9
Friday 19 Mar 2021 02:30

اسرائیل اپنی ناکامی چھپانے میں ناکام

اسرائیل اپنی ناکامی چھپانے میں ناکام
تحریر: محمد سلمان مہدی

جوزف بائیڈن کے امریکی صدر بننے سے اب تک کی صورتحال پر غور کیا جائے تو امریکی زایونسٹ بلاک میں سب سے زیادہ خوفزدہ اور نالائق اسرائیل نظر آتا ہے۔ فلسطین کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے نگران وزیراعظم بنجامن نیتنیاہو نے حال ہی میں دعویٰ کیا کہ مزید چار ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ ان میں سے ایک کے سربراہ مملکت یا حکومت نے بقول نیتن یاہو پون گھنٹہ بات چیت بھی کی ہے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ کم سے کم پانچ مرتبہ نیتین یاہو کا دورہ متحدہ عرب امارات ملتوی کیا جاچکا ہے۔ آخری مرتبہ تو سہ طرفہ سربراہی کانفرنس منسوخ کرنا پڑگئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی میزبانی میں ابوظہبی میں امریکا اور امارات کی قیادت کے ساتھ نیتن یاہو نے بھی شرکت کرنا تھی۔ لیکن امارات کو تل ابیب سے نیتین یاہو کے مخالفین نے ایسی تڑی لگائی کہ امارات کے ہوش ٹھکانے آگئے۔

امارات سے متعلق دیگر دلچسپ نکات بھی ہیں۔ ان میں سرفہرست یہ کہ تعلقات قائم کرنے کے بعد باوجود کورونا وائرس دونوں طرف سے سیاحوں کی آمد و رفت ہوئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اسرائیلی چرسی اپنے نشے کے سامان کے ساتھ امارات آئے تھے اور بدلے میں کورونا وائرس لے کر لوٹے تھے۔ یہ حقیقت فراموش نہ ہو کہ اسرائیل کی جانب سے نیتین یاہو کے دورہ امارات کے ملتوی ہونے میں سب سے پہلا الزام اردن پر لگایا گیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ اردن نے فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ دوسری مرتبہ یمن کی مزاحمتی تحریک اور ان کی طرفدار یمنی فوج پر الزام لگایا گیا کہ ان کی جانب سے راکٹ یا میزائل حملے جاری ہیں، اس لیے دورہ ملتوی ہوا۔ اب پتہ چلا کہ خود اسرائیل کے اندر ہی نیتن یاہو کو شدید مخالفت کا سامنا ہے یا ممکن ہے کہ غیرت مند عرب مسلمانوں کی جانب سے واقعی سکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے بی بی نیتن یاہو کے رسمی اور اعلانیہ دورہ امارات کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو پا رہا۔

اسرائیل کی محبت میں امریکا بھی ذلیل و رسوا ہو رہا ہے۔ نوبت بہ اینجا رسید کہ ضلع کاؤنسل سطح کی فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے بھی دونوں کی ڈکٹیشن ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اسرائیل اور امریکا کو یہ خوف لاحق ہے کہ مئی 2021ء کے فلسطینی عام انتخابات میں حماس فاتح بن کر سامنے آسکتی ہے۔ اسی خوف کے پیش نظر محمود عباس سے کہا گیا کہ وہ الیکشن منسوخ یا ملتوی کر دیں لیکن محمود عباس نے صاف انکار کر دیا۔ صرف امریکا ہی نہیں بلکہ یورپی یونین کو بھی امریکی حکومت کی طرح اسرائیل کی محبت میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یورپ کی رکنیت کے درخواست گذار نیٹو اتحادی ملک ترکی نے یورپی یونین، قبرص اور اسرائیل تینوں کو بیک وقت شٹ اپ کال دے دی ہے۔ صدر رجب طیب اردگان کی حکومت نے تینوں کو سفارتی خط لکھ کر ہدایت کی ہے کہ وہ بحر متوسط میں زیر سمندر کیبل بچھانے سے پہلے ترکی سے باقاعدہ اجازت طلب کریں۔ حال ہی میں اسرائیل نے بعض یورپی ممالک کے ساتھ مل کر بحر متوسط میں مشقیں کیں تھیں۔ وہ سارا بھرم ترکی کے اس ایک خط سے ٹوٹ گیا۔

اردن کے ولی عہد حسین بن عبداللہ نے مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کرنے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ اسرائیلی حکومت کے انتظامات انہیں ناپسند تھے۔ حالانکہ اردن اسرائیل کو سال 1994ء سے تسلیم کرچکا ہے۔ باوجود این، اردن نے بھی نیتن یاہو کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ البتہ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں طاقتور ترین اتحادی بینی گنٹز (وزیر جارحیت) اردن کے شاہ سے خفیہ ملاقاتیں کرتا رہا ہے اور شاید زایونسٹ اسٹیبشلمنٹ نیتن یاہو کی جگہ کسی دوسرے کو 23 مارچ کو ہونے والے الیکشن کے بعد وزیراعظم بنانا چاہتی ہو، جو کہ بینی گنٹز بھی ہوسکتا ہے یا اس کا کوئی دوسرا اتحادی بھی ہوسکتا ہے۔ وہاں کی داخلی صورتحال انتہائی درجے کے بحران پر مبنی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے سماجی بحران پر اپنے غم و غصے کا اظہار ایک اخباری مقالے میں کیا تھا۔ ان کی تحریر سے لگتا تھا کہ اسرائیلی ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں۔

ابھی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے اسرائیل اور امریکا پر جنگی جرائم کے مقدمات سے متعلق اپنے دائر اختیار سے متعلق رائے ظاہر کی ہے تو دونوں بلبلا رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی تو مقدمہ بھی نہیں چلا، سزا تو بہت دور کی بات ہے۔ صرف جرائم کی عالمی عدالت کی جانب سے جنگی جرائم کے مقدمات سے متعلق رائے نے ہی دونوں کی نیندیں حرام کر دیں ہیں۔ مستقبل میں جنگی جرائم کے مقدمات میں عالمی عدالت میں پیشیوں کا اتنا خوف ہے کہ اسرائیلی صدر ریووین ریولن یورپ کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ جرمنی میں کہنے لگے کہ انہیں یقین ہے کہ یورپ ان کا ساتھ دے گا۔ جرمنی اور فرانس میں وہاں کے صدور اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یورپ میں اور خاص طور پر ان دونوں ملکوں کو کورونا وائرس کی وجہ سے بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ فرانس میں 91 ہزار 679 انسان کورونا وائرس کی وجہ سے مرچکے ہیں۔ جرمنی میں کورونا وائرس نے 74 ہزار 878 انسانوں کی جان لے لی ہے۔ ایسی صورتحال میں بھی ایک بڈھا اسرائیلی صدر دورے کر رہا ہے۔!

دوسری طرف جوزف بائیڈن کی امریکی حکومت کے دور میں امریکی مقننہ میں موجود ری پبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں جماعتوں کے گروہوں نے اسرائیلی صدر کو مشترکہ سیشن سے خطاب کی دعوت دی ہے۔ حالانکہ امریکا میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے سخت پابندیاں نافذ ہیں۔ یہ خطاب کس طرح ممکن ہوسکے گا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے وفد کا دورہ ماسکو ہوچکا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرجئی لاوروف سے حزب اللہ لبنان کے وفد کی ملاقات کے دو روز بعد اسرائیلی وزیر خارجہ گبی اشکینازی نے روس کے دورے کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ یعنی اسرائیل کے تناظر میں خطے کی صورتحال کا جائزہ لیں تو اسرائیل اپنی تمام تر پھرتیوں اور آنیوں جانیوں کے بعد بھی اپنے اندر کا خوف اور تنہائی کے احساس سے نکل نہیں پا رہا۔ بظاہر اسرائیل یہ تاثر دے رہا ہے کہ صورتحال بہتری کی طرف جا رہی ہے لیکن جس طرح بڈھے اسرائیلی صدر کو کورونا وائرس کی شدت کے دوران یورپ کا دورہ کرنا پڑگیا ہے اور جس طرح بار بار نیتن یاہو کا دورہ امارات منسوخ ہوا ہے، یہ ڈیولپمنٹس تو کسی اور ہی منظرنامے کو اجاگر کر رہی ہیں۔

اسرائیل اور پورے زایونسٹ امریکی بلاک کی پوری کوشش یہ رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کو ایک ایشو کے طور پر پیش کریں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ اصل ایشو فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔ بیت المقدس یروشلم پر اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ مقبوضہ فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس یروشلم میں غیر ملکی یہودیوں نے غیر قانونی بستیاں قائم کر رکھیں ہیں۔ اصل ایشو یہ ہے کہ لبنان اور شام کے بعض علاقوں پر بھی اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اصل ایشو یہ ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں جنگی جرائم کا ارتکاب بھی کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے ساتھ نتھی ایک اور بڑا ایشو یہ ہے کہ لاکھوں فلسطینی دوسرے ملکوں میں پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی خائن عرب حکمران یہ سمجھ رہے تھے کہ بس ایران ایران کا شور کرکے اصل ایشوز سے دنیا کی توجہ ہٹا دیں گے۔ لیکن ان پناہ گزین فلسطینیوں کی ان کے وطن فلسطین واپسی کے حق میں عالمی مہم کی کامیابی نے ان کی ناکامی پر مہر ثبت کر دی ہے۔

ہوا کچھ یوں ہے کہ ساٹھ سے زائد تنظیموں نے اس مہم میں حصہ لیا ہے۔ اس عالمی مہم کے تحت دو بین الاقوامی سطح کے ایونٹ منعقد ہوئے۔ ایک غزہ میں اور ایک ایران میں۔ یہ دونوں عالمی سطح کے ایونٹس اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف منعقد ہوئے۔ ان دونوں کی شاندار کامیابی یوں ہوئی کہ اس میں یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا اور بہت سے یورپی ممالک کے ایکٹیوسٹس اور تنظیموں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ ان ایونٹس میں حماس اور حزب جہاد اسلامی فلسطین کے قائدین نے بھی خطاب کیا۔ ساتھ ہی ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور ترکی، لبنان، شام اور یمن کے اراکین پارلیمنٹ نے بھی خطاب کیا۔ اسرائیل کے جنگی جرائم اور فلسطینیوں کے حق واپسی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے امریکا اور یورپی ممالک میں عوامی سطح پر اسرائیل سے نسل پرستانہ زایونسٹ یہودی نظریئے سے نفرت میں شدت اور اضافہ ہوا ہے۔ یہ چند مثالیں ہیں، اسرائیل کی ان ناکامیوں کی کہ جنہیں اسرائیل اور اس کے اتحادی چھپانے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ناکامی چھپانے میں تاحال وہ ناکام ہیں، جبکہ فلسطین اور فلسطینیوں کے حامی مشکلات کے باوجود استقامت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں۔!
خبر کا کوڈ : 922306
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش