0
Thursday 27 May 2021 20:30

معرکہ سیف القدس، فاتح کون رہا؟

معرکہ سیف القدس، فاتح کون رہا؟
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان

سرزمین فلسطین پر غاصب صہیونیوں کے مقابلہ میں دفاع القدس کے لئے ہونے والے معرکہ کو فلسطینی مزاحمت نے ’’سیف القدس‘‘ یعنی ’’القدس کی تلوار‘‘ نامی معرکہ کا عنوان دیا تھا۔ یہ معرکہ گیارہ دن جاری رہنے کے بعد اسرائیلی دباو کے باعث امریکہ اور دوسری یورپی قوتوں کی ایماء پر مصری حکومت کی ثالثی کے بعد جنگ بندی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ اس عنوان سے پاکستان میں متعدد ابحاث جاری ہیں۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اس جنگ کی شروعات کرنے میں فلسطینیوں کی مزاحمتی و سیاسی جماعت حماس کی غلطی ہے جبکہ ایک گروہ یہ بھی کہتا ہوا پایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو اس معرکہ میں کیا حاصل ہوا؟ یہ ابحاث سوشل میڈیا پر جاری ہیں۔ اگرچہ دونوں طرح کے بحث کرنے والوں کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کوئی بھی ٹھوس قسم کا ثبوت یا دلیل موجود ہی نہیں ہے۔

یہ بات قابل غور ہے اور ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ اسرائیل صہیونیوں کی ایک ایسی ناجائز ریاست ہے، جو فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ طریقہ سے قائم کی گئی ہے۔ اس کے قیام میں برطانیہ اور امریکہ سمیت یورپی قوتوں کی ملی بھگت شامل تھی۔ اس ناجائز ریاست کے قیام سے ہی فلسطینیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن سے جبری طور پر نکال دینا، فلسطینیوں کا قتل عام کرنا، فلسطینی خواتین اور بچوں کو جیل میں قید کرنا، نوجوانوں کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور رکھنا، گھروں کی مسماری کرنا، مساجد اور مقدس مقامات پر حملے کرنا، قبلہ اول اور بیت المقدس کی توہین کرنا، مسیحی اور مسلمان فلسطینیوں کو ان کے مذہبی عقائد سے محروم رکھنے سمیت فلسطین کے علاقہ غزہ پٹی کا پندرہ سال سے صہیونی محاصرہ جاری رکھنا، یہ سب کچھ اور اس سے زیادہ بہت کچھ سب کا سب غاصب صہیونیوں کی ناجائز اور جعلی ریاست اسرائیل کے ایک سو سالہ کارناموں کی تاریخ میں رقم ہے۔ پھر بھی آپ ہم سے پوچھتے ہیں کہ فلسطینیوں نے اپنے دفاع کے لئے کیوں اسرائیل کو جواب دیا ہے؟ عجب بات ہے!!

مقبوضہ بیت المقدس کے علاقہ شیخ جراح نامی علاقہ میں 13 اپریل کو صہیونیوں نے اٹھائیس خاندانوں کو گھروں سے نکال کر ان کے گھروں پر اپنا قبضہ جمانے کے لئے ایک اسرائیلی عدالت کے فیصلہ کو بنیاد بنایا۔ اس سب کا مقصد صرف یہ تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس کے اطراف میں صہیونی آباد کاری کی جائے اور صہیونیوں کے دیرینہ منصوبہ یعنی القدس کو یہودیانے کے لئے عملی ترتیب شروع کی جائے۔ شیخ جراح نامی علاقہ سے شروع ہونے والے اس معرکہ کی بنیاد خود صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل نے رکھی تھی۔ اسرائیل اس مقصد کے حصول میں تھا کہ علاقہ سے باقی ماندہ فلسطینی مسیحی اور مسلمانوں کو نکال باہر کرے اور قدس کی یہودی سازی کو عملی جامہ پہنائے۔ فلسطینیوں نے اس صہیونی سازش کے سامنے استقامت کی اور گھروں کو خالی کرنے سے انکار کر دیا۔

روز بروز جھڑپوں میں اضافہ ہوتا رہا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اسرائیل کی غاصب افواج نے جمعۃ الوداع کے روز بعد نماز مغرب اور عشاء مسجد اقصیٰ پر عین اس وقت دھاوا بول دیا، جب عبادت گزار فلسطینی اعتکاف میں تھے۔ یہاں صہیونیوں نے نہ صرف مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کیا بلکہ بچوں اور خواتین کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ اب اس سب کے جواب میں فلسطینیوں نے مظاہرے شروع کئے۔ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صہیونیوں اور فلسطینیوں کے مابین جھڑپوں میں شدت آتی چلی گئی اور اس طرح جب صہیونی جارح ریاست کو یہ محسوس ہوا کہ ان کا مقصد پورا ہونے کی راہ میں فلسطینی عوام حائل ہیں تو انہوں نے ان مظاہروں کو روکنے کے لئے مسلح حملوں کا آغاز کر دیا۔

حماس جو کہ فلسطین کی ایک سیاسی و مزاحمتی جماعت ہے اور غزہ میں بھرپور قوت اور قدرت رکھتی ہے۔ ان سب حالات کو قریب سے مانیٹر کر رہی تھی۔ مقامی سیاسی اور مزاحمتی جماعت ہونے کی حیثیت سے یہ حماس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسرائیل کی جانب سے شروع کی جانے والی جارحیت کے مقابلہ میں فلسطینی قوم کا دفاع کرے اور صہیونی دشمن کو منہ توڑ جواب دے۔ فوجی پیشہ سے وابستہ افراد اور اسٹرٹیجک اسٹڈیز سمیت بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات کے طالب علم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جنگوں کا آغاز کرنا بلا مقصد کے نہیں ہوتا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں حالیہ گیارہ روزہ جنگ بھی اسرائیل کی جانب سے کچھ اہداف کو حاصل کرنے کے لئے شروع کی گئی تھی، جن میں پہلا ہدف شیخ جراح نامی علاقہ کو مکمل طور پر فلسطینیوں سے خالی کروانا اور وہاں پر صہیونیوں کی آباد کاری کو عمل میں لانا۔

اسی طرح دوسرا بڑا مقصد یہ تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس کے باقی ماندہ علاقہ کو مکمل طور پر اسرائیلی تسلط میں لینا۔ تیسرا ہم ترین مقصد اسرائیل چاہتا تھا کہ مسجد اقصیٰ اور القدس کا مکمل کنٹرول صہیونیوں کو حاصل ہو جائے اور قدس شریف یہودی سازی کا عمل مکمل ہوسکے۔ ان تمام مقاصد کے ساتھ ایک بڑا ہدف یہ بھی تھا کہ حماس کے ٹھکانوں کو بمباری کا نشانہ بنا کر حماس کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ حماس کو مکمل طور پر مفلوج کر دے۔ واضح رہے کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے اسرائیل نے ماضی میں بھی مسلسل تواتر کے ساتھ سنہ2007ء سے 2019ء تک چار جنگیں مسلط کی ہیں، لیکن ہمیشہ ناکامی ہی اسرائیل کا مقدر بنی ہے۔

اب آتے ہیں اس گیارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کو حاصل ہونے والے اہداف کی طرف۔ درج بالا سطور میں بیان کئے گئے چند ایک بنیادی اہداف میں سے گیارہ دن کے بعد جنگ بندی کے موقع پر اسرائیل کی غاصب حکومت یہ کہنے کے قابل نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی ایک ہدف بھی حاصل کیا ہے۔ اب اگر بین الاقوامی تعلقات اور جنگوں کے مطالعہ کے علوم کے مطابق بات کی جائے تو اہداف کا حاصل نہ ہونا شکست کھانے کے مترادف ہوتا ہے۔ یعنی اسرائیل بے پناہ ٹیکنالوجی اور جنگی جنون کے باوجود گیارہ دن کے معرکہ سیف القدس میں فلسطینی مزاحمت کاروں یعنی حماس اور جہاد اسلامی کے ہاتھوں شکست کھا گیا ہے۔ اسرائیل کی شکست اور ذلت کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اسرائیل کو امریکہ سے جنگ بندی کروانے کے لئے درخواست کرنا پڑی۔ اسی طرح ایک بھی ہدف کا حاصل نہ ہونا اسرائیل کی رسوائی کے لئے ٹھوس دلیل ہے۔

دوسری جانب حماس ہے، دو سو سے زائد فلسطینیوں کی شہادت ہوئی، انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا، عمارات اڑا دی گئیں، میڈیا دفاتر کو بھی اسرائیل نے نشانہ بنایا۔ غرض ہر وہ کام جو اسرائیل اس جنگ کے اہداف حاصل کرنے کے لئے کرسکتا تھا، کرچکا۔ جواب میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنا دفاع کیا۔ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں پر قابض صہیونی حکومت کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ کئی ایک فوجی گاڑیوں کو راکٹوں سے نشانہ بنایا۔ خود اسرائیلی ذرائع کے مطابق کئی درجن صہیونی ہلاک ہوگئے۔ خبروں کو رسوائی کے خوف سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا۔ اگرچہ اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے کئی سو راکٹوں کو روک لیا لیکن چند سو راکٹ ایسے بھی ہیں، جو صہیونیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ حقیقت میں یہی وجہ تھی کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے لئے امریکہ کو میدان میں اتار دیا۔ امریکی صدر جو جنگ کے دس دن تک خاموش تماشائی بنے رہے، آخرکار دسویں روز چپ کا روزہ توڑ کر بولے کہ اسرائیل کو جنگ بندی کے لئے حملوں کو روکنا ہوگا۔ اب یہاں یہی دلیل ہی کافی ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کی ناک کو زمین پر رگڑ ڈالا ہے۔

آئیے اب خود صہیونیوں کی زبانی مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ اس گیارہ روزہ جنگ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ صہیونیوں کی غاصب ریاست اسرائیل کا سابق وزیر دفاع جو کہ خود ایک شدت پسند صہیونی ہے، اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ گیارہ روز جنگ میں اسرائیل کو اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔ اس نے واضح طور پر 27 مئی کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس ایک مرتبہ پھر اسرائیل کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اپنے ٹوءٹر اکاءونٹ پر لکھتے ہوئے لائبر مین کہتا ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی کرکے حماس کو ایک اور موقع دے دیا ہے۔ نیتن یاہو کو شکست کا اعتراف کر لینا چاہیئے، کیونکہ حماس نے اسرائیل کو تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار کرکے جنگ بندی کرنے پر مجبور کر دیا۔ لائبر مین نے ایک اسرائیلی ٹی وی 12 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے لئے پہلی ترجیح اسرائیل کی سلامتی ہے اور اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حماس کو فتح حاصل ہوئی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کی مزاحمت نے تاریخ کے چہرے پر مزاحمت کا ایک نیا باب رقم کیا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت اسرائیل کے مقابلہ میں خاموش نہیں رہے گی۔ وہ زمانہ چلا گیا کہ جب اسرائیل عرب ممالک کی زمینوں پر قبضہ کرتا تھا، مارتا تھا، قتل و غارت کرتا تھا اور چلا جاتا تھا بلکہ اب اسرائیل کو اس کے جرائم کا پورا پورا حساب جنگ کے میدان میں ہی دینا پڑے گا۔ فلسطینی مزاحمت حساب لینے کے لئے آمادہ ہے اور صہیونی دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہے۔ یہاں ان تمام افراد کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ تجزیہ یا تبصرہ کرتے وقت فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی عظیم الشان جدوجہد کو سبوتاژ نہ کریں، کیونکہ فلسطینی مزاحمت نے صرف فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کا دفاع نہیں کیا بلکہ اسرائیل کے ساتھ معرکہ میں القدس کی تلوار نے پوری مسلم امہ او ر انسانیت کا دفاع کیا ہے۔

ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ ہم فلسطین، اس کی مزاحمت اور بے مثال جدوجہد کے خلاف جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا کی سرکوبی کریں اور مظلوم فلسطینیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے اخلاقی سطح پر ان کی حمایت کرکے ان کے حوصلوں کو بلند کریں۔ معرکہ سیف القدس نے فیصلہ کر دیا ہے کہ فاتح کون ہے اور شکست کس کو ہوئی ہے۔ اس جنگ نے فلسطینیوں کو قدس شریف کی آزادی کے مزید قریب کر دیا ہے۔ اسرائیل کے زوال میں ایک اور کیل ٹھونک دی گئی ہے۔ معرکہ سیف القدس نے دنیا پر اسرائیل کا سفاک اور بھیانک چہرہ پھر سے عیاں کر دیا ہے۔ ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی مظلومیت میں طاقت کو مزید اجاگر کرنے میں مدد کی ہے۔ یہ معرکہ سیف القدس کی کامیابی کی دلیل ہے کہ اس کے اختتام کے ساتھ ہی دنیا کی مسلمان حکومتیں اور غیر مسلم حکومتیں سب کی سب اسرائیل کے جنگی جرائم کو ثابت کرنے میں مزید متحرک ہوگئی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 934859
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش