1
0
Wednesday 15 Aug 2012 06:26

ہم کو جشن آزادی اور مصر کو حقیقی آزادی مبارک

ہم کو جشن آزادی اور مصر کو حقیقی آزادی مبارک
تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
قمری لحاظ سے پاکستانی قوم 27 رمضان المبارک 1433 ہجری کو اپنی 66ویں شب آزادی منانے جا رہی ہے۔ اگرچہ یہ تاریخ اور اس تاریخ کو رونما ہونے والا واقعہ پاکستانیوں کے لیے نیا نہیں، تاہم ہم نے کبھی اس شب کو من حیث القوم اس مناسبت سے نہیں منایا۔ پاکستانی شہری ہر سال 14 اگست کو اپنا جشن آزادی مناتے ہیں۔ تاریخوں کی اس بحث کا آغاز ہوتے ہی ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ چودہ اگست اور 27رمضان میں کیا فرق ہے؟ کسی دن کو بھی اس مناسبت سے منایا جائے، ایک ہی بات ہے۔

جی نہیں! ایک ہی بات ہوتی تو 27رمضان جیسی بابرکت رات کو ہی بطور شب آزادی اور 27رمضان کے دن کو بطور یوم آزادی منتخب کر لیا جاتا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ 27رمضان المبارک، شب قدر کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔ اس رات پاکستان کے تمام مسلمان شہری اپنے پرودگار کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ آئندہ سال کے لیے ان کوتاہیوں سے باز رہنے کا عزم کرتے ہیں۔ اس رات کی روحانی عظمت کو بیان کرنا یقیناً سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ یہ رات فقط پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم روحانی و معنوی اہمیت کی رات ہے۔

اگر قمری یا شمسی تاریخوں کے انتخاب سے کوئی فرق نہ پڑتا ہوتا تو اس رات کو پاکستان کی شب آزادی کے طور پر منتخب کیا جانا تحریک پاکستان کی تاریخ اور اس جدوجہد کے اغراض و مقاصد سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسا کہ آج کل ہم 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب رات بارہ بجنے کے منتظر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر ہم یعنی پوری سرکاری مشینری، ہر پاکستانی 27رمضان المبارک کی رات بارہ بجنے کا منتظر ہوتا تو خوشی کے اظہار کے مناظر بہت مختلف ہوتے۔ اگر ہم قدرت کی جوڑی ہوئی ان دو مناسبتوں کو باہم یکجا رہنے دیتے تو شاید پاکستان کے حالات آج کی نسبت بہت مختلف ہوتے، مگر ہم میں سے اکثر کو تو جیسے اس مملکت خداداد اور اس کے بانیوں کو سیکولر ثابت کرنے کا خبط ہے۔

قائد اعظم سیکولر، علامہ اقبال سوشلسٹ، سر سید لادین جیسے نعرے اسی طرز فکر کے عکاس ہیں۔ اکثریتی مسلم آبادی کی خواہشات کے برعکس 14 اگست کو یوم آزادی کے طور پر منتخب کرنے کے پس پردہ یقیناً یہی فکر کار فرما ہے، تاہم تاریخ اور حقیقت سے کب تک چشم پوشی کی جا سکتی ہے؟ قائداعظم کا یہ قول کہ ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑہ حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں“ قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد کو انتہائی وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ اسی طرح آپ کا یہ بیان کہ ”اسلام کے قوانین آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں، جیسے کہ وہ تیرہ سو سال قبل تھے۔“ ملک کے قانون کے بارے میں قائداعظم کے تصورات کی نشاندہی کرتا ہے۔

افسوس تو اسی امر کا ہے کہ تحریک پاکستان کے راہنماﺅں کے فلسفہ آزادی کو یکسر فراموش کرکے ملک کو ایک ایسی راہ پر گامزن کر دیا گیا، جہاں اس کا دین سے دور دور کا واسطہ نہ تھا۔ عالم برادری میں اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے لادینیت کا سہارا لیا گیا اور دینی اقدار کی ہر ہر نشانی کو معدوم کر دیا گیا۔ قائداعظم کے قول کے برعکس اسلامی قوانین کو آزمانے کی تجربہ گاہ کے بجائے مملکت خداداد پاکستان کو زمین کا ایک ٹکڑہ بنا دیا گیا، جہاں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور قائداعظم محمد علی جناح کی بصیرت اور فرامین کے برخلاف پاکستان کو مغرب کا کاسہ لیس کر دیا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ ہم الگ زمین ہونے کے باوجود حقیقی آزادی کو ترستے ہیں۔

یہاں اس بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے کہ ایک اسلامی ریاست سے میری مراد مولویوں کی حکومت نہیں، بلکہ قائداعظم کے اقوال کی روشنی میں ایک ایسی ریاست ہے، جس کی بنیادیں اسلام کی بنیادی تعلیمات اجتماعی عدل، مساوات اور قانون کی عملداری پر استوار ہوں۔ قائداعظم فرماتے تھے کہ ”اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،یہ نہ فقط ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اور سیاست سب کے لیے راہنمائی موجود ہے۔ درحقیقت اسلام ہر اس چیز کا مجموعہ ہے جس کی ایک انسان اور انسانی معاشرے کو صبح سے شام تک ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ اسلامی ضابطے کی بنیاد آزادی، عدل و مساوات اور اخوت پر ہے۔“

گزشتہ 65 سالوں میں پاکستان کے ساتھ جو بیتی ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اس بات سے آگاہ ہے کہ زمین کے اس ٹکڑے میں دنیا کی ہر نعمت میسر ہے، تاہم وہ نعمت جس کا جشن 14 اگست کو منایا جاتا ہے میسر نہیں۔ ہماری معیشت، دفاع، مستقبل اور فیصلے سب کچھ بیرونی قوتوں کے رہین منت ہیں۔ آزاد فیصلے کریں بھی تو کیسے؟ بقول غالب:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن


عین اسی وقت جبکہ ہم جشن آزادی منا رہے ہیں، عالم اسلام کا ایک ملک حقیقی آزادی کی دولت سے سرفراز ہے۔ مصر جہاں بہت عرصہ ایک مغربی گماشتے کی آمریت کا دور دورہ رہا، آج حقیقی جمہوریت کی جانب گامزن ہے۔ مغربی قوتوں اور ان کی گماشتہ مصری فوجی کونسل کی لاکھ کوششوں کے باوجود عوام کا حقیقی نمائندہ ڈاکٹر محمد مرسی مصر میں برسر اقتدار آیا۔ ڈاکٹر محمد مرسی کو اقتدار میں آئے ابھی دو مہینے نہیں گزرے تھے کہ انھوں نے مغرب کی بچھائی ہوئی ہر بساط کو الٹ کر پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ فوجی کونسل کے سربراہ، نائب سربراہ، بری، بحری، فضائی افواج کے سربراہان جو مصر کی سیاست میں طاقت کا حقیقی سرچشمہ اور مغربی مفادات کے محافظ تصور کیے جاتے تھے، کو محمد مرسی نے ایک ہی حکم نامے کے تحت اقتدار سے الگ کرکے، عوامی خواہشات کے مطابق ایک مقتدر سیاسی حکومت کے قیام کو یقینی بنایا۔

کہتے ہیں کہ مرسی کے ان فیصلوں کو حسنی مبارک کی آخری نشانی یعنی مصری عدلیہ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ تاہم آزادی اور عوامی قوت کا اعتماد اتنی بڑی طاقتیں ہیں جن کا سامنا کرنا کسی بھی طاقت کے بس میں نہیں۔ ہم نے اس آزادی کا مظاہرہ اس سے قبل انقلاب اسلامی ایران میں بھی مشاہدہ کیا، جہاں ایک پیر بزرگ نے لاشرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنے عوام کو حقیقی آزادیوں سے سرفراز کیا۔ 

مملکت ایران کی گزشتہ تین دہائیوں کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ ہزار مشکلات کے باوجود ایرانی قوم آج بھی ایک آزاد اور خودمختار قوم ہے، جس کے تمام تر فیصلے عوامی امنگوں اور خواہشات کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔ جہاں معیشت اور حکومت کو ناکام کرنے کے ہزار حربے استعمال کرنے کے باوجود ذرہ برابر بھی متزلزل نہیں کیا جاسکا۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام کا سب سے بڑا غاصب صیہونی ٹولہ غیر عرب ریاست ہونے کے باوجود اس مملکت کو اپنے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اسے ناکام کرنے کی ہر کوشش کو بروئے کار لاتا ہے۔

ایک الگ ریاست کے حصول کے باوجود حقیقی آزادی کی عدم دستیابی کا رونا رونے والی اقوام، بالخصوص مسلم امہ کو عالم اسلام کی یہ دو عظیم قوتیں اور ان میں آنے والے عوامی انقلابات آج بھی دعوت فکر دیتے ہیں کہ تمھاری حقیقی فلاح اور نجات جشن آزادی منانے میں نہیں بلکہ حقیقی آزادی کے حصول میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 187652
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ویسے آپ کا تعلق طالبان سے ہے یا القاعدہ سے ؟؟؟ یا آپ را سے تعلق رکھتے ہیں، اس قدر مایوسانہ تصویر آپ نے اپنے وطن کی پیش کی ہے، کم ازکم حوصلہ کی بات کریں، یا کم ازکم راہ حل بتا دیں۔ تنقید اور مایسی پھیلانے سے تو مسائل حل نہیں ہوتے، وہسے کہا جاتا ہے کہ تنقید دنیا کا آسان کام ہے۔
ہماری پیشکش