0
Monday 28 May 2012 23:38

بغداد مذاکرات کیوں کامیاب نہیں ہوئے؟

بغداد مذاکرات کیوں کامیاب نہیں ہوئے؟
 تحریر: محمد علی نقوی
 
اسلامی جمہوریہ ایران کے پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایران کے مذاکرات میں امریکہ کے رویے کو دوغلے پن اور فریب پر مبنی قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر علی لاریجانی نے گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ مذاکرات کے باوجود ایران پر پابندیاں جاری رہنے پر مبنی امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہيں تو ایران کے ساتھ حقیقی مذاکرات کریں، ورنہ صرف وقت ضائع نہ کریں۔
 
ادھر اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلٰی قومی سلامتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری علی باقری کا کہنا ہے کہ گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت مقابل فریق کے عملی اقدامات پر موقوف ہے۔ علی باقری نے حالیہ برسوں کے دوران ایران کے ساتھ گروپ پانچ جمع کے مذاکرات کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے پیشگی شرطوں اور مقابل فریقوں کے دباؤ کو مذاکرات میں اتفاق رائے کے حصول کی راہ میں اصل رکاوٹ قرار دیا۔ انہوں نے استنبول مذاکرات میں گروپ پانچ جمع ایک کی جانب سے این پی ٹی معاہدے کے مطابق ایران کے ایٹمی حقوق کے اعتراف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس بات پر زور دیا کہ اس بات کو قدم بہ قدم عینی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے اور مقابل فریق اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو ہم بھی سنجیدہ طریقے سے میدان عمل میں آئیں گے، لیکن اگر دباؤ کا سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف یہ کہ اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا، بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی قدرت و طاقت مزید کھل کر سامنے آئے گی۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران ان ممالک میں سے ہے کہ جنہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر سب سے پہلے دستخط کئے اور وہ صرف اس معاہدے کے تناظر میں گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کرے گا، لیکن بعض سیاسی حلقے اور ذرائع ابلاغ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو مشکوک ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر تشویش ظاہر کرنے والے ان ممالک نے صیہونی حکومت کو ایٹمی ہتھیار فراہم کر کے اس معاہدے کی سب سے پہلے خلاف ورزی کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی بھی ایٹمی ٹیکنالوجی کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ کی تازہ رپورٹ بھی مجموعی طور پر ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے پرامن ہونے اور ان سرگرمیوں پر آئی اے ای اے کی نگرانی کا ثبوت ہے۔
 
ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکراتی عمل میں مجموعی طور پر دو واضح موضوع موجود ہیں۔ پہلا ایران اور ایجنسی کے درمیان فنی اور تکنیکی معاملات کہ جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور دوسرا استنبول اور بغداد مذاکرات کے عمل کی تکمیل ہے کہ جو تقریبا تین ہفتے بعد ماسکو میں منعقد ہوں گے۔ اس سلسلے میں دونوں فریقوں کی جانب سے پیش کیے گئے پیکج کا تفصیل سے جائزہ لیا گيا ہے، تاکہ مشترکہ نقاط پر کام کو آگے بڑھایا جائے۔ اس نقطۂ نظر سے مذاکرات کی کامیابی کا بہت سے عوامل پر دارومدار ہے۔ ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ ایٹمی معاملے میں غیر منطقی مطالبات کا سلسلہ بند کیا جائے۔ 

ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر فریدون عباسی نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ایران ایٹمی ایندھن کی تیاری میں خودکفیل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی فیول سائیکل کی ٹیکنالوجی میں خود کفالت کی منزل پر پہنچ چکا ہے کہ جو این پی ٹی معاہدے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتی ہے۔ اس بنا پر اس کی مخالفت کا مطلب ایران کے ایٹمی حقوق نظرانداز کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اگر اس بات کو مذاکرات پر بدستور مسلط کیا گيا تو یہ ان کی پیشرفت میں رکاوٹ بنے گا۔ جبکہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے دونوں فریقوں کی نیک نیتی اور مثبت نظر کا ہونا ضروری ہے۔
 
واضح سی بات ہے کہ یورینیم کی افزودگی کے سلسلے میں ایران کے ایٹمی حقوق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایران کی تمام ایٹمی سرگرمیاں این پی ٹی کے دائرے کار میں انجام پا رہی ہیں اور یہ مکمل طور پر پرامن ہیں اور ایران این پی ٹی معاہدے میں دیئے گئے اپنے حقوق سے ہرگز دستبردار نہیں ہو گا۔ ایران کے ساتھ گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات جمعرات کے دن ایسے عالم میں بغداد میں ختم ہوئے تھے کہ ایرانی وفد اپنے مغربی فریق کے ساتھ مذاکرات میں اس بات پر تاکید کر رہا تھا کہ جامع اتفاق رائے کے لئے ایسا رویہ اختیار کیا جائے جس سے ملت ایران کا اعتماد بحال ہوسکے، تاکہ ایٹمی مذاکرات میں پیشرفت ہو۔
 
ان مذاکرات میں طرفین کے سنجیدہ ہونے کے باوجود ایران پر دباؤ جاری رکھنے نیز تہران کے خلاف غیرمنصفانہ پابندیوں کے خاتمے کے لئے واضح پروگرام پیش نہ کیا جانا، اس دور کے مذاکرات میں جامع اتفاق رائے تک پہنچنے ميں رکاوٹ بنا۔ ان حالات میں یہ نکتہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ایسے عالم میں جب امریکی کانگریس، بغداد مذاکرات شروع ہونے سے عین قبل امریکی صدر کو ایران کے خلاف پابندیاں بڑھانے کے لئے اکسا رہی تھی تو تین ہفتے بعد ماسکو مذاکرات میں معجزے کی توقع رکھنا ممکن ہی نہيں ہے۔ 

کیونکہ اگر امریکہ اور مغرب، ایرانی فریق کے ساتھ اعتماد کو مضبوط کرنا چاہتا ہے تو انہیں اس طرح کے اقدامات سے دستبردار ہو جانا چاہئے۔ اس بنا پر مغربی فریقوں کو یہ نہيں سوچنا چاہئے کہ ان حالات میں ایرانی فریق مثبت قدم اٹھائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عراقی دارالحکومت بغداد میں ایران کے ساتھ گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات کے اختتام پر اسلامی جمہوریہ ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری اور اعلٰی مذاکرات کار سعید جلیلی نے کہا تھا کہ تہران کا خیال ہے کہ تعاون کے لئے مذاکرات کا راستہ اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب اس کے مقابلے میں تخریبی راستے اختیار نہ کئے جائیں۔
خبر کا کوڈ : 166415
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش