0
Tuesday 25 Jan 2022 01:30

اہلبیت اطہار ؑ کی ولایت و امامت کے دفاع میں حضرت زہراء (س) کا کردار

اہلبیت اطہار ؑ کی ولایت و امامت کے دفاع میں حضرت زہراء (س) کا کردار
تحریر: محمد حسن جمالی
Hasanjamali1bdh@gmail.com

کسی بھی انسان کی شخصیت کو پہچاننے کے لئے اس کی ذاتی صفات و خصوصیات سے آشنا ہونے کے ساتھ اس کی عملی زندگی کے تمام کارناموں سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے، جس کے بغیر شخصیت شناسی کے میدان میں بشر کے لئے کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ انسان کی عملی سرگرمیاں اور فعالیتیں ہی اس کی زندگی کے اہداف کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت پر مبنی ہے کہ عام انسان اپنی زندگی میں مثبت اور منفی دونوں طرح کی سرگرمیوں میں ملوث رہنے کی قدرت رکھتا ہے، کیونکہ اس میں عقل کے علاوہ شہوت بھی پائی جاتی ہے اور وہ عصمت کی طاقت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ معصومین علیہم السلام عصمت کی نعمت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی میں مثبت کارنامے  ہی دکھایا کرتے ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ عصمت کے دائرے میں شامل ہونے والی شخصیات کی پہچان کوئی آسان کام نہیں، اس لئے کہ ان کی درست شناخت کے لئے انسان کو صحیح منابع و مآخذ کی طرف رجوع کرنا پڑھتا ہے۔ جب تک وہ درست منابع تک رسائی حاصل کرکے معلومات لینے کی کوشش نہیں کرتا، تب تک ان  شخصیات سے متعلق ہمیں کچھ کہنے کا جواز نہیں بنتا۔

مگر المیہ یہ ہے کہ آج کم و بیش پوری دنیا میں خصوصاً برصغیر کے معاشرے میں پاک ہستوں سے متعلق ممبروں سے لوگ بغیر کسی تحقیق کے ایسی باتیں کر دیتے ہیں، جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ مجمع سے داد وصول کرنے کے لئے بعض خطیب، آل محمد کے ایسے فضائل بیان کر دیتے ہیں، جو خود ساختہ ہوتے ہیں۔ وہ ان کی ایسی خصوصیات اور صفات بیان کرکے سامعین کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو جعلی اور بناوٹی ہوتی ہیں۔ ایام فاطمیہ اور محرم الحرام کی مجالس میں کچھ  مقررین عزاداران شہزادی کونین و مظلوم کربلا کو رلانے کے لئے غیر معتبر، خود ساختہ مصائب کا سہارا لیتے ہیں، جو نہ فقط قابل تعریف کام نہیں بلکہ ایک نہایت مزموم عمل ہے۔ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ ہمارے معاشرے میں خاندان عصمت و طہارت کے وہ حقیقی فضائل جو انسانیت ساز و انقلاب آفرین ہیں، ابھی تک پوشیدہ ہیں۔ مثلاً ام الائمہ حضرت فاطمہ زہراء (س) کی ولادت اور شہادت کے موقع پر ہمارے خطباء و مقررین خاتون محشر کے ان کمالات اور خصائص کو بیان نہیں کرتے، جو فقط انسانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی بجائے نسلوں کی تربیت کی بنیاد کو مستحکم کرتے ہیں۔

زہراء مرضیہ (س) کی تابناک زندگی کے عظیم کارناموں میں سرفہرست اہلبیت اطہار ؑ کی ولایت و امامت کا دفاع کرنا شامل ہے۔ آپ (س) نے امت اسلامی میں دینی اجتماعی شعور کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یادگار مصطفیٰ حضرت فاطمۃ الزہراء (س) کی شخصیت اسلام کی مجسم تصویر تھی۔ اگر ہم اسلام کو ایمان، علم اور عمل کا مرکب سمجھیں تو یہ تینوں عناصر صدیقہ کبریٰ کی شخصیت میں بدرجہ اتم جمع تھے۔ بدون تردید حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) مجسم ایمان  تھیں۔ ایک دفعہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے فرمایا: فاطمہ(سلام اللہ علیہا)، جبرئیل کہہ رہے ہیں: خدا نے آپ کو سلام کہلوایا ہے اور فرمایا: فاطمہ سے کہدو کہ جو بھی حاجت ہے، وہ طلب کریں، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے تھوڑی دیر فکر کی اور فرمایا: ((لا حاجه لِی غَیرُ النَّظَرِ اِلی وَجهِهِ الکَرِیمِ)) "میری حاجت اس کے سواء کچھ بھی نہیں ہے کہ میں ہمیشہ خدا کے جمال کو دیکھتی رہوں" (محمد باقر مجلسی، زندگانی حضرت زہراء (علیھا السلام) ج۴۳، بحارالانوار: روحانی، ص۹۲۳،)

جب حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا )محراب میں کھڑی ہو جاتی تھیں تو «زَهَرَ نُورُها لِلمَلائِکَةِ السَّمَاء(محمد باقرمجلسى، بحار الانوار، ج۲۸، ص۳۸، دار إحياء التراث العربي، بيروت، دوسری چاپ،۱۴۰۳ق) ملائکہ کے لئے آپ کی نماز کا نور پھیل جاتا تھا»، آپ کی ذات وہ ہے، جس نے دنیا کی پستوں کی طرف کبھی بھی رجحان پیدا نہیں کیا اور سختی اور تنگدستی نے بھی آپ کے ایمان کو کمزور نہیں کیا، اسی لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کے بارے میں فرمایا: «إِنَّ ابْنَتِی فَاطِمَةَ مَلَأَ اللهُ قلب ها وَ جوارح ها إِیِمَاناً وَ یَقِینا (بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۹) "میری بیٹی فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کا تمام وجود ایمان اور یقین سے بھرا ہوا ہے»" علم کے  حوالے سے دیکھا جائے تو  زہراء مرضیہ کی شخصیت  علمی کمال پر دکھائی دیتی ہے۔ آپ نے مدرسہ نبوت میں تعلیم حاصل کی اور آغوش رسالت میں پرورش پائی۔ آپ کے پاس اسرار حیات کا علم، معاشرے کا علم، اخروی زندگی کا علم، قرآن کا علم، روایات نبوی کا علم اور انسان کی حقیقت کا علم جمع تھے۔

صدیقہ کبریٰ کی پرفروغ شخصیت انسانی تاریخ کی فکری اور ثقافتی پیشرفت کے آسمان پر آفتاب عالمتاب کی طرح ضوفشانی کرتی ہے۔ آپ کی عملی سیرت، فرمودات، خطبے اور مواعظ حسنہ آج پوری انسانیت کے لئے ضابطہ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ زہد، علم و دانش، اخلاق، عفت و حیاء، عبادت، جود و سخا، عدل و انصاف، غریبوں کی مدد، فصاحت و بلاغت۔۔۔ غرض جس پہلو سے بھی دیکھا جائے، شہزادی کونین، صدیقہ کبریٰ، فاطمہ زہراء (س) شاعر کے اس شعر کا مصداق تام نظر آتی ہیں: ھو البحر من الی النواحی اتیتہ ۔۔۔۔فلجتہ المعروف  والجود ساحلہ۔ ترجمہ: "وہ ایک سمندر ہے، خواہ آپ اس کا جس طرف سے بھی جائزہ لیں، اس سمندر کی گہرائی نیکی سے عبارت ہے اور اس کا ساحل جود و سخا سے عبارت ہے۔"(نسخہ ھای خطی کتابخانہ آیت اللہ گلپائگانی ج1 ص 253)

زہراء مرضیہ (س) کا وجود مختلف جہات سے اور مختلف حالات میں تمام نسلوں کے لئے ابدی اور ناقابل فراموش درس ہے۔ آپ کا ذاتی کردار، آپ کی عبادت، آپ کی دعائیں، آپ کا زھد، یاد خدا میں آپ کا محو اور فانی ہونا نیز نفس، شیطان اور نفسانی  و مادی خواہشات کے مقابلے میں آپ کی مجاہدت تمام نسلوں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ البتہ اس عظیم المرتبت خاتون کی ملکوتی صفات کا احاطہ کرنا غیر معصوم انسانوں کے لئے ممکن نہیں۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے ایک خطاب میں یوں ارشاد فرمایا ہے: شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے فضائل و معنوی کمالات انسانی فہم و ادراک سے بالاتر ہیں اور ان کا مرتبہ اور معنوی عظمت صرف پروردگار عالم اور اولیائے الہیٰ کی زبان سے ہی سنی جاسکتی ہے، جیسا کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: "فاطمہ جنت کی سبھی عورتوں کی سردار ہیں" یہ وہ روایت ہے، جس پر شیعہ و سنی سب کا اتفاق ہے۔

صدیقہ طاہرہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھیں کہ امت مسلمہ اپنے بابا کی رحلت کے بعد امام برحق سے جدا ہو کر گمراہی کا شکار ہوچکی ہے، بعض ناداں مغرض افراد   نے بزعم خود سقیفہ میں جمع ہو کر نااہل فرد کو خلیفہ مسلمین کے عنوان سے منتخب کرکے سکھ کا سانس لینے کی کوشش کی، جبکہ حقیقت میں انہوں نے اس غلط اقدام کے ذریعے عملی طور پر اپنے ساتھ موجودہ و آئندہ مسلم نسلوں کو بھی جہنم کا ایندھن بنانے کے لئے زمینہ فراہم کیا ہے۔ اپنے اس مزموم عمل کے ذریعے انہوں نے قرآنی آیات اور سنت نبوی کی پاکیزہ تعلیمات اور ان کے زرین اصولوں سے منہ موڑا ہے، دین اسلام میں بدعت ایجاد کی ہے اور امت مسلمہ کو امامت سے جدا کرکے دنیا و آخرت کی سعادتوں سے یکسر طور پر محروم کرنے کی جدوجہد کی ہے۔

آغوش رسالت میں پرورش پانے والی عظیم المرتب شخصیت جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنی حیات مبارکہ کے لمحات کو امامت و ولایت کے دفاع میں گزارا۔ آپ نے اپنے فرمودات اور عملی سیرت کے ذریعے مسلمانوں کو ولایت و امامت کی اہمیت و عظمت سے آگاہ کرنے کی بھرپور جدوجہد فرمائی ہے۔ حضرت زہراء (س) نے لوگوں کو سمجھایا کہ امامت ایک خدائی منصب ہے، جس پر ہرکس و ناکس فائز نہیں ہوسکتا، امام یا خلیفہ کا معین کرنا انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ یہ خدا کا کام ہے، چونکہ امامت، رسالت کے تسلسل کا نام ہے۔ امام کے لئے اعلم الناس، افقہ الناس ہونے کے ساتھ عصمت کی صفت سے متصف ہونا بھی شرط ہے۔ امام کے لئے معصوم ہونے کی شرط کے حوالے سے بحار الانوار میں علامہ مجلسی  لکھتے ہیں: الانبیاء والاوصیاء لاذنوب لھم لانھم معصومون مطھرون (بحار الانوار، ج25، ص 199) "انبیاء و اوصیاء الہیٰ کے بارے میں گناہ کا تصور کرنا ہی غلط ہے، کیونکہ وہ پاکیزہ و معصوم ہوتے ہیں۔"

اسی طرح امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: الامام منا لایکون الا معصوما (معانی الاخبار، ص132۔ بحار الانوار ج25 ص 194) "ہم سے کوئی امام نہیں ہوتا مگر یہ کہ وہ معصوم ہو۔" امام رضا ؑنے مامون کے جواب میں یوں فرمایا: لایفرض اللہ تعالی طاعۃ من یعلم انہ یضلھم ویغویھم ولایختار لرسالتہ ولایصطفی من عبادہ من یعلم انہ یکفر بہ وبعبادتہ ویعبد الشیطان دونہ(عیون اخبار الرضا، ج2، ص 125۔ بحار الانوار، ج25، ص 199) امام کے لئے معصوم ہونا ضروری ہونے پر عقلی فراوان دلائل موجود ہیں، جیسے انسان خطا کا پتلا ہے، اسے ہمیشہ معرض خطا میں گرفتار ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس روسے اس کے سامنے سہو و خطا سے محفوظ رہنے والے نمونے کا ہونا ضروری ہے، تاکہ وہ اس کی پیروی کرکے غلطیوں کا مرتکب ہونے سے محفوظ رہے، اسی نمونے کا نام امام ہے۔ پس اسے معصوم ہونا ضروری ہے، کیونکہ وہ معصوم نہ ہو تو یہ انسان کے سامنے نمونے کا نہ ہونا ہے یا اس کا لازمہ تسلسل ہے، یہ دونوں قابل قبول نہیں، کیونکہ انسانوں کے لئے نمونے کا ہونا ضروری ہے اور تسلسل باطل ہے۔

اسی طرح یہ عقلی دلیل بھی ہے کہ صرف قرآن کریم شریعت کا محافظ نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ قرآن میں بہت سارے احکام کلی طور پر بیان ہوچکے ہیں، جو وضاحت اور تفسیر کے محتاج ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ امام معصوم ہو، جو اس تفسیر کی ذمہ داری ادا کرے۔ اگر امام معصوم نہیں ہوگا تو احکام قرآن کی جو تشریح وہ کرے گا، وہ قابل وثوق نہیں ہوگی۔ اگر خطا، نسیان یا معصیت امام کی نسبت روا سمجھیں تو اسے اسی مورد میں نہی از منکر کرنا یا اس کی مخالفت کرنا امت پر واجب ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر خدا، رسول کی طرح اولوالامر کی بھی اطاعت کرنے کو امت پر واجب قرار دیا ہے (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم ۔۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی امامت کے دفاع پر تاکید اور عملی اقدام کرنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ امت کی سعادت دارین کا تعلق امام سے ہے۔ امام تبلیغ و ارشاد اور تربیت امت کے منصب کے ساتھ ولایت و حاکمیت اور مؤمنین کے نفوس پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔

چنانچہ رسالت مآب کے حق میں ارشاد ہوا: اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ۔۔۔۔{۳۳ احزاب : ۶} "نبی مؤمنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے۔" یعنی رسول خدا (ص) کو مؤمنین کے نفوس پر جو ولایت و حاکمیت اور حق تصرف حاصل ہے، وہ خود مؤمنین کو اپنے نفوس پر حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ جب ولایت و حاکمیت کے لحاظ سے نفاذ امر خدا کا مرحلہ آتا ہے تو امامت کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے۔ امام مقام امر کے تحت ہدایت کرتا ہے۔ وہ رہبر ہونے کے ناطے امت کی ہدایت کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا ۟ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ {۳۲ سجدہ: ۲۴} "اور جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین رکھے ہوئے تھے تو ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام بنایا، جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں۔" عالم امر و ملکوت اس کائنات کی حقیقی و باطنی صورت ہے۔ لہٰذا امام کی ہدایت صرف تبلیغ و ارشاد سے ہی نہیں بلکہ نفاذ سے بھی مربوط ہے۔ امر الٰہی کے عملی نفاذ کے موقع پر جب انہیں رہبری کا مقام حاصل ہوگا تو امام کہلائیں گے۔ امام دنیا و آخرت میں یکساں رہنما ہوتے ہیں۔ وہ کونین اور دارین کے پیشوا اور ان دونوں جہانوں میں مؤمنین کو خدا کی طرف لے جاتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے: یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمۡ۔۔۔ {۱۷ بنی اسرائیل: ۷۱} "قیامت کے دن ہم ہر گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔"

امام سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ مندرجہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو ان کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ تمام زمانوں میں امام موجود ہوں۔ (تفسیر الکوثر شیخ محسن نجفی)۔ مرحوم علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ ان کے ایک استاد محترمؒ سے سوال کیا گیا کہ یہ آیت عصمت امام پر کیسے دلالت کرتی ہے؟ تو جواب میں فرمایا: عقلی تقسیم کے مطابق لوگوں کی چار قسمیں ہیں: جو اپنی ساری زندگی ظالم رہے ہوں، جو زندگی میں کبھی ظالم نہ رہے ہوں، جو ابتدائے عمر میں ظالم رہے ہوں، آخر عمر میں ظالم ہوں۔ حضرت ابراہیم (ع) کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ پہلی اور آخری قسم کے لوگوں کے لیے امامت کی خواہش کرتے۔ باقی دو قسمیں رہ جاتی ہیں۔ جن میں سے ایک کے لیے اللہ تعالیٰ نے امامت کی نفی فرما دی، لہٰذا وہی لوگ منصب امامت کے اہل رہ گئے، جو پوری عمر میں کبھی ظالم نہ رہے ہوں۔( طبق نقل تفسیر الکوثر المیزان ۱ :۲۷)۔

مسجد نبوی میں جو تاریخی خطبہ صدیقہ طاہرہ (س) نے ارشاد فرمایا ہے، اس کا عمیق مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ اندازہ کرنے میں مدد ملتی ہے کہ آپ (س) کے لئے   ولایت و امامت کا دفاع کتنی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ خطبہ سب سے پہلے بلاغات النساء احمد بن ابی طیفور میں ذکر ہوا، اس کے بعد بالترتیب علل الشرائع صدوق میں، پھر شافی سید مرتضیٰ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، کشف الغمہ اربلی، طرائف سید بن طاووس، مناقب اصفہانی اور احتجاج طبرسی میں نقل ہوا ہے۔ اس خطبے میں زہراء مرضیہ (س) نے قرآن کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد فرمایا: "اے لوگو؛ تم نے اس قرآن کو نہیں سنا ہے ، اگر تم اس کو کان لگا کر سن چکے ہوتے تو اتنی جلدی سقیفہ کمیٹی تشکیل دے کر امام برحق سے جدا ہوکر اپنی مرضی سے خلیفہ کا انتخاب نہ کرتے۔"( طبرسی 1416ق ج، ص 265) حضرت زہراء (س) کی پوری توجہ پیغمبر اکرم ؐکی جانشینی کے مسئلے پر مرکوز رہی ہے، ان کی نظر میں مسلمانوں کی فلاح و رستگاری اور دنیا و آخرت کی سعادت امام برحق سے مربوط رہنے کے ساتھ وابستہ ہے اور امامت، پیغمبرؐ کے خاندان سے مخصوص ہے، امام علی ؑ کا نام اس خاندان میں سرفہرست شامل ہے، آپ ؑ ہی پیغمبر اکرم کے خلیفہ بلافصل ہیں اور ان سے ہٹ کر جو بھی امامت کا دعویٰ کرے، وہ جھوٹا ہے۔

حضرت زہراء (س) نے اپنے خطبے میں وحدانیت پروردگار، رسالت اور معاد کا تذکرہ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ منصب امامت منصب رسالت اور منصب توحید کی طرح انتہائی مقدس منصب ہے، اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر اپنے دین کی حفاظت کے لئے  نبی کے بعد امامت کے سلسلے کو جاری کر دیا ہے۔ نبی کی بیٹی نے مسجد میں  بڑے نام نہاد صحابہ کے درمیان شجاعت نبوی و علوی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام کے سیاسی و اجتماعی اصول میں ایجاد ہونے والے انحرافات کا پردہ چاک کیا اور بناوٹی نااہل خلیفہ کے چہرے سے نقاب اٹھا کر ان کی اصلیت اور حقیقت لوگوں کو دکھائی۔ انہوں نے حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی امامت سے روگرادانی کرنے کو معاشرہ اسلامی کے راہ راست سے منحرف ہونے کی پہلی نشانی کے طور پر متعارف کرایا، چنانچہ آپ نے اپنی وصیت میں اس جملے پر تاکید فرمائی: لاتصلی علی امۃ نقضت عہد رسول اللہ وعہد ابی رسول اللہ فی امیر المؤمنین علی (خصی 1411ق ص178)

جب بی بی دو عالم، اہلبیت اطہارؑ کی مرکزیت پر مسلمانوں کو جمع کرنے میں مایوس ہوئیں تو سقیفہ بنی ساعدہ میں  ابوبکر کی جعلی خلافت سے متعلق ہونے والے بے بنیاد فیصلے کے خلاف میدان میں کھڑی ہوئی اور غصب امامت کے بارے میں  مسلمانوں کو آگاہی دینے کی کوشش کی گئی۔ جب آپ (س) نے صدا حق بلند کی تو  کچھ اصحاب نے بھی آپ کا ساتھ دیا اور انہوں نے بھی خلیفہ اول کی مخالفت میں آواز بلند کی۔ حضرت فاطمہ (س) طلب نصرت کے لئے رات کو اپنے فرزندوں کے ہمراہ انصار کے گھروں میں تشریف لے گئیں (ابن ابی الحدید بی تا، ج11، ص14) اس اقدام سے بھی جب آپ کو ناامیدی کا سامنا کرنا پڑی تو آپ (س) نے فرمایا: "خدا کی قسم ہر نماز کے بعد میں تمہاری لئے بددعا کروں گی۔" (ابن قتیبہ 1363، ج1، ص14) 

سقیفہ کے مقابلے میں حضرت زہراء کا اہم اقدام اہل بیت اطہار کی امامت پر تاکید کرنا تھا۔(شیخ صدوق 1361: ص 356) جوہری بغدادی 1413ق ص 147) حضرت فاطمہ (س) انصار کی نصرت سے ناامید ہوگئیں تو عورتوں کے اجتماع میں حضرت علی ؑسے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائے جانے والی کدورتوں کے بارے میں یوں فرمایا: "علیؑ کی تمام خوبیوں اور محاسن کو دیکھنے کے باوجود ان سے کینہ و حسد کرنے اور انتقام لینے کا جذبہ تم میں کس وجہ سے پیدا ہوا؟"(ابن طیفور بی تا، ص 32) زہراء اطہر (س) نے علی ابن ابی طالب کی ولایت و امامت کے دفاع میں ایک لمحہ بھی غفلت، سستی اور کاہلی کا مظاہرہ نہیں فرمایا، بلکہ ہمیشہ مختلف روشوں سے آپ نے امامت کا بھرپور دفاع کیا۔ یہی وجہ تھی کہ عمر بن خطاب نے ولایت و امامت علی کے دفاع کو سنگین جرم قرار دیتے ہوئے آپ کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی دی( یعقوبی بی تا ج2، ص 126) ابن قتیبہ 1363، ص 18۔ مسعودی 1409ق، ج2، ص 301)

امامت اہلبیتؑ کے دفاع کی وجہ سے ہی اہلبیت اطہار علیہم السلام کے تمام مالی امکانات (خمس، فدک، ذوی القربیٰ کا حصہ و۔۔) چھین  لئے گئے (طبری بیتا، ج2، ص 444) ابن عبدریہ 1403، ص260۔ مفید، ص 115) زہراء مرضیہ (س) نے حاکم اور دینی حکومت دونوں کی خصوصیات بیان کرکے امامت اہلبیتؑ کا دفاع کیا۔ اسی طرح آپ (س) نے امام برحق حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی خصوصیات کو نمایاں کرکے لوگوں پر اتمام حجت کیا۔ ایک جگہ فرمایا: "علی ؑ پیغمبر اکرم (ص) کے بھائی ہیں، انہوں نے زندگی بھر آپ کے مشن کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے، اس حوالے سے انہوں  نے بے پناہ زحمتیں اٹھائیں اور طرح طرح کے مشکلات کا مقابلہ کیا ہے۔"(خصیبی، 1411ق 259) آپ (س) نے اپنے خطبات اور ارشادات کے ذریعے امت پر یہ واضح کر دیا کہ مرجع دینی اور سیاسی حاکمیت کے حقدار فقط اہلبیت ہیں، اسی خاندان میں ہی دینی امامت و زعامت کی صلاحیت و شرائط پائی جاتی ہیں۔

آپ نے ایک جگہ امام کی اہمیت و عظمت یوں اجاگر کی ہے: (مَثَلُ الاِمامِ مَثَلُ الکَعبَة اِذتُؤتى وَ لاتَأتى) "امام کی مثال کعبہ جیسی ہے، جس طرح کعبہ کا طواف کرنے کے لئے خود لوگوں کو آنا پڑتا ہے، بیت اللہ ان کے پاس نہیں جاتا، بالکل اسی طرح لوگوں کو خود امام کے پاس جانا پڑتا ہے۔" اسی طرح فرمایا: "وہ امام ہیں اور تمام عارفوں کی توجہ کا مرکز۔" اہلبیت اطہار ؑ کی امامت کے دفاع کے سلسلے میں ایک جگہ فرمایا: "ہم اہلبیت، خدا اور مخلوق کے درمیان رابطے کا وسیلہ، اس کے برگزیدہ اور اس کے محل قدس ہیں۔ ہم روئے زمین پر خدا کا خلیفہ، حجت اور انبیاء کے وارث ہیں۔" فَجَعَلَ اللّهُ...طاعَتَنا نِظاماً لِلملةِ وَ اِمامَتَنا اَماناًلِلفُرقَة "االلہ تعالیٰ نے ہم اہلبیت کی اطاعت کو امت مسلمہ کے لئے نظم اجتماعی کا سبب اور ہماری امامت و رہبری کو  تفرقہ و اختلاف سے بچنے کا نسخہ قرار دیا ہے۔" ایک اور جگہ فرمایا «اَمَا وَ اللّهِ لَو تَرَکُوا الحَقَّ عَلَى اَهلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِترَةَ نَبیّهِ لَمَا اختَلَفَ فِى اللّهِ اثنَان؛ "خدا کی قسم اگر امامت کے حق کو اس کے اہل کے سپرد کر دیتے اور رسول خدا ؐکی عترت کی اطاعت کرتے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے حکم کے بارے میں دو نفر بھی اختلاف نہ کرتے۔"

یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ائمہ ھدیٰ ؑ کی امامت نہ فقط امت مسلمہ کی اجتماعی اور سیاسی  وحدت کا باعث بنتی ہے، بلکہ یہ کائنات میں مسلمانوں کے اعتقادات کی وحدت کا بھی سبب بنتی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے زندگی بھر اہلبیت اطہار ؑ کی امامت ؐ مخصوصا حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت و امامت کا بھرپور دفاع کیا، امت مسلمہ کو بیدار کیا، انہیں حقیقی اور جعلی دونوں خلیفوں کا چہرہ دکھایا، باطل اور نفاق سے پردہ اٹھایا اور مسلمانوں میں دین کے اجتماعی شعور کو اجاگر کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ (س) کی کاوشیں پوری دنیا میں باشعور مسلمانوں کے لئے منارہ نور اور امید کا چراغ ثابت ہوئیں۔ آپ ؑ کی سیرت طیبہ سے درس لیکر ہی رہبر کبیر انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) کو ایران کی سرزمین پر عوام کو بیدار کرکے اسلامی حکومت تشکیل دینے میں کا میابی ملی، جو آج پوری دنیا کی مقہور و مظلوم اقوام کے لئے رول ماڈل ہے۔
خبر کا کوڈ : 975429
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش