسلموں کیلئے بالعموم انقلابِ اسلامی ایران ایک اُمید اور حوصلہ کے طور پر نمایاں ہوا۔ استعمار اور اسلام دشمن قوتوں نے ابتداء سے لے کر اب تک انقلاب کی راہ میں روڑے اٹکائے، انقلاب کیخلاف پروپیگنڈہ وار شروع کی اور دنیا کو انقلاب کے حوالے سے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ کبھی اسے ’’شیعہ انقلاب‘‘ کہا گیا تو کبھی اسے ’’ایرانی انقلاب‘‘ کہہ کر محدود کرنے کی کوشش کی گئی۔ استعمار نے کہیں اس سے سنیوں کو ڈرایا تو کہیں ایران کے ہمسایوں کو خوفزدہ کیا کہ انقلاب کی لہر ایرانی سرحدوں سے نکل کر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور تمام عرب ریاستوں پر چھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری قوتوں نے عربوں کی بادشاہت کو اس انقلابِ اسلامی سے بڑھ چڑھ کر خوفزدہ کیا۔ عرب حکمران اتنے خوفزدہ ہوگئے کہ انہیں انقلاب کے پس منظر میں اسلام سے بھی نفرت ہونے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ عرب حکمران ’’امت کی وحدانیت‘‘ سے نکل کر صرف عربوں تک محدود ہوگئے۔ انہیں امت مسلمہ کا احساس رہا نہ عرب عوام کا۔

عرب حکمران اگر استعماری سازشوں کا شکار نہ ہوتے اور اُمت واحدہ کے تصور پر عمل پیرا ہوتے تو ایران میں آنیوالا یہ اسلامی انقلاب ان کے دفاع کیلئے بھی سَپر کی شکل اختیار کر سکتا تھا، مگر عرب کے ان بدو حکمرانوں کی کم ظرفی کہ انہوں نے ایران سے زیادہ امریکہ و اسرائیل کے پروپیگنڈے کو قبول کیا اور ایران سے خوفزدہ ہوگئے۔ مگر اس دوری نے عربوں کو ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیا، جبکہ ایران آج بھی 42 برس بعد بھی، سربلند کھڑا ہے۔ انقلاب کو شیعہ انقلاب قرار دے کر پاکستان میں بھی اہلسنت علماء کو اس سے دور کرنے کی ناکام کوشش کی گئی، مگر سب سے پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے بانی رہنما ابوالاعلیٰ سید مودودیؒ نے انقلاب اسلامی کو تسلیم کیا اور پاکستان میں اہلسنت علماء میں پہلے عالم دین تھے، جنہوں انقلاب اسلامی کی تائید کی تھی۔ ان کے بعد دیگر علمائے بھی یکے بعد دیگرے انقلاب کو تسلیم کرتے گئے اور استعمار کو منہ کی کھانی پڑی۔

مولانا مودودیؒ کے حوالے سے ایسی روایات بھی ملتی ہیں کہ وہ انقلاب سے قبل ہی امام خمینیؒ سے رابطے میں تھے۔ پاکستان کی حکومت تو شاہ ایران کیساتھ تھی، مگر مولانا مودودیؒ امام خمینیؒ کو سپورٹ کر رہے تھے۔ امام خمینیؒ نے جب شاہ ایران کیخلاف 1963ء میں باقاعدہ تحریک چلائی تو شاہ کی فوجوں نے جامعہ المصطفیٰ اور دیگر مدارس پر چڑھائی کر دی تھی اور اس چڑھائی میں 10 ہزار سے زائد طلبہ اور ایرانی عوام شہید ہوئے تو جماعت اسلامی کے ترجمان مجلے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر اس قتل عام کی مذمت کی گئی اور ایک مضمون بعنوان ’’ایران میں دین اور لادینی کشمکش‘‘ شائع ہوا۔ اس مضمون میں امام خمینیؒ کے موقف کی تائید کی گئی اور شاہ کی پالیسیوں کی مذمت کی گئی۔ پاکستانی حکومت نے شاہِ ایران کی محبت میں ’’ترجمان القرآن‘‘ پر 6 ماہ کیلئے پابندی عائد کر دی۔ جماعت اسلامی کی انقلاب اسلامی کی تائید پر بعض اہلسنت علماء اور جماعت اسلامی کے عمائدین نے اعتراض بھی کیا کہ ایک شیعہ عالم دین کی سپورٹ مناسب نہیں، اس جواب میں مولانا مودودی نے بے خوف و خطر کہہ دیا کہ امام خمینیؒ عام شیعوں کے جیسے نہیں، بلکہ وہ بیدار مغر اور اسلام کی بات کرنیوالے عالم دین ہیں۔

مولانا مودودیؒ کے اس دو ٹوک موقف کے بعد جماعت اسلامی کے عمائدین خاموش ہوگئے اور انہوں نے بھی انقلاب اسلامی کیلئے امام خمینیؒ کی جدوجہد کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ مولانا مودودیؒ امام خمینیؒ سے سعودی عرب میں متعدد بار مل چکے تھے۔ جہاں انہیں امام خمینیؒ کی فکر کو سمجھنے کا موقع ملا۔ روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ مولانا مودودیؒ پاکستان میں بھی اسی طرز کا انقلاب چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ایران میں انقلاب کی کامیابی کے ثمرات پاکستان میں بھی ضرور پہنچیں گے۔ مولانا مودودی شیعہ سنی کی تفریق سے بالا تر ہو کر اُمت کی بات کرتے تھے اور یہی طرز امام خمینیؒ کا ایران میں بھی تھا۔ ایران میں اہل تشیع کیساتھ ایرانی سنیوں نے بھی انقلاب کو سپورٹ کیا اور امام خمینیؒ کی جدوجہد میں ان کے ساتھ رہے۔ مولانا مودودیؒ امام خمینی کو ’’بندہِ خدا‘‘ (man of God) کہتے تھے۔ پاکستان کے غیور اہلسنت نے کشادہ دلی سے انقلاب اسلامی کو قبول کیا۔ مولانا سمیع الحق نے بھی انقلاب اسلامی کی تائید کی اور ایران کے متعدد دورے کئے۔ مولانا فضل الرحمان بھی کئی بار ایران جا چکے ہیں۔ اسی طرح دیگر اکابرین اہلسنت کی بڑی تعداد نے انقلاب اسلامی کی تائید و حمایت کی اور تاحال اس کی حمایت میں کوشاں ہیں۔

دشمن نے بڑے پیمانے پر پاکستان میں پروپیگنڈہ کیا لیکن اتحاد و وحدت کے جذبے نے استعماری سازشیں ناکام بنائیں۔ ایران کو آج بھی دنیا بھر میں ’’حریت کا امام‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایران کو آج اگر کسی چیز نے مضبوط کیا ہے تو وہ انقلاب کی قوت ہی ہے کہ ایران بڑی بڑی سپر پاورز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ ایران آج پوری دنیا کے مظلوموں کا سہارا ہے، لیکن ایران کا سہارا انقلاب اسلامی ہے۔ دنیا میں جتنی بھی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، ان کا آئیڈیل ایران ہی ہے۔ کشمیر ہو یا فلسطین، دونوں کی نگاہوں کا مرکز ایران ہے۔ اگرچہ انقلابِ اسلامی کے اثرات براہ راست دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں تک پہنچ چکے ہیں اور بہت ساری تحاریک کی بنیادوں میں اسی انقلاب کی فکر موجود ہے، مگر جس انداز سے موجودہ قیادت اس انقلاب کو آگے لے جا رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ انقلاب کے اثرات دنیا کے باقی تمام خطوں تک جلد پہنچیں گے، جہاں تک ابھی نہیں پہنچ سکے۔ ایران نے امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ استعماری قوتوں کی جانب سے ایران کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت کی گئی، مگر ایران کی دُور اندیش قیادت نے اس کا ادراک کرکے اس سازش کو بھی ناکام بنایا۔

جغرافیائی اعتبار سے بھی پاکستان کیلئے ایران، چین اور ترکی ’’قدرتی دوست‘‘ ہیں۔ یہ فطری تعلق ہے، جس سے اگر مذکورہ تینوں ممالک میں سے کوئی ایک بھی منہ موڑے گا تو خسارے میں رہے گا، جبکہ پاکستان کو جن پر تکیہ ہے، انہوں نے پاکستان کو سوائے دلاسوں اور جھانسوں کے کچھ نہیں دیا، امریکہ پاکستان کا ایسا دوست ہے، جس کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے، جبکہ ہم نے ہمیشہ ذاتی مفاد کیلئے امریکہ کو ایران پر ترجیح دی ہے۔ افغان ایشو پر پاک ایران تعلقات متاثر ہوئے۔ ایران روس کیساتھ تھا تو پاکستان نے امریکہ کی دوستی پر اعتبار کر لیا، جس میں امریکہ اور سعودی عرب نے پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے ڈٹ کر استعمال کیا، جس کا نتیجہ پاکستان میں فرقہ واریت اور کلاشنکوف کلچر کی شکل میں نکلا۔ اس کے بعد پرویز مشرف دور میں پاک ایران کشیدگی کم ہوئی اور تعلقات میں بہتری آئی۔ ڈاکٹر قدیر خان کے بعض بیانات نے بھی ایران کو ناراض کیا لیکن صدر پرویز مشرف نے اس معاملے کو بھی کور کر لیا۔ پاکستان کیساتھ تعلقات میں اُتار چڑھاو کے باجود پاکستان اور ایران کے عوام ایک دوسرے کیلئے محبت، خلوص اور بھائی چارے کے جذبات رکھتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کی روز بروز مضبوط ہوتی قوت ثابت کرتی ہے کہ مستقبل ایران کا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو امریکہ کی بجائے چین، ایران اور ترکی کیساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنا ہوں گے۔ اسی میں پاکستان کی بہتری اور مضبوط مستقبل کا راز مضمر ہے۔
خبر کا کوڈ : 916103
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش