1
0
Friday 21 May 2021 22:02

حماس اسرائیل جنگ فاتح کون رہا؟

حماس اسرائیل جنگ فاتح کون رہا؟
تحریر: سید اسد عباس

گیارہ روزہ خون ریز اور تباہ کن جنگ کے بعد فلسطین میں جنگ بندی ہوگئی۔ حماس کے ایک راہنماء اسامہ حمدان کے مطابق ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ شیخ جراح اور مسجد اقصیٰ پر سے اسرائیلی حکومت اپنے ہاتھ اٹھا لے گی۔ اس جنگ میں تقریباً 257 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں 100 سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں، اسی طرح اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہوئے۔ اس جنگ کی ایک خاص بات حماس کے راکٹ تھے، جو اسرائیل کے دفاعی نظام آئرن ڈوم کو چکمہ دے کر اسرائیل کے مختلف شہروں میں گرے۔ اسرائیل کے دعوں کے مطابق حماس کے ان حملوں میں تقریباً 12 اسرائیلی شہری مارے گئے۔ تاہم فلسطین اور اسرائیل کے حملوں میں ایک واضح فرق یہ ہوتا تھا کہ اسرائیل پر جب راکٹ حملہ ہوتا ہے تو اس علاقے کی ساری آبادی بمب شیلٹر میں چلی جاتی ہے اور رات اسی شیلٹر میں گزارتی ہے، جبکہ فلسطینی اگر اطلاع ہو تو فقط وہ عمارت خالی کر دیتے، جو اسرائیل کا ہدف ہوتی۔

اس جنگ میں اسرائیل نے کئی ایک فلسطینی عمارتوں کو نشانہ بنایا، جن میں فلسطین کی بلند ترین عمارت بھی شامل ہے، جس میں عالمی میڈیا کے کئی ایک دفاتر موجود تھے۔ جنگ تو بہرحال جنگ ہوتی ہے، جو تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتی۔ نقصان دونوں جانب ہوا، فلسطین کا زیادہ نقصان جانی اور مالی تھا جبکہ اسرائیل کا نقصان مالی، سیاسی اور سب سے زیادہ حوصلوں کی موت کا تھا۔ اسرائیلی جو مقدس سرزمین پر یورپ سے امن و امان کی فضا میں زندگی گزارنے آئے تھے، حماس کے راکٹوں کو اپنے اوپر پرواز کرتا دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے۔ اب تو وقت ہی بتائے گا کہ دوہری شہریت کے حامل کتنے شہری اسرائیل میں مزید زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک فلسطینی کی بات یاد آگئی، جو نوے کی دہائی میں ہونے والے ایک مظاہرے میں اسرائیلی فوجیوں سے کہہ رہا تھا کہ تم افسوس کرو گے کہ اس زمین پر کیوں پیدا ہوئے۔ وہ کھڑے سپاہیوں کو چیلنج کرتا ہے کہ تم میں سے جس کا دادا اسرائیل میں پیدا ہوا ہے، وہ سامنے آئے، تاکہ میں اپنا مکان اسے دے دوں۔ اس کے جواب میں ایک بھی اسرائیلی جواب نہ دے پایا۔

اسرائیلی بربریت کی مذمت کا سلسلہ دنیا میں آہستہ آہستہ شروع ہوا اور اس قدر پھیلا کہ آخرکار اسرائیل کو تقریباً یک طرفہ جنگ بندی کرنی پڑی۔ ایک اندازے کے مطابق حماس نے اسرائیل پر 4000 راکٹ فائر کیے، جن کو روکنے کے لیے تقریباً دوگنے دفاعی میزائل چھوڑے گئے۔ ان دونوں میزائلوں کی قیمت کا فرق بھی معنی خیز ہے۔ اسرائیل کو ایک ہزار ڈالر کے ایک راکٹ کو تباہ کرنے کے لیے تقریباً دس ہزار ڈالر کے دو میزائل چلانے پڑے۔ یہ خرچ یقیناً اسرائیل کی کرونا سے متاثر کمزور معیشت اور شہریوں کو ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرنا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیل گذشتہ دو برس سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ نیتن یاہو دو برس میں ہونے والے چار عام انتخابات میں نہ تو واضح اکثریت حاصل کرسکے ہیں اور نہ ہی کسی دوسری جماعت سے اتحاد بنا سکے۔ اسرائیلی صدر کی جانب سے دی جانے والی 28 روز کی مہلت بھی ختم ہوچکی۔

اب اسرائیلی صدر نے حزب مخالف کے امیدوار کو حکومت سازی اور واضح اکثریت حاصل کرنے کے لیے 28 روز کی مہلت دی ہے، اگر وہ بھی اس میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر اسرائیل میں پانچویں عام انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ مبصرین کے مطابق نیتن یاہو نے موجودہ حالات اسی سیاسی عدم استحکام کے مدنظر وضع کیے۔ وہ چاہتے تھے کہ اسرائیل میں ایسی صورتحال جنم لے، جس سے اسرائیل کی سیاسی جماعتیں متاثر ہو کر ایک تجربہ کار وزیراعظم پر اعتماد کریں اور نیتن یاہو اگلی حکومت تشکیل دے سکیں۔ اگر نیتن یاہو اگلی حکومت تشکیل نہیں دیتے تو ان کے خلاف جاری کرپشن کی تحقیقات نیتن یاہو کے سیاسی کیرئیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اور نیتن یاہو وزارت عظمیٰ کے بجائے عدالت عظمیٰ کے حکم پر جیل بھی جا سکتے ہیں۔

 اس پس منظر میں نیتن یاہو کے زیر کنٹرول سکیورٹی اداروں نے رمضان المبارک کے مہینے سے ہی مسجد اقصیٰ میں آنے والے نمازیوں کے ساتھ سختی کا آغاز کیا۔ مسجد اقصیٰ کے قریب واقعہ آبادی شیخ جراح سے فلسطینی شہریوں کو جبری طور پر بے دخل کیا گیا۔ اسرائیلی فورسز کی نمازیوں کے خلاف کارروائی اور مسجد اقصیٰ کے تقدس کی پامالی کے خلاف حماس نے اقدام کیا، جس کا آغاز 10 مئی کو ہوا۔ جواباً اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا آغاز کیا۔ پاکستان میں بعض لبرل دانشور یہ سمجھتے تھے کہ فلسطینیوں کو اسرائیل پر راکٹ نہیں برسانے چاہئیں، جس کے جواب میں اسرائیل غزہ پر حملہ کرتا ہے اور انسانی جانیں تلف ہوتی ہیں۔ لبرل دانشور تو ایک جانب بعض مسلمان حکمران جن کی اسرائیل کے ساتھ تازہ تازہ پیار کی پینگیں پڑی ہیں، وہ بھی حماس پر دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ راکٹ حملے بند کرے، ورنہ فلسطین میں جاری معاشی منصوبے بند کر دیئے جائیں گے۔

بہرحال فلسطینیوں نے استقامت کی راہ اپنائی اور تمام تر قربانیوں کے باوجود اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ بالآخر اسرائیل فائر بندی پر مجبور ہوا، جسے فلسطین میں ایک فتح کے طور پر دیکھا گیا۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے اس کامیابی کو مقاومت کی کامیابی قرار دیا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں ان مسلمان ممالک کا بھی شکریہ ادا کیا، جنھوں نے اس قضیہ میں ان کی مدد کی۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں ایران پر الزام لگایا کہ اگر ایران حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی کی مدد نہ کرے تو فلسطینی دو گھنٹے کے لیے بھی کھڑے نہیں رہ سکتے۔ بہرحال اسرائیل کو اب آہستہ آہستہ اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ اب جنگ چھیڑنا طوطا مینا کی لڑائی نہیں رہ گئی۔ حماس، جہاد اسلامی کی استعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، اگلا حملہ یقیناً اسرائیل کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

 سوشل میڈیا پر سیز فائر کے فوراً بعد ایک بحث کا آغاز ہوا کہ آخر فاتح کون رہا؟ جنگوں کو مادی نظر سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے بہت سے گھر مسمار ہوئے، انفراسٹرکچر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، اموات کی تعداد اسرائیل کے مقابل بہت زیادہ ہیں، لہذا فتح اسرائیل کی ہوئی۔ تاہم اگر دیکھا جائے تو اسرائیل جس نے کئی عرب ریاستوں کو تین جنگوں میں دھول چٹائی، اس کی فوجی مشینری جو دنیا میں اپنے کارکردگی کے لحاظ سے مانی جاتی ہے۔ یہودی لابیاں، میڈیا چینلز پر اسرائیل کی دسترس اور سب سے بڑھ کر امریکا کی جانب سے اسرائیل کو حاصل آشیرباد اور تعاون کے باوجود اسرائیل اس امر پر مجبور ہوا کہ 10 کلومیڑ چوڑی اور 41 کلومیٹر طویل ایک پٹی میں فعال ایک چھوٹے گروہ سے امن معاہدہ کرے۔

یہ پچاس اور ستر کی دہائی کا اسرائیل نہیں ہے بلکہ ایک نہایت کمزور ریاست ہے، جسے حماس کے چند راکٹ سطح زمین سے محو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس جنگ کے اثرات نے ابھی اسرائیلی سرزمین پر ظاہر ہونا ہے۔ فلسطینی اپنے شہداء کو اللہ کے سپرد کرچکے۔ عمارات یقیناً جلد تعمیر ہو جائیں گی، لیکن ان کو اس جنگ نے یہ حوصلہ دیا ہے کہ اللہ کی مدد کے ساتھ وہ دنیا کی کسی طاقت سے بھی لڑ سکتے ہیں اور ان کی امید بندھ گئی ہے کہ فلسطین جلد آزاد ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی فتح یہی ہے، جس میں ایک قوم کے حوصلے بلند ہو جائیں اور وہ اگلے معرکے کے لیے آمادہ ہو۔
خبر کا کوڈ : 933824
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

حیدر نقوی
Pakistan
ماشاءاللہ۔۔۔ شاہ جی۔۔۔ بہت خوب تجزیہ
ہماری پیشکش