5
0
Saturday 22 Dec 2012 01:20

پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ، قصور کس کا؟

پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ، قصور کس کا؟
تحریر: سید میثم ہمدانی
Editor_umeed@yahoo.com 
 
امن و امان کی صورتحال نے ویسے تو پاکستان میں ہر ادارے اور ہر شہری کو پریشان کر رکھا ہے، لیکن سب سے زیادہ قربانی اہل تشیع مسلمانوں نے دی ہے۔ معتبر اخبار کے مطابق 70 سے زائد ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ہمارے ملک میں کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر ہو جو شیعہ مسلمانوں کے خون سے رنگین نہ ہوا ہو۔ سب سے زیادہ خطرناک صورتحال کوئٹہ، کراچی، شمالی علاقہ جات اور ڈیرہ اسماعیل خان کی ہے۔ جس چیز کے بارے میں ہم بات کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ آخر اس شیعہ نسل کشی میں قصور کس کا ہے۔؟ شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے سب سے پہلے جو بات کی جاتی ہے اور بالکل ٹھیک بھی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی قسم کا دینی معاملہ نہیں ہے، یعنی پاکستان میں شیعہ نسل کشی کو فرقہ واریت نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ دہشت گردی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ شیعہ قتل و غارت میں بعض دینی ہاتھ استعمال ہو رہے ہیں اور بعض بےوقوف تکفیری گروہ ان کاموں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، لیکن کوئی بھی حقیقی دینی ذمہ دار اتھارٹی اس قسم کے ظلم کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
 
اگرچہ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو بعض سنی مفتیوں نے شیعہ کافر کے فتوے ضرور دیئے ہیں اور اس کام میں بریلوی اور وھابی میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن کفر کے فتویٰ اور قتل کے فتویٰ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ موجودہ سنی قیادت میں بھی چاہے وہ بریلوی ہوں یا دیوبندی، کوئی معتبر سنی قائد، عام شیعہ مسلمانوں کے قتل عام کی حمایت نہیں کرتا اور اسی وجہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عام معاشرے میں شیعہ سنی عوام کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ شیعہ سنی اپنے شہروں، محلوں، گاؤں، دیہاتوں میں اکٹھے زندگی گزارتے ہیں۔ بعض معمولی مذھبی جھگڑے پہلے بھی موجود تھے، اب بھی موجود ہیں، لیکن ان کو ملکی یا بین الاقوامی منظم شیعہ کشی کی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 

عام طور پر اس بارے میں جو کہا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں بنیادی سبب ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب ہے۔ یہ بات پاکستان میں موجود سیاسی لیڈرز بھی کرتے ہیں اور بعض مذھبی رھنما بھی اس بات کو دہراتے ہیں حتٰی بعض شیعہ سیاسی و غیر سیاسی شخصیات بھی اس بات کی قائل ہیں۔ ایک اہم ملکی سیاسی شخصیت نے تو ایک دفعہ یہاں تک کہہ دیا کہ بھٹو صاحب کا قتل بھی ایران میں آنے والے انقلاب کی وجہ سے تھا لیکن ان کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ بھٹو صاحب کو انقلاب کی کامیابی سے چند ماہ پہلے ہی سزائے موت دی جاچکی تھی۔ در حقیقت عالمی استکبار کی کوشش بھی یہی رہی ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کو ایک متنازعہ انقلاب کی صورت میں پیش کیا جائے، تاکہ عام مسلمان اس سے متاثر نہ ہو سکیں، اور اسی سلسلے میں انقلاب کے خلاف مختلف قسم کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
 
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اس بات کا سبب بنی کہ بین الاقوامی طاقتیں انقلابی تحریکوں اور خصوصاً شیعہ مسلمانوں کے خلاف سوچنے پر مجبور ہوگئیں اور یہ بات سبب بنی کہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا آغاز ہوا، تو یہ بالکل وہی بات ہے کہ جب امام علی (ع) اور معاویہ کے درمیان جنگ میں رسول خدا (ص) کے عظیم صحابی جناب عمار یاسر(ر) شہید ہوئے، جبکہ انکے متعلق یہ حدیث موجود تھی کہ آپ باغی گروہ کے ہاتھوں شہید ہوں گے، تو معاویہ کے لشکر میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی تو اس کے فوری حل کے طور پر عمرو عاص نے لشکر میں مشہور کردیا کہ عمار یاسر (ر) کا قاتل خود علی (ع) ہے، چونکہ وہ ان کو جنگ میں لے کر آئے تھے، اگر امام علی (ع) اس صحابی کو جنگ میں نہ لاتے تو وہ ہمارے ہاتھوں قتل نہ ہوتے، اس کے جواب میں مالک اشتر (ر) نے کہا کہ ہاں اس کا مطلب تو یہ ہے کہ حضرت حمزہ (ع) کے قاتل بھی خود رسول (ص) خدا تھے، (نعوذ باللہ) چونکہ حضرت حمزہ (ع) کو رسول (س) خدا جنگ میں لے کر آئے تھے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا سبب ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب ہے تو ان کو اس بات سے پہلے یہ کہنا چاہیئے کہ شیعہ نسل کشی کا سبب شیعوں کا شیعہ ہونا ہے، امام حسین (ع) کے راستے پر چلنا قتل و غارت اور ٹارگٹ کلنگ کا سبب ہے اور اس سے پہلے مسلمان ہونا اور خدا پر ایمان لانا ہمارے قتل کا سبب ہے۔ 

اس بات کو ہم ایک اور انداز سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کے بعد اس انقلاب کے اثرات صرف پاکستان پر نہیں ہوئے بلکہ دوسرے ممالک پر بھی اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔ ان ممالک میں ہم لبنان کی مثال دے سکتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان اسرائیل کے خلاف جہادی شیعہ تنظیم ہے، وہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کو اپنا رھبر مانتے ہیں اور عربی زبان میں ان کو امام سید علی خامنہ ای کے نام سے پکارتے ہیں۔ ایران نے حال ہی میں سرکاری طور پر فلسطین اور حزب اللہ کی مسلحانہ امداد کا اعلان کیا ہے، پس جس حد تک ایران کا انقلاب اسلامی لبنان اور فلسطین میں اثر انداز ہے اس حد تک پاکستان پر اثرانداز نہیں ہے اور اگر پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا سبب انقلاب اسلامی ایران ہو تو سوال یہ ہے کہ یہی سبب لبنان میں کیوں کارآمد نہیں ہے؟ پس ہمیں کوئی اور عامل تلاش کرنا ہوگا۔ 

یہ بات مسلم ہے کہ پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں غیر ملکی ایجنسیاں، داخلی تکفیری گروہ اور کم از کم ملکی ایجنسیوں کی غفلت کارفرما ہے۔ ہر شہر میں ہر حادثے کے پیچھے کئی ایک ہاتھ کارفرما ہیں، بعض جگہ متعصب لسانی گروہ ہیں، بعض جگہ غیر ملکی ایجنسیاں ہیں، بعض جگہ داخلی تکفیری گروہ ہیں، بعض جگہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفاد، ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ ایک خبر کے مطابق بعض ٹارگٹ کلرز گروہ اپنے افراد کی تربیت کے بعد ان کو ٹیسٹ کیس کے طور پر شیعہ ٹارگٹس دیتے ہیں کہ جن کے بعد ان کی مہارت کا اندازہ لگایا جاسکے! ان تمام باتوں کے باوجود ہم ان تمام عوامل کو صد در صد قصور وار قرار نہیں دے سکتے، بلکہ ایک اور عامل ایسا ہے کہ جو پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا سبب ہے؛ اور وہ عامل ہماری اپنی کمزوری ہے، ہمارا داخلی انتشار، ناقص اجتماعی پالیسی، مضبوط دفاعی نظام کا فقدان۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات 

سب اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ پاکستان ایسا ملک ہے کہ جس میں جنگل کا قانون ہے، جنگل میں اگر آپ اپنی حفاظت خود نہ کریں تو کوئی آپ کی حفاظت نہیں کرتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اگر کوئی اپنا مسئلہ حل کروانا چاہتا ہو تو شیعہ قتل کیا جاتا ہے، اگر کوئی اپنا راستہ کھلوانا چاہتا ہو تو شیعہ قتل کیا جاتا ہے، اگر کسی کا سیاسی مسئلہ ہو تو اس کے حل کے لئے شیعہ قتل کیا جاتا ہے، اگر کسی صوبہ میں کوئی لسانی جھگڑا ہو تو شیعہ قتل کیا جاتا ہے، اگر کسی ادارے کا نام نھاد جھاد کسی مشکل کا شکار ہو تو شیعہ قتل کیا جاتا ہے اور اسی طرح ۔ ۔ ۔ ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ سب جانتے ہیں پاکستان میں سب سے سستا خون شیعہ کا خون ہے، شیعہ کو قتل کرنے کے بعد کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اگر کوئی کسی شیعہ عالم دین یا شیعہ لیڈر کے قتل میں بھی ملوث ہو تو آسانی سے جیل سے فرار ہوسکتا ہے؛ پس یہ کمزوری اور ضعیفی ہی پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی اصل وجہ ہے۔
 
جبکہ قرآن ہمیں دعوت دے رہا ہے؛
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لا تُظْلَمُونَ (انفال، آیت ٦٠)
ترجمہ: اور تم سب انکے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو، جس سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور انکے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے، سب کو خوفزدہ کر دو اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کروگے، سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا۔ قرآنی اصولوں سے روگردانی شکست کا سبب بنتی ہے۔ جب ہم نے قرآنی اصولوں کی اتباع کا فیصلہ کر لیا تو اس وقت ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 223497
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جزاک اللہ، آقا صاحب بہت اچھی تحلیل کی ہے۔۔
بڑا جالب مقالہ ہے۔ بہت اچھا نقشہ پیش کیا ہے، تاہم ایک غلطی ہوگئی ہے، وہ یہ کہ بھٹو کی پھانسی انقلاب ایران کے دو ماہ بعد یعنی 4 اپریل 1979ء کو عمل میں آگئی۔ جبکہ اسکو 4 جون 1977ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔
On April 1, after a landslide victory in a national referendum in which only one choice was offered (Islamic Republic: Yes or No), Ayatollah Khomeini declared an Islamic republic with a new Constitution reflecting his ideals of Islamic government
انقلاب اسلامی ایران کے حق میں ریفرنڈم یکم اپریل ۱۹۷۹ کو انجام پایا، جبکہ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ۱۸ مارچ ۱۹۷۸ کو ہو چکی تھی۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Zulfikar_Ali_Bhutto

http://www.iranchamber.com/history/islamic_revolution/islamic_revolution.php
جی، البتہ بھٹو کی گرفتاری اور سزائے موت کی سزا دونوں اسلامی انقلاب سے پہلے ہی ہوچکی تھیں
اور اگر کہیں کہ اس اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہی انداہ لگا لیا گیا تھا کہ یہ انقلاب اسلامی ہوگا اور اس لئے بھٹو کو پھانسی دے دی گئی،
تو یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ اس وقت ایران کے اسلامی انقلاب کا اسلامی ہونا بھی بہت واضح نہیں تھا، کیونکہ یہ بظاہر شاہ ایران کے خلاف عوام کا احتجاج سمجھا جاتا تھا اور صرف امام خمینی ہی اس انقلاب میں فرد واحد نہیں تھے بلکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی اس کی پہلی صف میں شامل تھے جنہوں نے بعد میں کئی ایک لبرل کارنامے انجام دینے کی کوششیں کیں، اور پھر اسلامی حکومت کا فیصلہ تو انقلاب کی کامیابی کے کئی ماہ بعد ریفرنڈم کے ذریعے کیا گیا۔۔۔
عزیز نے بہت اچھے نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور حقیقت بھی ہے کہ ہماری اپنی کمزوری شیعہ نسل کشی کی بنیادی وجہ ہے لیکن میرے خیال میں شیعہ نسل کشی کے حوالے سے یہ کہنا کہ تکفیری اور سلفی ٹولے کےہاتھوں شیعہ کشی ان کا فرقہ وارانہ اقدام نہیں ہے اور یوں فرقہ واریت کی یکسر نفی کرنا ایک سطحی فکر کا نتیجہ ہے جو اس کی مسلسل نفی کی وجہ سے اکثر اذہان میں ایک ارتکازی صورت پیدا کر چکی ہے۔البتہ یہ درست ہے کہ فقط فرقہ واریت نہیں ہے بلکہ دوسرے عوامل بھی کارفرما ہیں۔ 
محترم کی تعبیر سلب کلی کی صورت میں ہے :
"شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے سب سے پہلے جو بات کی جاتی ہے اور بالکل ٹھیک بھی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی قسم کا دینی معاملہ نہیں ہے، یعنی پاکستان میں شیعہ نسل کشی کو فرقہ واریت نہیں کہا جاسکتا۔۔۔۔"۔
بہتر تھا فرقہ واریت کی دقیق وضاحت کی جاتی اور پھر نفیا { بصورت سالبہ کلیہ} یا اثباتا اس بارے لب گشائی ہوتی۔
بہر حال ایک اچھی کاوش ہے جس پہ ہم دعا گو ہیں۔
ہماری پیشکش