9
Tuesday 11 May 2021 01:55

مقبوضہ بیت المقدس کی تحریک آزادی کی خائن شکن انگڑائی

مقبوضہ بیت المقدس کی تحریک آزادی کی خائن شکن انگڑائی
تحریر: محمد سلمان مہدی

مقبوضہ بیت المقدس ایک اور مرتبہ مزاحمت کی تاریخ کا ایک نیا باب رقم کر رہا ہے۔ دس مئی 2021ء کا سورج اس شان سے طلوع و غروب ہوا کہ مقبوضہ بیت المقدس میں عالم اسلام و عرب کے غیرت مند بیٹے حق آزادی کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ سال 1967ء سے بیت المقدس پر اسرائیل کا مکمل لیکن غیر قانونی قبضہ ہے۔ بیت المقدس (یروشلم) پر اسرائیلی قبضہ انٹرنیشنل لاء کے مطابق بھی غیر قانونی ہے۔ مقبوضہ فلسطینی عرب علاقوں میں یہودی نسل پرستوں کی بستیاں (تعمیرات) بھی انٹرنیشنل لاء کے مطابق ناجائز اور غیر قانونی ہیں۔ اسی مقبوضہ فلسطینی علاقے بیت المقدس کے ایک محلے شیخ الجراح سے فلسطینی عرب مکینوں کو جبری بے دخل کیا جا رہا تھا۔ اس کے خلاف کئی دنوں سے فلسطینی عرب احتجاج کر رہے تھے۔ فلسطینی عربوں کو ماہ رمضان کے آغاز ہی میں ناجائز قابض اسرائیل کی پولیس نے فلسطینی مسلمانوں کے سالانہ اجتماع کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ اس کے خلاف بھی بیت المقدس کے باب العامود کی طرف احتجاج کا سلسلہ جاری تھا۔ دوسری طرف عظمیٰ یہودی نامی نسل پرست ٹولے کے عرب دشمن انتہاء پسند یہودی قائدین اور ان کے حامی بھی فلسطینی عربوں پر حملہ آور تھے۔ شیخ الجراح سے فلسطینی عربوں کی جبری بے دخلی میں بھی عظمیٰ یہودی جماعت کے سرغنہ اور کارکن پیش پیش تھے۔ اسرائیلی پولیس اور انتہاء پسند نسل پرست یہودیوں کی جانب سے فلسطینی عربوں کی توہین و تذلیل اور نسل پرست یہودیوں کی غیر قانونی یہودی بستیوں کی توسیع کا سلسلہ جاری تھا۔

یاد رہے کہ یہ سب کچھ متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد کا منظر نامہ ہے۔ نہ تو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل آج تک بیت المقدس (یروشلم) سے اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ ختم کرواسکی ہے اور نہ ہی غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر۔ عرب لیگ، او آئی سی، جی سی سی کہ جہاں سعودی عرب اور اس کے اتحادی عالم عرب و عالم اسلام کے خود ساختہ چوہدری بنے بیٹھے ہیں، یہ سبھی جو ہمیشہ متحد نظر آتے ہیں، انہوں نے بھی بیت المقدس کو غیر قانونی اسرائیلی قبضے سے آزاد نہیں کروایا۔ یہ سبھی اسرائیل کو غیر قانونی یہودی نسل پرست بستیوں کی تعمیر سے باز نہ رکھ سکے، بلکہ اس کے برعکس سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، اردن، ترکی اور قطر کے اتحادی اور شراکت دار یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا۔ تب سے اب تک یہ سارے امریکی زایونسٹ بلاک ہی کا اٹوٹ انگ ہیں، کسی میں بھی اتنی غیرت، اتنی شرم و حیا نہیں کہ کم سے کم امریکی حکومت کے اس غیر قانونی اور ناجائز فیصلے کے خلاف احتجاج کے طور پر امریکا سے تعلقات منقطع کرکے اس کا بائیکاٹ کر دیتے اور ان کا ایسا نہ کرنا ہی امریکا اور اسرائیل کے لیے سب کچھ کر گذرنے کا گرین سگنل تھا۔ یہی وجہ بنی کہ امریکا و اسرائیل نے پوری دنیا کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ کام انجام دیئے جو انٹرنیشنل لاء کی رو سے بھی غیر قانونی اور ناجائز تھے۔

نیٹو اتحادی ممالک اور عرب لیگ، جی سی سی اور او آئی سی کے رکن ممالک میں امریکی اتحادی نام نہاد عرب و مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد ہی اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں پر حملے کیے۔ خائن عرب و مسلمان حکمران کی خیانت ہی ہے کہ جس کی بناء پر اسرائیل نے شیخ الجراح محلے میں فلسطینیوں کو جبری بے دخل کرنے کی سازش پر عمل کیا۔ یہ ان غدار اور مکار نام نہاد عرب و مسلمان حکمرانوں کی غداری اور مکاری ہی ہے کہ اس برس رمضان کے ماہ مقدس میں فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ بیت المقدس میں عبادت اور دیگر دینی رسومات ادا کرنے کی راہ میں بھی اسرائیل نے رکاوٹیں ڈالیں، بلکہ وہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے کمپاؤنڈ کے اندر آکر بے حرمتی کرنے لگے۔ سینکڑوں کی تعداد میں فلسطینی مقبوضہ بیت المقدس میں، مسجد اقصیٰ، باب العامود اور اطراف میں اسرائیلی پولیس اور نسل پرست انتہاء پسند یہودیوں کے حملوں میں زخمی ہوئے۔ یہ ان کی مظلومیت کا ایک رخ تھا، لیکن انہوں نے شجاعانہ طریقے سے استقامت کی نئی تاریخ رقم کی۔ وہ میدان میں رہے۔ انہوں نے امام خامنہ ای صاحب کی اپیل پر یوم القدس بھی منایا۔ نہ صرف اتنا بلکہ مسجد اقصیٰ اور القدس کے کمپاؤنڈ میں باجماعت نمازیں بھی ادا کیں۔ شب قدر کی مقدس راتوں میں بھی اسرائیلی پولیس نے ان پر حملے کیے۔ شب قدر کی مقدس راتوں میں بھی اسرائیلی فائرنگ کے باوجود انہوں نے شب قدر کے اعمال انجام دیئے۔

غزہ میں مقیم عرب اسلامی مقاومت کے قائدین نے اسرائیل کو وارننگ جاری کر دی کہ دس مئی پیر کے روز وہاں کے مقامی وقت کے مطابق شام 6 بجے تک مقبوضہ بیت المقدس کا متاثرہ علاقہ خالی کر دیں، ورنہ ان پر راکٹ برسائے جائیں گے۔ یاد رہے کہ نسل پرست یہودی وہاں آج بیت المقدس پر مکمل قبضے کی یاد میں یروشلم ڈے منانے نکلے تھے۔ شام 6 بجنے کے بعد جونہی حسب اعلان راکٹ گرنا شروع ہوئے تو خود بخود سارے نسل پرست یہودی وہاں سے فرار پر مجبور ہوگئے۔ کتائب عزالدین قسام، سرایا القدس اور سرایا سلام نامی مسلح فلسطینی قومی مزاحمتی گروہوں نے راکٹ برسا کر اسرائیل کو تنبیہ کی۔ یاد رہے کہ اسرائیل کا بیت المقدس پر قبضہ  اقوام متحدہ کے قانون کی کے مطابق بھی ناجائز اور غیر قانونی ہے۔ بین الاقوامی اقدار اور قوانین کی رو سے غیر ملکی ناجائز و غیر قانونی قبضے سے آزادی کی قومی مزاحمتی تحریک بھی جائز ہوا کرتی ہے۔ اس تناظر میں اسرائیل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور اس کے غیر قانونی قبضے اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف مقبوضہ فلسطین و مقبوضہ بیت المقدس کے عرب فلسطینیوں کا ردعمل قانون کے لحاظ سے سو فیصد جائز ہے۔ یادر ہے کہ فلسطینی عرب مسلمانوں کی اکثریت نہ تو ناصبی ہے اور نہ ہی تکفیری، بلکہ یہ اہل بیت نبوۃ ﷺ سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔ ان کی اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ ان پر تکفیریت و ناصبیت کا الزام غلط ہے۔ گو کہ تکفیری و ناصبی بھی وہاں ہوں گے، لیکن وہ سارے صہیونیت اور سعودی و دیگر خلیجی عرب ناصبی تکفیریوں کے پراکسیز ہیں۔

یاد رہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے دفاعی راکٹوں کی وجہ سے جانی نقصانات بہت کم ہوا کرتا ہے اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ ڈیڑھ سو راکٹ برسنے کے بعد بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ البتہ اس نے فلسطین کے غاصب اسرائیلی مکینوں کا دن کا سکھ چین اور رات کی پرسکون نیند کو ناممکن ضرور بنا دیا تھا۔ لیکن اسرائیل نے غزہ میں میزائل فائر کرکے متعدد فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ کم سے کم بیس فلسطینی شہری اسرائیلی میزائل حملے میں شہید ہوئے۔ اس سے قبل دن میں اسرائیل نے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، شام کے صوبے قنیطرہ میں شہری آبادی پر بھی میزائل داغے تھے۔ شام کی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی اور سویلین کی شہادت پر بھی اقوام متحدہ، عرب لیگ، او آئی سی اور جی سی سی سمیت کسی نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔   اب ایسی بے حسی کے عالم میں تنگ آمد بہ جنگ آمد کے علاوہ اور کیا آپشن بچتا ہے۔ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی قیادت میں پورا مغربی بلاک اور اس کے عرب و غیر عرب اتحادی یا تو اعلانیہ اسرائیل کے ساتھ ہیں، ورنہ درپردہ تو طویل عرصے سے اسرائیل کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ البتہ یہ خائن، مکار و غدار حکمران محض زبانی جمع خرچ کی حد تک مناقفانہ بیانات جاری کرکے عرب و مسلمان عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ یمن کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے سعودی عرب کی قیادت میں متعدد عرب ممالک نے یمن پر یلغار کی اور تاحال جارحیت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے بحرین کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے، لیکن مقبوضہ بیت المقدس و قبلہ اول کی آزادی کے لیے ان میں سے کسی نے بھی کوئی فوجی کارروائی نہیں کی۔ یہی ان کی منافقت، خیانت، غداری اور مکاری کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔

یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کے صدر جوزف بائیڈن کی حکومت کی منافقت، اسلام دشمنی اور عرب دشمنی کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اس نے مقبوضہ بیت المقدس پر ٹرمپ حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اسرائیل کی جانب سے انٹرنیشنل لاء کی خلاف ورزی پر مبنی اقدامات کی لفظی مذمت بھی نہیں کی۔ اس کے برعکس اسرائیل کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی اور فلسطینیوں کے جائز ردعمل کی مذمت کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کی۔ لیکن امریکی بلاک کی کھلی سرپرستی کے باوجود اسرائیلی امریکی دہری شہریت کے حامل یہودی فوری طور پر امریکا سے نکلنا چاہتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جن کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہوچکی ہے، وہ امریکی سفارتخانے سے پاسپورٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن امریکی سفارتخانہ انہیں تاکید کر رہا ہے کہ کوشش کرتے رہے۔ خائن، مکار، غدار آئرن ڈوم کی جانب سے فلسطینی راکٹ کو ناکارہ بنانے کی خبروں کو پھیلا کر خوش ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کے گروگھنٹال بنجامن نیتنیاہو، بینی گنٹز سمیت سارے اسرائیلی قائدین کو لگ پتہ گیا ہے کہ اب مقبوضہ یروشلم کا مغربی یہودی حصہ بھی عرب اسلامی مقاومت کے راکٹوں کی زد پر ہے۔ دس مئی 2021ء کا سورج اسی پیغام کے ساتھ فلسطین میں غروب ہوا کہ اب اسرائیل کسی بھی علاقے کو مستثنیٰ نہ سمجھے۔ شمال، جنوب، مرکز، کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ فلسطینی راکٹوں نے دس مئی 2021ء کو اسرائیل کو بیت المقدس پر ناجائز قبضے کا جشن یروشلم ڈے نہیں منانے دیا! تا دم تحریر عرب اسلامی مقاومت کے راکٹ اسرائیل کے میزائلوں کے جواب میں برس رہے ہیں۔ حماس کا بیان ہے کہ وہ جنگ شروع کرنا نہیں چاہتے، لیکن اسرائیلی میڈیا کہہ رہا ہے کہ بڑی جنگ کا خطرہ خارج از امکان نہیں۔
خبر کا کوڈ : 931933
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش