0
Saturday 21 Jul 2012 23:16

فاٹا مسائل، مشکلات اور حل

فاٹا مسائل، مشکلات اور حل
تحریر: رشید احمد صدیقی
 
پشاور کے پنج ستاری ہوٹل میں سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کے ادارے ادارہ فکر و عمل کے زیراہتمام قبائل کے مسائل، مشکلات اور حل کے موضوع پر سیمینار ہوا۔ اہم مقررین میں قاضی حسین احمد، سابق سفیر رستم شاہ مہمند، بریگیڈئر ریٹائزڈ نذیر مہمند، کالم نگار سلیم صافی اور اے این پی کے مرکزی رہنما عبدالطیف آفریدی نے خطاب کیا۔ عبدالطیف آفریدی کا اسرار تھا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے۔ سلیم صافی نے بھی اشاروں کنائیوں میں یہی بات کی۔ رستم شاہ مہمند نے اس بات پر زور دیا کہ وہاں سے فوج کو واپس بلایا جائے اور آپریشن ختم کیا جائے۔ باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔ قاضی حسین احمد کا خطاب کلیدی تھا جبکہ بریگیڈئر نذیر مہمند نے موضوع کا بھرپور احاطہ کیا۔ ذیل میں قاضی حسین احمد اور نذیر مہمند کے خطاب سے کچھ حصے دیئے جا رہے ہیں۔ 

قاضی حسین احمد:
مسلمان اپنے معاملات مشورہ سے طے کرتے ہیں۔ مشورہ سے حکمت کے ساتھ مسائل کا عادلانہ حل سامنے آتا ہے۔ ادارہ فکر و عمل کا مقصد یہی ہے کہ اہم امور پر مشاورت کی جائے، اور اس میں تمام مکاتب فکر اور سیاسی جماعتوں کو شریک جائے۔ ایک دوسرے سے بظاہر دور نظر آنے والے مل بیٹھ کر مشاورت کریں اور ایک دوسرے کی بات سن کر دلائل کی بنیاد پر اسے قبول کریں۔ ہم نے آج قبائل کے چیدہ چیدہ لوگوں کو بلایا ہے۔ قبائل میں کافی لوگ اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہیں اور فائز رہے ہیں، جن میں سیاسی عہدے بھی ہیں۔ وہ درپیش مسائل، ماحول اور مسائل سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں۔ اور نسبتاً اچھا حل تجویز کرسکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنیں اور کوئی حل نکالیں۔ سیاسی جماعتوں کا بھی یہ فرض ہے کہ ایک دوسرے کی بات سن کر لائحہ عمل بنائیں۔ 

ہم بچپن سے یہ سنتے آ رہے ہیں کہ یہ آزاد قبائل ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ دوہری غلامی میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف حکومت اور پی اے کی غلامی ہے اور دوسری طرف نظام کی غلامی۔ ایف سی آر کا قانون پختونوں اور قبائل کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ 70 سال سے ایف سی آر کا نفاذ کوئی فخر کی بات نہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس کا متبادل کیا ہوسکتا ہے، جو اس سے بہتر ہو۔ زیادہ بہتر حل وہ ہوگا جو قبائل اور اس نظام سے واقف لوگ پیش کریں۔ قبائل کے ارکان پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔ بالغ رائے دہی کا حق ملنے کے بعد کچھ لوگ اپنے ضمیر کی آواز بلند کرتے ہیں، لیکن وہ بے بس ہیں اور تمام امور ایوان صدر میں بیٹھے صدر مملکت کے پاس ہیں۔ یہاں کے لوگ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اپیل نہیں کرسکتے اور تمام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

حال ہی میں صدر کی جانب سے ایک ریگولیشن آیا تھا، جس سے قبائلیوں نے سخت نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اس میں ایک فوجی افسر کو سزائے موت دینے تک کا اختیار دیا گیا ہے، جو ایف سی آر میں بھی نہیں۔ ان لوگوں کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی نہیں۔ یہاں مقامی حکومتوں کے ادارے نہیں، جہاں منتخب لوگ آئیں۔ اب تک تین تجاویز سامنے آئی ہیں ایک یہ کہ قبائل کی الگ منتخب کونسل ہو، دوسری تجویز الگ صوبے کی ہے، اور تیسری تجویز خیبر پختونخوا کی اسبملی میں ان کی نمائندگی کی ہے۔ ان تجاویز پر مشورے اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ ہم بھی ابھی تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکے ہیں۔ اگر ہم کسی رائے پر متفق ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا راستہ نہیں روک سکتی۔

ہمارے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو ہمارا اختلاف ہے۔ قبائل کو آپس میں لڑانا سب سے آسان کام ہے۔ یہاں لشکر اسلام اور انصار الاسلام آپس میں لڑ رہے ہیں، حالانکہ دونوں اسلام کے انصار ہیں۔ حال ہی میں سیاسی آزادی دی گئی ہے، اجتماع اور جلسے کی اجازت ہے۔ دوسری طرف وہاں جانا ناممکن بنا دیا گیا ہے، بڑے سردار قتل کر دیئے جاتے ہیں، ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ وہاں پر آپریشن بند کیا جائے، امن بحال کیا جائے۔ دخل اندازی ختم کی جائے۔ ڈرون حملے بند کیے جائیں۔ ان حالات نے یہاں پر بڑی مشکل صورت حال بنائی ہے۔ یہ پروگرام اسی پر بحث کے لیے ہے۔ لیکن ایک نشست میں ہم حتمی رائے پر نہیں پہنچ سکتے۔ ہم اعلٰی مناسب پر موجود قبائلیوں کی مدد سے مزید پروگرامات کرکے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ 

بریگیڈئر ریٹائرڈ نذیر (مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ممتاز دانشور)
ہم قاضی حسین احمد صاحب کے مشکور ہیں، جنھوں نے قبائل کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے اور ان کو ادارہ فکر و عمل کا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے، جہاں بغیر کسی حیل و حجت کے قبائلی عوام اپنی فلاح، مستقبل اور نظام کے بارے میں اپنی رائے پیش کر سکتے ہیں۔ یہ بہت بڑا قدم ہے۔ اگر اس طرح سیمینار اور پلیٹ فارم مہیا ہوتے رہے تو قبائیلیوں کی رائے اور آواز پالیسی ساز ایوانوں تک پہنچ کر رہے گی۔ 

قاضی حسین احمد نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ وقت کی آواز ہے۔ اگر ہم نے ان مواقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو بعد میں لکیر پیٹتے رہیں گے اور ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ میں ایک قبائلی ہوں، فوجی ادارے میں رہا ہوں، ایف سی میں فرائض انجام دیئے ہیں۔ قبائل کے چپے چپے کو دیکھا ہے۔ جاری حالت پر نظر رکھتا ہوں اور قبائلی درد کو بھی سمجھتا ہوں۔ آج یہاں جو حالات ہیں وہ باد صرصر سے کم نہیں۔ ہر آدمی اس سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہے۔ 

کیا آئین کے تحت ہم پاکستان کاحصہ نہیں؟ ہم پاکستان کے شہری ہیں اور نہیں بھی۔ ہمارے کوئی حقوق نہیں۔ ہمارے تمام حقوق صدر کی جھولی میں ہیں، وہ ہمارے ساتھ جس طرح سمجھتے ہیں، کر گزرتے ہیں۔ ایف سی آر کالا قانون تھا۔ نئے ریگولیشن کے بارے میں میں کہتا ہوں کہ کالا بھی ہے اور کلوٹا بھی۔ وہ انسانی حقوق سے مبرا تھا یہ تمام حقوق سے مبرا ہے۔ فاٹا کے لوگوں کو ہمیشہ اندرونی قوتوں نے اندرونی مقاصد کے لیے اور بیرونی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کیا۔ 

1948ء ، 65ء اور 71ء کی جنگوں میں اور پھر روس کے خلاف اور اب امریکہ کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا محور قبائلی علاقہ ہے۔ نائن الیون کے کمیشن نے کہا ہے کہ اگلا نائن الیون قبائلی علاقوں سے آسکتا ہے۔ ہمیں پیشگی طور پر مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے اور اس جرم کی سزا بھی دی جا رہی ہے، جو ہم نے کیا ہی نہیں۔ اس سخت بے رحمانہ اور بے دریغ جنگ سے ہر قبائلی متاثر ہے۔ ایٹم بم کے علاوہ ہر طرح کے ہتھیار ہمارے علاقے میں استعمال ہوئے۔
 
فضائیہ کے سربراہ کے مطابق اب تک ساڑھے پانچ ہزار فضائی حملے یہاں پر ہوئے ہیں۔ ساڑھے آٹھ ہزار اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ تین سو سے سے زائد ڈرون حملے ہوئے ہیں۔ توپ، مارٹر اور ہر طرح کے بھاری ہتھیار استعمال ہوئے اور دو ایٹم بموں کی قوت کے ہتھیار یہاں آزمائے جا چکے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے لیے اب تین راستے ہیں۔ حکومت کا ساتھی بنیں، لشکر بنا کر۔ یا طالبان کا ساتھ دے کر دہشتگرد اور انتہاء پسند قرار پائیں اور یا پھر آئی ڈی پی بن کر اپنے ہی ملک میں مہاجر بن جائیں۔ چوتھا راستہ یہی ہے کہ لاپتہ افراد میں شمار ہوں۔ یہ غیر روایتی جنگ ہے، جس میں نقصان ہم لاتعلق لوگوں کا ہو رہا ہے۔ 

انھوں نے تجویز پیش کی کہ گورنر کے پی کے کی ساری اہمیت اور افادیت فاٹا کی وجہ سے ہے، اس لئے گورنر کا تعلق فاٹا سے ہونا چاہیے۔ اگر یہ ناممکن ہے تو پھر
٭ فاٹا کی منتخب کونسل ہو، جس میں ہر ایجنسی سے تین تین اور ہر فاٹا ریجن سے ایک ایک منتخب نمائندہ ہو۔
٭ فاٹا سیکرٹریٹ کا سارا انتظام منتخب فاٹا کونسل کے ہاتھ میں ہو۔
٭ فاٹا کا الگ گورنر ہو، جو اپنے فیصلوں میں خود مختار ہو۔
٭ یہی فاٹا کونسل فاٹا کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرے کہ ہم الگ صوبہ بنتے ہیں، یا کے پی کے میں ضم ہوتے ہیں۔
سیمنار پورا دن چلتا رہا۔ آخر میں قاضی حسین احمد نے کہا کہ یہ مشاورت کا ایک مرحلہ تھا اور یہ جاری رہے گا۔ مشاورت کی تکمیل کے بعد ہم متفقہ سفارشات مرتب کرکے متعلقہ اداروں تک پہنچائیں گے۔ 
خبر کا کوڈ : 180857
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش