0
Monday 26 Jul 2021 09:18
کوٹلی امام حسین (ع)، ڈیرہ اسماعیل خان۔۔۔

علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ راجہ ناصر صاحب کیا آپکے علم میں ہے؟(1)

علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ راجہ ناصر صاحب کیا آپکے علم میں ہے؟(1)
تحریر: آئی اے خان

کوٹلی امام حسین (ع) اراضی مسئلہ، مختصر پس منظر
طویل تمہید عموماً تحریر کو مقصد و ہدف سے دور دھکیل دیتی ہے مگر بعض اوقات حقائق کو واضح کرنے کیلئے سیاق و سباق کا مفصل بیان ناگزیر ہوتا ہے۔ ذیل تحریر میں ماضی کے چند واقعات کا تکراری ذکر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جسے شیعہ حلقوں میں شہداء کی سرزمین، اہل تشیع کی مقتل گاہ، قاضی شریع کے کوفہ اور ابن زیاد کے ”رے“ سمیت ان گنت ناموں سے جانا جاتا ہے، آج بھی یہاں کے لوگ قائدین کے اخلاص سے محروم اور خصوصی توجہ کے طلبگار ہیں، ان کی مظلومیت کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ پہلے تو فقط ان کی زندگیاں سلب کی جاتی تھیں مگر اب تو ان سے جائے مدفن بھی چھینی جا رہی ہے۔ ڈی آئی خان شہر کے بیچوں بیچ سرکلر روڈ پہ واقع 317 کنال 9 مرلوں پر محیط کوٹلی امام حسین (ع) ہر دور میں سیاستکاروں، انتظامیہ کے نام پر لینڈ مافیا کے ہرکاروں اور مذہب و مسلک کی آڑ میں چھپے ساہوکاروں کی للچائی نگاہوں کا مطمع نظر رہی ہے۔ کوٹلی امام حسین (ع) 317 کنال 9 مرلوں پہ محیط اراضی ہے، جو 2013ء کی نگران حکومت سے پہلے تک وقف امام حسین (ع) تھی، یعنی اس جاگیر کے مالک امام حسین (ع) تھے اور محکمہ اوقاف اس کے انتظامی امور کا نگران تھا اور اس اراضی کی آمدن راہ حسین (ع) پر خرچ کرنے کا پابند بھی تھا۔

اس اراضی میں تاریخی مقدسات سمیت 300 سے زائد شہداء بھی مدفون ہیں کہ جنہیں محض حسینی ہونے کی پاداش میں بیدردی سے شہید کیا گیا۔ اسی کوٹلی امام حسین (ع) میں نہ صرف برسہا برس سے روایتی جلوس و مجالس منعقد ہوتی چلی آ رہی ہیں بلکہ روز عاشور شہر کے تمام ماتمی جلوس بھی اسی جگہ آکر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ شہر میں اہل تشیع کی یہ اکلوتی جائے مدفن بھی ہے۔ 2013ء کی نگران حکومت کے دور میں ناجائز اور غیر قانونی طریقے سے اس کی قانونی حیثیت میں تبدیلی کی گئی اور ملکیتی انتقال امام حسین (ع) کے نام سے تبدیل کرکے محکمہ اوقاف کے نام پر کر دیا گیا، یعنی مزارع یا چوکیدار کو اس کی ملکیت دے دی گئی، کس قانون و ضابطے کے تحت؟ یہ سوال تاحال سوال ہی ہے۔ اس ناجائز اور غیر قانونی انتقال کو شہر اقتدار سے سیاسی و ریاستی آشیرباد حاصل تھی، اسی لیے حکومت یا کسی ادارے نے اس شب خون پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔

شہر کی مقامی تشیع آبادی نے جب اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور صدائے احتجاج بلند کی تو اس وقت کے صوبائی اور موجودہ وفاقی وزیر علی امین سمیت پی ٹی آئی حکومت کے ذمہ داران نے ایک جانب مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تو دوسری جانب محکمہ اوقاف سے ٹی ایم اے کو یہ زمین فروخت کرکے مسئلہ کو مزید گھمبیر کر دیا اور اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے کو (جہاں قبرستان موجود ہے) کو اہل تشیع کے تصرف میں رہنے دینے کا ”احسان“ کرتے ہوئے ایک طرف امام حسین (ع) کو اس زمین پر مزارع قرار دیا اور دوسری جانب مقامی شیعہ اکابرین میں اس انتہائی متنازعہ انتقال کی دستاویزات تقسیم کے فوٹو سیشن کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے یہ مسئلہ حل ہوچکا ہے حالانکہ خطرناک حد تک سنگین ہوچکا تھا۔ امام عالی مقام کی شخصیت اقدس پہ عہد حاضر کے حکمرانوں کا ظلم ملاحظہ فرمائیں کہ جس جاگیر کے مالک امام عالی مقام تھے، اس جاگیر کو حکومتی اداروں نے نہ صرف اپنی ملکیت میں شامل کر لیا بلکہ اس کے ایک قلیل سے ٹکڑے پر آقا و مولا حسین (ع) کو مزارع قرار دے دیا۔

اس تمام تر معاملے کے خلاف مقامی اہل تشیع کی نمائندہ کمیٹی تحریک تحفظ وقف کوٹلی امام حسین (ع) گذشتہ 5 سال سے احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہے۔ اس احتجاجی کیمپ سے یک نکاتی مطالبہ ضلعی انتظامیہ، صوبائی و وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں سے کیا جا رہا ہے کہ کوٹلی امام حسین (ع) کی 327 کنال 9 مرلے اراضی کی پرانی حیثیت، شناخت بحال کی جائے۔ 327 کنال 9 مرلے کی حدبندی مشخص کرکے باڑ وغیرہ لگائی جائے اور ناجائز قابضین سے یہ اراضی واگزار کرائی جائے۔ ان جائز اور دیرینہ مطالبات سے توجہ ہٹانے کیلئے سیاستکار، انتظامیہ اور مذہبی ساہوکار آپس میں ساز باز کرکے کبھی قبرستان کے گرد چاردیواری کی تجویز لے آتے ہیں، کبھی اس اراضی کو ٹھیکے پہ دینے کی کوڑی لاتے ہیں تو کبھی شہداء کی یادگار کے نام پہ اپنے دفاتر کی تعمیر کیلئے احتجاج کا اعلان کر رہے ہیں۔

ان تجاویز اور دفتر کی تعمیر کے شور شرابے میں کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کا حقیقی مسئلہ حل کے بجائے وقت اور بے حسی کی گرد میں تسلسل کے ساتھ دفن ہوتا جا رہا ہے اور اس کا احساس مقامی شیعہ آبادی کے علاوہ کسی کو بھی نہیں۔ القصہ مختصر حکومت، انتظامیہ چاہتی ہے کہ تشیع آبادی اپنی تمام تر مذہبی رسومات، تدفین اور جلوسہائے عزا و مجالس اسی 119 کنال کے حصے میں انجام دے کہ جو پہلے سے ہی اہل تشیع کے تصرف میں ہے اور جس ٹکڑے پہ امام عالی مقام کو مزارع قرار دیا گیا ہے اور باقی 208 کنال اراضی سے دستبردار ہو اور اس کی سیاسی، انتظامی اور مذہبی بندر بانٹ کی خاموش حمایت کرے۔ یاد رہے کہ اسی 119 کنال قطعہ اراضی میں جامع مسجد، مدرسہ جامعۃ النجف، جنازہ گاہ، مقدسات، اور گنج شہداء بھی موجود ہیں۔

تشیع نمائندگی کی دعویدار جماعتوں کا کردار
مدرسہ جامعۃالنجف کی صورت میں عملی طور پر کوٹلی امام حسین (ع) سب سے زیادہ شیعہ علماء کونسل کی عملداری میں رہی ہے۔ شیعہ علماء کونسل کی ہمہ وقت موجودگی کا اتنا فائدہ مقامی شیعہ آبادی کو ہوا ہے کہ کوٹلی کی اراضی پر نہ صرف اہلسنت کی مسجد، پٹرول پمپ، مارکیٹ اور بیسیوں مکانات اپنا وجود رکھتے ہیں بلکہ بٹھہ و تعمیراتی مقاصد کیلئے مٹی وغیرہ بھی اسی ااراضی سے اٹھائی جاتی رہی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایس یو سی کی صوبائی و ضلعی قیادت کے پاس اس کی مناسب تاویلیں میسر ہوں مگر چند امور تاحال سوالیہ نشان ہیں۔؟ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کے ناجائز اور غیر قانونی انتقال کے خلاف عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا بلکہ اس انتقال کو تحفظ فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔

327 کنال 9 مرلے کے بجائے فقط 119 کنال کے ٹکڑے پر (جس پر امام عالی مقام کو مزارع قرار دیا گیا) کی کاپی موجودہ وفاقی وزیر نے اپنے ہاتھوں سے شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب صدر کے حوالے کی، جسے انہوں نے قبول کیا۔ حکومت کی جانب سے جو آفر تھی، یعنی اہل تشیع کمیونٹی 119 کنال کو قبول کرے، شیعہ علماء کونسل نے اس آفر کو اپنا مطالبہ بنا کر پیش کیا کہ اسی ٹکڑے پر چار دیواری دی جائے۔ اپنے ایک انٹرویو میں علامہ رمضان توقیر صاحب نے کہا کہ حکومت جو دے رہی ہے، اسے قبول کرنا چاہیئے۔ القصہ اس معاملے میں شیعہ علماء کونسل اور حکومت ایک ہی صفحہ پہ نظر آتے ہیں۔ ناجائز قابضین سے کوٹلی کی اراضی واگزار کرانے کی کوششیں تو ایک طرف، الٹا ایس یو سی کی جانب سے اس اراضی پر مزید تعمیرات بھی کی گئیں، جن میں مہمانوں کے لیے کمرے اور کچن کی توسیع وغیرہ شامل ہیں۔

مقامی اہل تشیع نے اس طرف سے مایوس ہو کر امیدیں مجلس وحدت مسلمین سے وابستہ کیں، مگر اس ضمن میں ایم ڈبلیو ایم ڈی آئی خان کا کردار تکلیف دہ اور ذاتی مفادات پر مبنی دکھائی دیتا ہے۔ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی کے ضمن میں ایم ڈبلیو ایم کا لفظی موقف اور عملی کردار ایک دوسرے سے کتنا مختلف رہا اور یادگار شہداء کی آڑ میں کیسے 3 کنال کے پلاٹ پہ ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور گڑھوں کی بھرائی کے نام پر کیسے ٹھیکے دیئے جا رہے ہیں اور کوٹلی کی سابقہ قانونی حیثیت بحال کرنے کیلئے جاری پانچ سالہ احتجاجی کیمپ کے مقابلے میں 3 کنال کے پلاٹ پر تعمیر کا مطالبہ کرکے کیسے تحریک تحفظ کوٹلی امام حسین (ع) کو سبوتاژ کرنے کی شرمناک کوشش کی جا رہی ہے، اس کا مفصل احوال اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں اور امید ہے کہ راجا ناصر صاحب اس ضمن میں ذمہ داران سے نہ صرف باز پرس کریں گے بلکہ انہیں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے پرہیز کی تاکید کریں گے اور اخلاص کیساتھ کوٹلی کے ایشو پر یہاں کے مقامی افراد کے موقف کیساتھ کھڑے ہوں گے، حالانکہ یہ امید بھی اس یقین کے ساتھ بندھی ہے کہ یہ امید بر نہیں آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 945055
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش