0
Tuesday 10 Aug 2021 01:30

یکم محرم الحرام۔۔۔۔ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے

یکم محرم الحرام۔۔۔۔ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
تحریر: نذر حافی

محرم الحرام مسلمانوں کیلئے دکھ اور غم کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کا چاند دکھ اور الم کا استعارہ بن گیا ہے۔ 61 ہجری سے لے کر آج تک جیسے ہی ہلالِ محرم طلوع ہوتا ہے، حضرت محمد رسول اللہ اور ان کی آل و اصحاب کے گھروں سے رونے کی صدائیں بلند ہو جاتی ہیں۔ امت مسلمہ میں یہ گریہ و زاری، آہ و بکا، اشک و غم، نوحہ و ماتم اور دکھ و رنج نسل در نسل جاری و ساری ہے۔ اس غم و اندوہ کے سماں میں ہماری کئی نسلیں بیت گئی ہیں۔ بہت ساری کتب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد جب بھی محرم الحرام کا چاند نمودار ہوتا تھا تو نبیﷺ کے گھر سے رونے کی صدائیں بلند ہو جاتی تھیں۔ لوگوں کو نبیﷺ کے گھر سے رونے کی صدا سن کر محرم الحرام کی آمد کی خبر ملتی تھی۔

آج ساری دنیا میں جہاں جہاں اسلام ہے، وہاں وہاں محرم الحرام ہے اور جہاں جہاں محرم الحرام ہے، وہاں وہاں نوحہ و ماتم ہے۔ صدیوں پر محیط یہ غم اور سوگ اپنے ہمراہ کچھ سوالات لئے ہوئے ہے؟ ایسے سوالات جو ہر مسلمان کو نسلی مسلمان بننے کے بجائے تحقیقی مسلمان بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان سوالات کے بعد ہر شخص اپنے ایمان اور عقیدے پر نظرِثانی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ ماتم اور غم ہر صاحبِ ایمان سے یہ پوچھتا ہے کہ خدا کے آخری نبیﷺ کی وفات کے پچاس سال سے بھی کم عرصے کے اندر، اپنے آپ کو رسول خدا کی امت کہنے والوں نے کس طرح اپنے ہی نبیﷺ کے حقیقی جانشین اور  وارث کو اس کے خاندان سمیت تہہ تیغ کر دیا اور اہلِ خانہ کو اسیر کرکے کوچہ و بازار میں برہنہ سر پھرایا۔۔۔

خلافت کے مسئلے پر اتنی بڑی خونریزی کے بعد ہر سال یکم محرم الحرام کو یہ سوال تازہ ہو جاتا ہے کہ کیا انبیاء کی جانشینی کے فیصلے خواص کی بیعت، جمہور کی رائے یا طاقت و تلوار سے ہوا کرتے ہیں۔؟ اسلام جو کہ ایک جامع نظامِ حیات ہے، جو آخری الِہیٰ دین ہے اور قیامت تک کیلئے صراطِ مستقیم ہے، کیا اس اسلام کے پاس اپنے نبیﷺ کے بعد جانشین کے انتخاب کا کوئی طریقہ کار نہ تھا کہ جس کے باعث کربلا جیسا سانحہ رونما ہوا۔؟ ایک طرف قرآن مجید اللہ کی آخری، جامع اور مکمل کتاب ہے اور دوسری طرف بانی اسلام آخری نبی اور نمونہ کامل ہیں۔ 61 ھجری میں امت نے اچانک کیسے قرآن و سنت سے انحراف کیا اور کیسے اتنا بڑا سانحہ یکدم رونما ہوگیا۔؟

اور اب اس سوال کے ساتھ تاریخ کے چہرے سے نقاب الٹ دیجئے، مورخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالئے، مفتیوں کے سروں پر قرآن رکھئے، مولویوں سے ببانگِ دہل پوچھئے! اگر آپ سچ جاننا چاہتے ہیں تو سچ جان کر جئیں! پوچھئے ان واعظین سے، ان مدرسین سے، ان ناصحین سے، ان مصلحین سے، ان مورخین سے، ان کاتبین سے، ان مسلمین سے، ان تجزیہ و تحلیل کرنے والوں سے، ان تحقیق و جستجو کرنے والوں سے، ان کتابیں پڑھنے اور لکھنے والوں سے۔۔۔ ضرور پوچھئے کہ اگر یزید شرابی، فاسق اور بدکردار نہ ہوتا اور اگر یزید حاجی، نمازی، مومن اور متقی ہوتا تو کیا پھر حسین ابن علی ؑ اس کی بیعت کر لیتے۔؟

اب اس سوال کے پیچھے دشتِ تحقیق میں آپ کہاں تک چلتے ہیں، یہ آپ کی ہمت اور حوصلے پر منحصر ہے۔ ہم تو بس اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ 61 ھجری میں مکے اور مدینے میں بڑے بڑے اصحاب موجود تھے، اذانیں ہو رہی تھیں، نمازیں قائم تھیں، روزہ رکھنے پر کوئی پابندی نہیں تھی، مسجدیں آباد تھیں، تلاوتِ قرآن جاری تھی، حج ادا ہو رہا تھا، زکواۃ وصول ہو رہی تھی اور یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا کہ جب عین حج کے موقع پر لوگ حج کرنے خانہ خدا میں جمع ہو رہے تھے، اس وقت حسین ؑ اپنے باندھے ہوئے احرام کھول کر خانہ خدا سے باہر نکل آئے۔
 
اب یہ ماننا پڑے گا کہ امام حسین ؑ کے قیام کی مصلحت اذان و نماز اور حج و زکواۃ  کی مصلحت سے بڑھ کر تھی اور آپ کے قیام کی مصلحت حاجیوں کے طواف اور احرام سے بالاتر تھی۔ یہ وہ مصلحت تھی کہ جس نے کھرے کو کھوٹے سے، مومن کو منافق سے، مرتد کو مسلم سے، اقتدار پرست کو توحید پرست سے، بت پرست کو بت شکن سے، ظلمت کو ہدایت سے، خلافت کو استبداد سے، آل طلقا کو آل مصطفیٰﷺ سے، جنت کو جہنم سے اور حُر کو بنو امیہ سے ہمیشہ کیلئے جدا کر دیا۔ قیامِ امام حسین ؑ کے بعد سب اچھے ہیں اور سب برابر ہیں کا طلسم ٹوٹ گیا۔حضرت امام عالی مقامؑ نے اپنے خون کی دھار سے لق و دق صحرا کے سینے پر یہ فیصلہ ہمیشہ کیلئے رقم کر دیا کہ بنو امیہ کے بادشاہوں اور مصطفیٰﷺ کی کشتی کے مسافروں کی منزلیں جدا جدا ہیں۔

یہ قیام جو جہانِ اسلام کیلئے ایک فرقان کی حیثیت رکھتا ہے، یہ قیام جس نے بادشاہوں کے خبط کو خاک میں ملا دیا، اس قیام کو اب صرف نوحہ و ماتم تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ اب نئے عہد کے بچے اربابِ عزا کے اشک بہانے کے عمل کو دیکھ کر رونے کے بجائے سوالات پوچھتے ہیں۔ اب ثواب اور بخشش، نیاز اور تبرک، ماتم اور آنسو، جلوس اور علم یہ سب اپنی جگہ پر متبرک اور مقدس ہیں، لیکن اب بچے سوچتے ہیں، کریدتے ہیں، اعتراض کرتے ہیں، تنقید کرتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں۔ اس دور کے بچے لکیر کے فقیر نہیں ہیں، وہ ثواب کیلئے روتے کم ہیں لیکن سمجھنے کیلئے پوچھتے زیادہ ہیں۔ اب دور ایسا بدل گیا ہے کہ ماتمی جلوس دیکھ کر نئی نسل کا نکاح بھی نہیں ٹوٹتا، اب جلوس والے کسی کو پکڑ کر اس کا گوشت بھی نہیں کھاتے، اب شامِ غریباں کی مجالس بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، اب کفر کے فتوے بھی اذہان میں اٹھتے ہوئے سوالات کو نہیں دبا سکتے۔ اس عہد کے بچوں کے دماغوں میں ان اٹھتے ہوئے، ابھرتے ہوئے اور سلگتے ہوئے سوالات میں سے ایک بڑا اور برجستہ سوال یہی ہے کہ اگر یزید شرابی، فاسق اور بدکردار نہ ہوتا اور اگر یزید حاجی، نمازی، مومن اور متقی ہوتا تو کیا پھر حسین ابن علیؑ اُس کی بیعت کر لیتے۔؟
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
 بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
خبر کا کوڈ : 947666
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش