0
Monday 19 Apr 2021 01:38

دفاع مقدسات جرم کیسے؟

دفاع مقدسات جرم کیسے؟
تحریر: ہمیش علی

بابائے قوم حضرت قائداعظم (رہ) نے قیام پاکستان کے موقع پر واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ ’’یہ مملکت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر وجود میں آئی ہے، یہاں تمام مسالک اور مذاہب کے پیروکاروں کو اپنی عبادات اپنے اپنے طریقہ سے ادا کرنے کا مکمل حق حاصل ہوگا۔‘‘ اگر آسان الفاظ میں کہا جائے تو بانی پاکستان کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنا عقیدہ و مذہبی تشخص برقرار رکھنے اور اپنے مذہبی مقدسات کے دفاع کا حق حاصل ہوگا، بلکہ آئین پاکستان کے مطابق مذہبی مقدسات کے تحفظ کی ذمہ دار ریاست ہے۔ جو ملک لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر قائم ہوا ہو، وہاں کے باسیوں کی خدا، رسول (ص) اور آل رسول (ع)، و اصحاب (رض) کیساتھ محبت و عقیدت ایک فطری عمل ہے۔ خوش قسمتی سے ہم دنیا کے اس ملک رہائش پذیر ہیں، جہاں محبان محمد (ص) و آل محمد (ع) کی ایک غالب اکثریت موجود ہے تو غلط نہ ہوگا۔ وطن عزیز پاکستان ان محبان اہلبیت (ع) شیعہ، سنی نے ملکر ہی بنایا تھا، یہ سوچ کر کہ یہاں ہم مکمل آزادی کیساتھ ان پاک ہستیوں کی محبت دلوں میں رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں گے۔

جس ملک میں عوام کی غالب اکثریت کا مزاج بلاتفریق مسلک اس طرح ہو، وہاں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، کربلا، نجف و شام کیساتھ محبت و عقیدت فطری عمل ہے۔ مٹھی بھر تکفیریوں سے ہٹ کر پاکستان کے عوام سعودی عرب کیساتھ عقیدت وہاں کے عیاش و بدعقیدہ آل سعود کی وجہ سے نہیں، بلکہ خانہ کعبہ اور روضہ رسول (ص) کیوجہ سے رکھتے ہیں۔ اسی طرح عراق، شام اور ایران کی بات کی جائے تو پاکستان میں بسنے والے محبان محمد (ص) و آل محمد (ع) کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت ہے، ایران میں ڈاکٹر حسن روحانی صدر ہیں یا عراق میں مصطفیٰ کاظمی وزیراعظم۔ ان لوگوں کا ان ممالک یا ان مقامات سے رشتہ مذہبی عقیدت و محبت کا ہے۔ بحیثیت پاکستانی ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارا وطن اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے، لہذا ایسی صورتحال میں امت مسلمہ کے حالات سے باخبر رہنا اور جہاں ممکن ہو، وہاں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ایک اسلامی مملکت کا فرض ہے۔

اگر خدا نخواستہ کل کوئی جھتہ یا لشکر خانہ کعبہ پر حملہ آور ہو تو پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان کسی نہ کسی طرح اس کے دفاع کیلئے خود کو پیش کرینگے، کیونکہ ہماری غیرت ایمانی یہ ہرگز برداشت نہیں کرے گی کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کے مسلمان شہری خاموش بیٹھے رہیں، اسی طرح جو مسلمان خانہ کعبہ اور روضہ رسول (ص) کے تحفظ کیلئے پیش پیش ہو، وہ ہرگز یہ بھی برداشت نہیں کرے گا کہ اگر آل رسول (ص) کے مزارات کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے اور میں خاموش بیٹھا رہوں۔ یعنی وطن عزیز کے قیام کے مقاصد، آئین پاکستان کی روح اور ہماری مذہبی ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہاں یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر عراق اور شام میں موجود اہلبیت (ع) کے مزارات کو اگر کوئی بدبخت جتھہ یا لشکر نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تو اس کا دفاع کرنا ہمارا مذہبی و قومی فریضہ ہے، نہ کہ کسی پراگسی وار کا حصہ۔ 

جب عالمی دہشتگرد تنظیم داعش عراق اور شام پر حملہ آور ہوئی اور اس نے عوام کے قتل عام کے بعد جب مقدسات کو نشانہ بنانے کی ٹھانی تو ایسے میں دنیا کے مختلف ممالک میں آباد محبان اہلبیتؑ سے یہ برداشت نہ ہوا، انہوں نے اپنا فرض اولین سمجھا اور دفاع مقدسات کی خاطر پہنچ گئے۔ اسی طرح پاکستان سے بھی چند نوجوان اس نیت سے میدان جنگ میں وارد ہوئے کہ روز محشر وہ کوفیوں کیساتھ نہ اٹھائے جائیں بلکہ اصحاب امام حسینؑ کی طرح سرخرو ہوں۔ مگر یہاں افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان میں ان نوجوانوں کو واپسی پر جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ جب قائدین ملت جعفریہ کی حکمرانوں اور ریاستی اداروں کیساتھ اس معاملہ پر بیٹھکیں ہوئی تو بتایا گیا کہ ہمیں اس امر پر اعتراض نہیں کہ پاکستان سے لوگ مقدسات کی حفاظت کیلئے گئے، بلکہ ہمیں یہ خدشہ ہے کہ کہیں یہ لوگ (طالبان کی طرح) تربیت یافتہ ہو کر واپسی پر وطن کیلئے نقصان دہ ثابت نہ ہوں۔

بالفرض یہاں ریاست کا یہ موقف درست تسلیم کرلیا جائے تو کیا اس مسئلہ کو حل کرنے کا یہی طریقہ رہ گیا تھا کہ انہیں خاموشی سے جبری طور پر لاپتہ کر دیا جائے۔؟ غیر قانونی طریقہ سے ان کو خانوادوں کی نظروں سے دور کر دیا جائے اور عدالتوں میں پیش تک نہ کیا جائے۔؟ یہاں یہ امر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ شام و عراق میں داعش کیخلاف جنگ سے قبل بھی پاکستان میں شیعہ نوجوانوں کو لاپتہ کیا جاتا رہا ہے، لیکن اس میں شدت اس حالیہ عذر کی وجہ سے آئی۔ مقتدر قوتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں شیعہ مسلک کے پیروکاروں نے کبھی دہشتگردی نہیں کی، کبھی کوئی شیعہ خودکش بمبار نہیں پھٹا، کبھی کسی شیعہ نے ریاستی اداروں پر حملہ نہیں کیا، پھر کیوں اہل تشیع کیخلاف ملک میں ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔؟ کیا سب کچھ جانتے بوجھتے کسی بیرونی ڈکٹیشن پر عمل کیا جا رہا ہے۔؟

پاکستان سے اگر چند نوجوان دفاع مقدسات کی خاطر شام و عراق گئے تو یہ کسی ملک کے دباو پر نہیں بلکہ اپنا مذہبی وظیفہ ادا کرنے گئے، انہیں یقینی طور پر پاکستان سے اتنی ہی محبت ہے، جتنی دوسرے محب وطن کو۔ ان جوانوں میں اکثر تو اپنے مولا حسینؑ اور پاک بی بی زینب (س) کی خاطر شہید ہوگئے، جو واپس آئے، ان میں سے تو کسی ایک نے بھی پاکستان مخالف تحریک نہیں چلائی۔ حالیہ مسنگ پرسنز کے خانوادوں کی تحریک ریاست پاکستان سے صرف یہی قانونی اور آئینی مطالبہ کر رہی ہے کہ اگر کوئی شخص وطن عزیز کیخلاف کسی سرگرمی میں ملوث رہا ہے تو آپ بتائیں، ہم اس کا ہرگز ساتھ نہیں دیں گے، اسے عدالت میں پیش کریں، سزا دلوائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہم تو قول معصومؑ کے مطابق وطن سے محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں، ہم ہرگز اپنے وطن کے دفاع اور سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، تاہم اگر مقدسات کا دفاع کرنا آپ کی نظر میں جرم ہے تو یہ جرم ہر شیعہ، سنی پاکستانی کرسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 927941
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش