0
Tuesday 20 Dec 2011 23:43

امریکہ کے ڈو مور سے پاکستان کا انکار، بین الاقوامی حالات کا منظر نامہ

امریکہ کے ڈو مور سے پاکستان کا انکار، بین الاقوامی حالات کا منظر نامہ
تحریر:رشید احمد صدیقی
 
کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ پاکستان امریکہ کو آنکھیں دکھا کر نیٹو سپلائی روک دے گا، 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ کے مشہور زمانہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی دو مینار نما عمارتوں پر حملہ اور تباہی کے بعد ان کے ڈپٹی سیکرٹری کے ایک ٹیلی فون پر پاکستان کی 30 سالہ پالیسی الٹی سمت گھوم گئی، یعنی یو ٹرن لیا گیا، اس وقت پاکستان میں فوجی جنرل مشرف کی حکومت تھی اور موجودہ فوجی سربراہ جنرل کیانی ان کی ماتحت ٹیم کے اہم رکن تھے، اس دوران پاکستان امریکہ کی ہر خواہش کے آگے جھکتا چلا گیا، امریکہ نے اس کو نان نیٹو اتحادی اور فرنٹ لائن اسٹیٹ قرار دیا۔
 
زبردستی کے اس نکاح کو پاکستان نے خوب نبھایا، ہزاروں مطلوب اور غیر مطلوب افغانیوں اور عربوں کو پکڑ پکڑ کر گوانتاموبے کے جہنم کا ایندھن بننے دیا، اسامہ اور بش کی جنگ جو بعد میں اوبامہ اسامہ جنگ بنی، سے پاکستان کے گلی کوچے خون آلود بن گئے، 36 ہزار لوگ بشمول تین ہزار فوجی جوانوں اور افسروں کے، اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے، جنرل کیانی نے جنیوا کی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں جو اعداد و شمار پیش کیے، ان کے مطابق دوسری جنگ عظیم میں کسی فوج کا اتنا بڑا نقصان نہیں ہوا جتنا پاک فوج کا اس جنگ میں ہوا، اس جنگ کو دہشتگردی کے خلاف جنگ قرار دیا گیا۔
 
لیکن یہ جنگ کبھی حقیقی نہیں رہی اور نہ ہو سکتی تھی۔ ایک ٹیلی فون دھمکی پر الٹی سمت اختیار کی جانے والی پالیسی پر خود امریکیوں نے کبھی بھی اعتبار نہیں کیا، جنرل مشرف کے لیے دورہ امریکہ ہمیشہ دل پسند سرکاری فریضہ رہا۔ اور اب بھی وہاں رہتے ہوئے ایک ایک لیکچر سے ہزاروں کما رہے ہیں، وہ اپنے لیکچروں میں وہی کچھ سناتے ہوں گے جو ان کے طویل فوجی اور صدارتی فرائض کے دوران ان کے علم میں آیا ہو گا، اتنے مہنگے لیکچروں کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ملکی سلامتی اور رازوں کے افشا کرنے کے حوالے سے ان پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے تھی، یہ جملہ معترضہ ہے۔ اصل موضوع نئی پاکستانی پالیسی ہے۔ جنرل موصوف کو دورہ امریکہ میں ہمیشہ وہاں کے ذرائع ابلاغ سے شکوہ رہتا تھا کہ آپ کی حکومت نے ہمیں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ دیا، ہم آپ کے نان نیٹو اتحادی ہیں۔ ہم آپ کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، لیکن آپ ہم پر شک کرتے ہیں۔
 
یہ حقیقت امریکہ کو خوب معلوم تھی کہ یہ پاکستان ہی تھا جس کی حمایت سے سویت یونین (آنجہانی) افغانستان کے دلدل سے جب نکلا تو پھر اس کا وجود باقی نہیں رہا، اس کی فوج اور انٹیلی جنس نے افغان جنگ کے دوران امریکی اور سویٹ انٹیلی جنس کے ساتھ طویل عرصہ آنکھ مچولی کھیلی اور ایسا تجربہ حاصل کیا ہے کہ اب امریکیوں کے لیے اس سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔ لہٰذا انھوں نے ہر قدم شک پر کیا اور پاکستان کو بظاہر بہت بڑا دوست قرار دیا لیکن ان کی دوستی کی ہم نے جو قیمت چکائی اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا، زیادہ سے زیادہ یہ بدلہ کہ نائن الیون کے بعد سے یہاں پر امریکی حمایت یافتہ حکومتیں رہیں اور ان کی جانب سے امداد اتنی ملی کہ پاکستان کی معیشت مسلسل بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ہمارے بڑے ادارے ریلوے، واپڈا، پی آئی اے اور سٹیل ملز تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں، ریاست ستون آپس میں دست و گریبان ہیں۔
 
دس سال تک ہل من مزید والے امریکہ کو مزید نہیں کہنا۔۔۔۔بظاہر کمزور پاکستان سے ایسی توقع کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن 26 نومبر 2011ء کے بعد یہ ہو کر رہا، امریکہ نے مہمند ایجنسی میں سلالہ چیک پوسٹ پر بمباری کر کے 24 فوجی جوانوں اور افسروں کو شہید کر دیا۔ تین جوانوں اور افسروں کی قربانی دینے والے پاکستان سے یہ برداشت نہ ہو سکا اور نیٹو افواج کے لیے پاکستان کے راستے سپلائی بند کر دی۔
 
اس کے کیا اثرات ہوں گے۔؟ یہ کب بحال ہو گی؟ یہ سوالات بھی ہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی امریکہ پالیسی نے یو ٹرن لیا ہے۔؟ جواب ہاں یا نہ میں دینے سے قبل ان حالات کو دیکھنا ہو گا جن میں ھل من مزید سے انکار کر دیا گیا۔ امریکہ اپنی تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران سے گذر رہا ہے، عراق سے اس کا بوریا بستر گول ہو چکا ہے۔ مصر جو امریکی دوستی میں بے مثال تھا۔ وہاں سے ان کے دوست رخصت ہو چکے ہیں۔ لیبیا میں انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ تیونس میں عوامی تبدیلی آگئی ہے۔ ترکی کی اسلامیت کی بیداری عرب اور اسلامی دنیا میں مثال بنی ہوئی ہے۔ شام تبدیلی کے قریب ہے۔
 
افغانستان میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس پر مکمل غلبہ کے لیے امریکہ کے پاس جتنے ڈالر تھے وہ ختم ہو چکے ہیں، چالیس سال سے مرگ و مار کو مشغلہ بنائے رکھنے والے افغان دن کو امریکیوں سے ڈالر لیتے اور راتوں کو ان کو قتل کرتے ہیں، امریکہ کی تمام کوشش یہ رہی ہے کہ افغان فوج، ملی اردو، تشکیل کر کے خود اپنے اڈوں میں آرام سے بیٹھے اور افغان آپس میں لڑیں۔ لیکن ملی اردو کے جوانوں کے لیے اپنے بھائیوں پر گولی چلانے سے یہ بات زیادہ آسان ہے کہ وہ مسلح گوریلوں کو امریکیوں پر حملہ کے لیے راستہ دیں اور ہدف کی نشاندہی بھی کرا دیں، وہاں کا کلچر بدل چکا ہے۔ افغان قبائلی کلچر میں ملک کا جو مقام تھا، وہ ختم ہو چکا ہے۔ اب پگڑی اور داڑھی والا کلاشنکوف بردار وہاں کا بااثر شخص ہے۔ اور وہی پارلیمنٹ میں آتا ہے۔ باقی امور جتنے بھی ہیں، ان سے قطع نظر امریکہ کی اندرونی مالیاتی مشکلات اب اسے افغانستان میں ٹکنے نہیں دے رہی۔
 
سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کے وقت پاکستان کو کمزور شمار کرنے والا امریکہ اب نائن الیون والا امریکہ نہیں رہا۔ اس شیر میں اب اتنی سکت نہیں رہی کہ رچرڈ آرمٹیج کے ایک فون پر چیف آف دی آرمی سٹاف سلوٹ مارے، اب تو ہیلری کلنٹن جیسی طاقتور وزیر خارجہ کے فون پر ہماری نرم و نازک حنا ربانی کھر کھرا انکار کر سکتی ہے، گیلانی امریکہ کے شہری اور چہیتے حسین حقانی کو برطرف بھی کر سکتے اور بلا سکتے ہیں۔ تین ہفتوں سے نیٹو سپلائی بند ہے اور وہ کھسیانے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا بون کانفرنس سے بائیکاٹ بہت بڑی تبدیلی ہے، دنیا جانتی ہے کہ 

1۔ پاکستان کے بغیر افغان مسئلے کا کوئی حل ممکن نہیں۔
 
2۔ پاکستان کے موجودہ موقف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ مزید دھمکیوں اور حملوں کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
 
3۔ ایک اور بات یہ بھی ثابت ہو گئی ہے کہ امریکہ کا افغانستان میں مزید ٹھہرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ 

4۔ امریکہ افغانستان سے باعزت انخلا چاہتا ہے، جس کے بعد بھی وہاں پر اس کا اثر رسوخ بھی قائم، یہ پاکستان کی وفاداری اور تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔
 
درج بالا صورت حال یک دم نہیں بنی، اس میں کم از کم ایک دہائی کا عرصہ لگا ہے۔ دس سال میں امریکہ جس مقام پر پہنچا ہے، اس کی ایک علامت پاکستان کا ہل من مزید سے انکار ہے۔ پاکستان کی موجودہ پالیسی کو یو ٹرن کہنے کی بجائے صحیح سمت اٹھایا جانے والا قدم ہی کہا جائے تو مناسب رہے گا۔ اسلام آباد میں سفیروں کی کانفرنس کے اعلامیہ میں بھی اس کی باز گشت موجود ہے۔ موجودہ موقف ایک حملے کا ردعمل یا جواب نہیں بلکہ بین لاقوامی تبدیلیوں کا پورا منظر نامہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 123785
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش