0
Wednesday 4 Mar 2009 13:21

سعودی عرب میں وقوع پذیر ہونے والے تازہ واقعات پر ایک نظر

سعودی عرب میں وقوع پذیر ہونے والے تازہ واقعات پر ایک نظر

جنت البقیع اور مسجد نبوی میں سعودی پولیس، جو کہ امر با المعروف اور نھی از منکر فورس کے نام سے مشہور ہے، کے وہاں کے مقامی شیعہ زائرین کے ساتھ تصادم کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں اچھی خاصی کوریج ملی جس نے سعودی عرب میں بسنے والی شیعہ اقلیت کے حالات اور حیثیت کو توجہ کا مرکز بنا دیا۔ مختلف اخباری ذرائع کے مطابق یہ تصادم جو ۳ مختلف جگہوں پر پیش آیا ،کے نتیجہ میں کئی افراد زخمی اور گرفتار ہوئے۔ بعض ذرائع نے چند افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع بھی دی ہے۔
ابھی تک ان واقعات کے بارے میں سعودی عرب کے سرکاری ذرائع نے کوئی خبر شائع نہیں کی ہے۔ اس وجہ سے اس خبر کے اصلی ذرائع کچھ غیر رسمی ویب سائٹس اور عینی شاہدین تک محدود ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق سعودی امر با المعروف اور نھی از منکر فورسز کی پہلے جنت البقیع میں شیعہ زائرین کے ساتھ مڈبھیڑ ہوئی۔ اس فورس نے شیعہ زائرین کی توھین کی اور ان کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کیا ۔ اس کے ردعمل میں شیعہ زائرین سعودی پولیس کے ساتھ الجھ گئے جس کے نتیجے میں بعد کے حادثات پیش آئے۔ اور تقریباً ۲ ھزار شیعہ افراد نے مدینہ میں پولیس کے اس رویے کے خلاف مظاہرے کئے۔ پلیس نے کئی مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
اگرچہ اس سے پہلے بھی سعودی پولیس شیعہ زائرین کے ساتھ توھین آمیز رویہ اختیار کرتی رہی ہے لیکن پہلے کبھی تصادم کی صورتحال پیش نہیں آئی تھی۔ تازہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ سعودی عرب کے فیصلہ کرنے والے اداروں میں موجود شدت پسند عناصر نے شیعوں کو کچلنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ جس کے سعودی حکومت کیلئے غیر قابل انکار اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔ اور مختلف اسلامی فرقوں میں اتحاد، جو کہ تمام مسلمانوں کی خواہش ہے، کے رجحان کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ عناصر جو کچھ عرصہ پہلے "ھلال شیعی" جیسے موضوعات کا پروپیگنڈہ کرتے تھے اور شیعوں پر عرب ممالک میں حکومتیں قاَئم کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے تھے سر گرم عمل ہو چکے ہیں اور انھوں نے شیعوں سے انتقام لینے کی غرض سے شیعوں کے خلاف شدت پسند کاروائیاں کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
سعودی حکومت کو اس انتہائی حساس نکتے کی طرف توجہ کرنی چاہئیے کہ یہ شدت پسند عناصر کبھی بھی ملکی مفادات کا خیال نہیں رکھیں گے بلکہ اپنے فرقے کے منافع کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
ایسے وقت میں جب کہ اسلامی دنیا کئی قسم کے تھاجموں،فشار اور خطرات کا شکار ہے، اس قسم کی تفرقہ بازی سے صرف اسلام دشمن قوتیں ہی فائدہ اٹھائیں گی اور وہ عناصر اور گروہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی تفرقہ بازی کے ذریعے کوئی کامیابی حاصل کر سکتے ییں شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔
سعودی حکومت یہ دعوی کر سکتی ہے کہ تازہ واقعات اس کا اندرونی مسئلہ ہیں اور دوسروں کو اس میںدخل اندازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے لیکن یہ دعویٰ حقائق سے آنکھہ چرانے اور اصل مسئلے کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج شیعہ اور سنی اختلافات کو ہوا دینا، چاہے جس ملک میں بھی ہو یا جس نیت سے بھی ہو، قابل قبول اور قابل توجیہ نہیں ہے۔ اس قسم کے اقدامات، بالخصوص اگر اس میں حکومتی عناصر ملوث ہوں، اس ملک تک محدود نہیں رہیں گے اور نہ چاہنے کے باوجود اس کے اثرات سرحدوں سے باہر تک پھیل جائیں گے۔
لہذا سعودی عرب کی حکومت کے فائدے میں ہے کہ وہ مستقبل میں ایسے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے اور اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کو سختی سے روکے۔
خبر کا کوڈ : 1311
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش