0
Wednesday 14 Nov 2012 12:17

کیا امریکہ ٹوٹ رہا ہے؟

کیا امریکہ ٹوٹ رہا ہے؟
تحریر: سید اسد عباس تقوی
 
ریاست ٹیکساس کو پرامن طریقے سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے علیحدگی اور اپنی حکومت بنانے کی اجازت دی جائے۔ حکومت کی جانب سے داخلی اور خارجی اخراجات پر اصلاحات میں ناکامی کے سبب آج ریاست ہائے متحدہ کی معیشت بدحالی کا شکار ہے۔ ریاست ہائے متحدہ کے شہری NDAA ،TSA وغیرہ جیسے حقوق کی وحشیانہ خلاف ورزیاں برداشت کر رہے ہیں۔ ٹیکساس کی ریاست ایک متناسب بجٹ کی حامل ہے اور ہماری معیشت دنیا کی پندھرویں بڑی معیشت ہے۔ پس ٹیکساس کے لیے اس وقت ریاست ہائے متحدہ کے اتحاد سے نکل جانا قطعی ممکن ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف شہریوں کے معیار زندگی کا تحفظ ہوگا بلکہ ہمارے اجداد کے حقیقی تصورات اور نظریات کے مطابق ہمارے حقوق اور آزادیاں بھی محفوظ رہیں گی۔ جن کو محفوظ رکھنے سے وفاقی حکومت قاصر ہے۔

مندرجہ بالا عبارت اس پٹیشن کا ترجمہ ہے جو ٹیکساس کے باسیوں نے وائٹ ہاﺅس کی ویب سائٹ پر دائر کی۔ اس پٹیشن کی شنوائی کے لیے 25000 دستخط کندگان کی ضرورت تھی، جن کی تعداد اس وقت74000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ اسی طرح ریاست لوزیانا کی پٹیشن میں درج ہے کہ جیسا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بانیوں نے 1776 میں آزادی کی دستاویز میں واضح طور پر کہا تھا کہ:
حکومتیں عوام سے ہیں جو ان کی اختیارات کو منصفانہ طور پر استعمال کرتی ہیں۔ جب کسی بھی قسم کی حکومت افراد کے لیے نقصان دہ ہو جائے تو یہ عوام کا حق ہے کہ اس حکومت کو بدل دیں یا ختم کر دیں اور نئی حکومت قائم کریں۔ پس لوزیانا ریاست کو پرامن طریقے سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے علیحدگی اور اپنی حکومت بنانے کی اجازت دی جائے۔ اس پٹیشن پر بھی 29000 سے زیادہ دستخط کیے جا چکے ہیں۔

وائٹ ہاﺅس کی سائٹ پر درج کی جانے والی علیحدگی کی درخواستیں دائر کرنے والی ریاستوں میں جارجیا، نیویارک، ساﺅتھ کیرولاینا، آرکناس، الاباما، فلوریڈا، نارتھ کیرولاینا، کینٹ کی، مسز سی پی، کولوراڈو، مونٹینا، نیو جرزی، انڈیانا، نارتھ ڈکوٹا ، آریگون، میسوری ، ویسٹ ورجینیا، اوہایو، ساﺅتھ ڈیکوٹا، نیبراسکا، پینسلوینیا، کیناس، اوکلوہاما، یوٹھا، وائے منگ، کیلی فورنیا، ڈیلاویور، نیواڈا، ایری زونا اور جارجیا شامل ہیں۔ یہ فہرست ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ اوپر کی جانب رواں دواں ہے۔ 52 ریاستوں پر مشتمل ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سے تادم تحریر 32 ریاستیں علیحدگی کی درخواستیں دائر کر چکی ہیں۔ ان میں سے کئی ریاستوں کی درخواستوں پر مطلوبہ 25000 سے زیادہ افراد نے دستخط کر دیے ہیں۔ جو تعداد ہر لمحے بڑھ رہی ہے۔

وائٹ ہاﺅس کے ضابطہ اخلاق کے مطابق جب بھی کوئی پٹیشن تیس دنوں کے اندر مطلوبہ پچیس ہزار افراد کی توثیق حاصل کر لیتی ہے تو حکومت پر لازم ہے کہ اس پٹیشن کا جواب دے۔ یہ تو یقینی ہے کہ علیحدگی کی ان درخواستوں پر فوری عمل درآمد ممکن نہیں، تاہم ان درخواستوں کو ہلکا بھی نہیں لیا جا سکتا۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق یہ درخواستیں زیادہ تر ان ریاستوں سے دائر کی گئی ہیں جن میں مٹ رومنی کی اکثریت ہے، تاہم بعد میں داخل کی گئی پٹیشنز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان درخواستوں میں ان ریاستوں کی درخواستیں بھی شامل ہیں، جہاں اوباما کو کامیابی حاصل ہوئی۔

ٹیکساس کے گورنر ریک پیری نے 2009ء میں کہا تھا کہ واشنگٹن مخالف جذبات کے سبب امکان پایا جاتا ہے کہ ہمارے شہری ریاست ہائے متحدہ سے آزادی کا مطالبہ کر دیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اس اتحاد کے بہت سے فوائد ہیں، تاہم اگر واشنگٹن نے اسی طرح امریکی شہریوں کا ناطقہ بند کیے رکھا تو سب جانتے ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ پیری کی پرسنل سیکریٹری کیتھرین فریزر نے اے بی سی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ہم واشنگٹن کے ٹیکس اور اخراجات کو مزید برداشت نہیں کرسکتے۔ تمام لوگوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی ذہنیت ہمارے بچوں کے مستقبل، ہماری شخصی آزادیوں کے لیے ایک خطرہ ہے۔ یہ خطرہ ہماری قوم کو ایک خطرناک راستے کی جانب ہانکے لے جا رہا ہے، جس کا حتمی نتیجہ حکومت پر انحصار ہے۔

وائٹ ہاوس نے ابھی تک ان درخواستوں میں سے کسی کا بھی جواب کیوں نہیں دیا؟ اس سوال کا جواب بھی وائٹ ہاﺅس کی سائٹ پر موجود ہے کہ وہ معاملات جو وفاقی اداروں کی دسترس میں آتے ہیں، پر حکومت جواب دینے کی ذمہ دار نہیں ہے اور حق رکھتی ہے کہ ان درخواستوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں اوباما انتظامیہ نے اس سے قبل بھی دائر کی گئی کئی پٹیشنز پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، جن میں ریپبلیکن امیدوار کرس ڈوڈ کے خلاف تحقیقات کی پٹیشن قابل ذکر ہے۔ جبکہ اس کے برعکس وائٹ ہاﺅس نے ایک ایسی پٹیشن پر ردعمل ظاہر کیا، جس پر ابھی فقط 13000 توثیقی دستخط کیے گئے تھے۔ 

مندرجہ بالا معروضات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وائٹ ہاﺅس ان پٹیشنز کو بھی سرد خانے کے سپرد کرنے کی کوشش کرے گا، تاہم اب شاید اس مسئلے کو اتنی آسانی سے دبانا ممکن نہیں رہا۔ بقول گورنر ٹیکساس ریک پیری ”ہمیں معلوم ہے کہ اس اتحاد کے بہت سے فوائد ہیں، تاہم اگر واشنگٹن نے اسی طرح امریکی شہریوں کا ناطقہ بند کیے رکھا تو سب جانتے ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔“
اس موقع پر مجھے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا وہ معروف شعر یاد آرہا ہے جس میں حکیم الامت نے تہذیب مغرب کو آج کی اس حقیقت سے متنبہ کیا تھا:
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانا بنے گا ناپائیدار ہوگا

بحیثیت انسان ہمیں اس اتحاد اور وفاق کے خلاف اٹھنے والی صداﺅں پر کوئی خوشی نہیں ہونی چاہیے، تاہم یہ صدائیں اس فکر کے لیے ایک تازیانہ ہیں، جس نے انسان کو ہمیشہ جنس بازار کی مانند دیکھا اور اس کی صلاحیات کو کو زر سے تولا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومتوں نے اپنی ہی نسلوں کا مستقبل اپنے وقتی اور مادی مفادات پر قربان کر دیا۔ آج امریکہ چاہے بھی تو اس دلدل سے نہیں نکل سکتا۔ ملک سے باہر قائم امریکی فوجی اڈے اور پوری دنیا پر حکومت کرنے کے خواب امریکی وفاق کے اربوں ڈالر اور ہزاروں انسانی جانوں کے سبب زندہ ہیں۔ جن کا بوجھ برداشت کرنا اب شاید توسیع پسندانہ امریکی معیشت کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 211718
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش