1
Thursday 8 Apr 2021 17:35

دہ جماعتیں پاس ہوں، ڈائریکٹ حوالدار ہوں

دہ جماعتیں پاس ہوں، ڈائریکٹ حوالدار ہوں
تحریر: نذر حافی

یہ 1984- 1985ء کی بات ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب یونس جاوید اور راشد ڈار نے فن کی دنیا میں کمال کر دیا۔ قلم کار یونس جاوید تھے اور ہدیت کار راشد ڈار۔ اس زمانے میں  ڈرامہ سیریل اندھیرا اجالا نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس وقت آج کل کی مانند ایڈوانس ریکارڈنگ ممکن نہیں تھی۔ چنانچہ ایک دو دن میں ہی قسط کی لکھائی، ریہرسل اور ریکارڈنگ کا کام مکمل کیا جاتا تھا۔ یوں ڈیڑھ سال تک پینسٹھ اقساط میں پی ٹی وی سے یہ ڈرامہ نشر ہوا۔ ڈرامے میں چار کردار (ڈائریکٹ حوالدار کرمداد، ایس پی، تھانیدار اور سب انسپکٹر) انتہائی اہم تھے۔ یہ ڈرامہ اب بھی یوٹیوب پر موجود ہے، قارئین حسب فرصت ضرور دیکھیں۔ اس کی مقبولیت کی اہم وجہ عوامی مسائل کو اجاگر کرنا تھا۔ بنیادی طور پر اس میں دو کردار زیادہ نمایاں تھے۔ ایک پڑھے لکھے اور باشعور ایس پی کا کردار تھا، جس کے مکالمے سماج اور پولیس کا شعور بلند کرنے کیلئے تھے اور دوسرا کردار حولدار کرمداد کا تھا کہ جس کا دعویٰ تھا کہ دہ جماعتیں پاس ہوں، ڈائریکٹ حوالدار ہوں، کوئی مزاق نہیں ہوں ووئے۔۔۔

وقت گزرتا گیا اور ہمارے بہت سارے ہم عمر جو اس زمانے میں اندھیرا اجالا دیکھ کر خوش ہوتے تھے، بعد ازاں خود دہ جماعتیں پاس کرکے ڈائریکٹ حوالدار بن گئے۔ لگتا ہے کہ ان میں سے جو جس سیٹ پر بیٹھا، آج وہ عوام کا وہی حال کر رہا ہے، جو حوالدار کرمداد کیا کرتا تھا۔ خصوصاً ہمارے سکیورٹی اداروں کا تعلق چونکہ عوام کی جان و مال اور تحفظ سے ہے، اس لئے وہاں پر حوالدار کرمداد کا وجود سب سے زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ آج کے دور میں پرانے زمانے کے بڑے اور موٹے رجسٹر لے کر تفتان بارڈر پر لوگوں کی تفتیش کی جاتی ہے۔ بلا مبالغہ تین تین، چار چار گھنٹوں سے لے کر پانچ پانچ گھنٹے تک ایک ایک فیملی کو بچوں اور خواتین سمیت لائنوں میں کھڑا رکھا جاتا ہے۔ آپ کا نام کیا ہے؟ ابو کا نام کیا ہے؟ بیوی کا نام کیا ہے؟ تعلیم کتنی ہے؟ شادی کہاں سے کی ہے؟ نکاح خوان کون تھا؟ یہ ساری چیزیں ان رجسٹروں میں پھر سے لکھی جاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ان اداروں کو آج تک یہ نہیں پتہ کہ کمپوٹرائزڈ شناختی کارڈ و پاسپورٹ و نکاح نامے اور ویزے کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ ساری اطلاعات کمپیوٹرازڈ شکل میں نادرا کے پاس موجود نہیں ہیں۔؟

بارڈر سے ہٹیں تو پاکستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ بھی انتہائی خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ مسئلہ وہاں بھی جدید ٹیکنالوجی اور اخلاقی و شعوری تربیت کے فقدان کا ہے۔ ہمارے تفتیشی اداروں میں انگریزوں سے بھی قدیمی نظام رائج ہے، پرانا چودھری اپنی چودھراہٹ کو قائم رکھنے کیلئے اپنے علاقے کے تھانے اور چوکی کو خریدے ہوئے ہے اور وسیع اختیارات  کے باعث وہی قدیمی تھانیدار و حوالدار اپنے چہیتے کھوجی بابوں کے ذریعے چوروں کا سراغ اُنہی پرانے طریقوں سے لگاتے ہیں، من پسند لوگوں کو زبردستی اٹھا کر ٹارچر سیلوں میں لے جاتے ہیں، جس کے بعد کہیں کوئی قانون نہیں اور کوئی عدالت نہیں۔ ہماری متعلقہ حکام سے استدعا ہے کہ ایک طرف تو آپ تفتان بارڈر کی خبر لیں۔ بارڈر پر موٹے موٹے رجسٹر بھرنے اور بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو خواہ مخواہ بھوکا پیاسا اور سخت گرمی میں روڈ پر کھڑا کرنے کے بجائے تفتان میں ڈیٹا ریڈنگ کی ٹیکنالوجی استعمال کریں اور لوگوں کو اس عذاب سے نجات دیں۔

دوسری طرف مسنگ پرسنز کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں، سکیورٹی اداروں کے اختیارات میں بے پناہ اضافے کے بجائے اُنہیں جدید ٹیکنالوجی اور پڑھا لکھا عملہ فراہم کریں۔ اداروں کو ماورائے قانون بنانے کے بجائے انہیں قانون کی اہمیت سمجھائیں۔ انہیں ہر لحاظ سے اپڈیٹ کریں۔ ہم یہاں یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اہلکاروں کے ہاتھوں میں جدید ہتھیار دینے سے وہ ماڈرن نہیں ہو جاتے بلکہ اس سے وہ مزید خطرناک ہو جاتے ہیں۔ پھر سانحہ ساہیوال جیسے سانحات جنم لیتے ہیں۔ انہیں اپڈیٹ کرنے کیلئے ان کی ٹریننگ، سوچ اور  فکر کو ماڈرن کریں۔ انہیں انسانی حقوق، قانون کی اہمیت، عوام کا احترام، حالاتِ حاضرہ سے آگاہی، مشکلات کو حل کرنا، بات کرنے کا سلیقہ، چھوٹے و بڑے سے ہاتھ ملانے کا اسلوب اور مظلوم لوگوں کی مدد کرنا  سکھائیں۔

پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ اندھیرے اجالے کی ڈرامہ سیریل میں ایک ایس پی کا کردار تھا، جو گشت کیا کرتا تھا اور شعور کی سطح  کو بلند کرنے کیلئے اپنے ماتحتوں سے کم از کم ایک آدھ جملہ ہی کہہ دیتا تھا۔ لیکن اب یہاں اس ملک میں تو کوئی ایسا ایس پی بھی نہیں رہا، جو تفتان بارڈر کا گشت کرے یا مسنگ پرسنز کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے۔ ہرطرف ایک ہی آواز ہے:
دہ جماعتیں پاس ہوں، ڈائریکٹ حوالدار ہوں، کوئی مزاق نہیں ہوں ووئے۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 926055
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش