1
0
Friday 4 Jan 2013 19:31

علامہ طاہر القادری کا انقلابی مستقبل

علامہ طاہر القادری کا انقلابی مستقبل
تحریر: ثاقب اکبر 
 
 شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری انقلابی طوفان کے ساتھ پاکستان کی سرزمین پر وارد ہوئے اور انھوں نے اعلان کیا کہ 14 جنوری کو وہ دو گنا طوفان کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔ ان کی بات کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا تھا، جب وہ یہ بات اپنے لاکھوں عقیدت مندوں سے ساتھ دینے کا اقرار لے کر کہہ رہے تھے۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان کے پرنٹ میڈیا کی ہر بڑی سرخی ان کے نام ہے اور ہر نیوز چینل کا پرائم ٹائم ان کے لیے وقف ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی ہر جماعت ان کے بارے میں محو گفتگو ہے۔ یہاں تک کہ عمران خان جنھیں بعض یار لوگ سونامی خان بھی کہتے ہیں، وہ بھی ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہے بغیر نہ رہ سکے۔
 
وہ مستقبل میں کیا کریں گے، ان کی حیثیت اس ملک کی سیاست میں کیا ہوگی، وہ کن تبدیلیوں کا منشا بنیں گے اور بالآخر وہ 14 جنوری کو اپنے قول کے مطابق 4 ملین افراد کو اسلام آباد کی سرزمین پر جمع کرسکیں گے یا نہیں؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے، نکتوں میں سے نکتے نکالے جا رہے ہیں۔ شیخ الاسلام کا ماضی بھی کھنگالا جا رہا ہے، ملکی اور ریاستی موضوعات کے علاوہ بعض اینکرز نے ان سے عالمی مسائل بھی پوچھ ڈالے ہیں۔ کئی ایک پارٹیوں نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے اور بعض نے عندیہ دیا ہے اور کچھ پارٹیاں انھیں روکنے کے لیے بھی سرگرم ہوچکی ہیں۔
 
ہم نے 23 دسمبر کا جلسہ بچشم خود دیکھا اور اس روز سے مسلسل جناب ڈاکٹر طاہر القادری کے افکار و شخصیت کا مطالعہ کرنے اور انھیں سمجھنے کے لیے طالب علمانہ کاوش کر رہے ہیں۔ ان کی کئی ایک کتب ہم پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔ ان کے ادارے کی متعدد اہم شخصیات سے ہمارے قریبی اور دوستانہ مراسم ہیں۔ مذہبی حلقوں میں ڈاکٹر صاحب کی ایک خاص شناخت ہے اور ملک سے باہر بھی پاکستانی و غیر پاکستانی عقیدت مندوں کا ان کا ایک حلقہ ہے۔ یہ سب کچھ بھی ہمارے پیش نظر ہے، لیکن کیا وہ مستقبل قریب میں پاکستان کی سیاست میں کوئی بڑا مثبت کردار ادا کر سکیں گے؟ ابھی تک کے غور و فکر اور جائزے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ افسوس ہماری امید پہلے کی نسبت کمزور ہوگئی ہے، اگرچہ ہماری نیک تمنائیں کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں۔ نیک تمناؤں پر سیف الدین سیف کا شعر یاد آیا:
ننھا سا مرے دل کا یہ کمزور سفینہ
طوفان الم کیا تجھے افسوس نہ ہوگا 
امید کے بجھتے چراغ اور مدھم ہوتی ہوئی روشنی کی کچھ وجوہات ہم اختصار سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ تحریک منہاج القرآن میں ہمارے دوست چاہیں تو ان میں سے ہمارے مشورے تلاش کرلیں اور چاہیں تو انھیں سنجیدہ لے لیں۔
 
ایم کیو ایم جو ایک خاص زبان بولنے والوں کے حقوق کے نام پر معرض وجود میں آئی اور بعدازاں پاکستان بھر میں تنظیم سازی کے لئے اس نے اپنے نام میں ایک مثبت تبدیلی کی، عملی طور پر جس طرز سیاست کو اپنائے ہوئے ہے، وہ پاکستان کی نَیّا کو پار نہیں لگا سکتا، ہاں البتہ برعکس نتیجہ نکل سکتا ہے، اگرچہ وہ جاگیردارانہ نظام کے خلاف ایک موثر آواز ہے۔ وہ ہر طرح کی حکومت کا حصہ رہی ہے، فوجی آمریت ہو یا سیاسی آمریت، کرپٹ حکمران ہوں یا ٹیکنو کریٹ، وہ ہر ایک سے خراج وصول کرتی رہی ہے۔ ایم کیو ایم کو بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں رہنے کا ہنر آتا ہے۔ قادری صاحب اور حکومت کے ساتھ بیک وقت رہ کر وہ آج بھی یہی کچھ کر رہی ہے۔ اس کے پچاس ہزار سے کم بھی افراد اگر 14 جنوری کے لانگ مارچ یا اجتماع میں موجود ہوئے تو منہاج القرآن کی قیادت اور مجمع ان کی گرفت میں ہوگا۔ شاید ’’پچاس ہزار‘‘ کا عدد بھی بہت زیادہ ہے۔
 
* مسلم لیگ (ق) اپنے سیاسی زوال کے آخری دور سے گزر رہی ہے۔ اس نے پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ چند قابل ذکر سیاسی چہرے اس میں باقی رہ گئے ہیں۔ اس پارٹی کی قیادت اور پوری پارٹی کے نمایاں افراد کا ماضی ان سارے دھبوں سے داغدار ہے، ڈاکٹر طاہر القادری نے جن سے پاکستان کی سیاست کو صاف اور پاک کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس پارٹی کی قیادت کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کی حمایت نے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کیا۔
 
* ماضی کے قصے اور داستانھائے پارینہ جو کچھ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں کہتی ہیں، ان سے صرف نظر بھی کر لیا جائے تو 23 دسمبر سے آج تک انھوں نے جو کچھ کہا ہے، اس میں بھی ان کے موقفات میں تغیرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے چاہنے والے ان تغیرات کو اصلاح بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن جدید و قدیم سب کچھ جب اکٹھا ہو جاتا ہے تو مجموعی تاثر کوئی اچھا نہیں پڑتا، البتہ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔ تازہ مثالوں میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے 90 دن کی مدت میں توسیع کے امکان پر 23 دسمبر کو بہت اصرار کیا اور بعدازاں مسلسل 90 دن کی عبوری حکومت کی مدت پر اصرار کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح آئندہ وہ کیا سیاسی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، اس حوالے سے بھی ان کے بیانات اور جوابات میں اتار چڑھاؤ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
 
* تمام سیاسی جماعتوں میں آپ کو متعدد قد آور شخصیات دکھائی دیں گی، اگرچہ پاکستانی سیاست میں زیادہ تر چند سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ تاہم تحریک منہاج القرآن میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کے تنظیمی کارکن تو دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کے بعد کی نمایاں قیادت ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔
 
* علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اسرائیل کے حق حکومت اور ریاست کی کھل کر حمایت کی ہے۔ انھوں نے فلسطین کے لیے اسی دو ریاستی نظریے کی وکالت کی ہے، جس کی حمایت امریکہ اور اس کے ساتھی کرتے چلے آئے ہیں، جبکہ فلسطین کی پاپولر جماعت حماس سمیت آزادی کی تحریکیں اسرائیل کی ریاست کو ایک مسلط اور ناجائز ریاست قرار دیتی ہیں، جسے استعماری قوتوں نے سرزمین فلسطین پر مسلط کیا ہے اور جس کے لیے پوری دنیا سے مہم چلا کر یہودیوں کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ گویا ڈاکٹر صاحب کو پاکستان پر اقتدار حاصل ہو گیا تو وہ بھی اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کرلیں گے۔ شاید ہماری یہ بات ڈاکٹر صاحب کی موجودہ جدوجہد میں کوئی قابل ذکر بات نہ سمجھی جائے، لیکن عالمی طاقتوں کے لیے ڈاکٹر صاحب کے ’’ایک قابل قبول اور معتدل اسلامی راہنما‘‘ ہونے کی ایک بنیادی وجہ ضرور قرار دی جاسکتی ہے۔
 
* 14 جنوری کے آنے میں ابھی کئی دن باقی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ان دنوں میں مزید اتار چڑھاؤ کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر عبوری حکومت کے وزیراعظم کے نام پر اگر حکومت، اپوزیشن اور پارلیمنٹ سے باہر تحریک انصاف کے درمیان ہم آہنگی ہوگئی تو ڈاکٹر صاحب کے لانگ مارچ کے خاصا شارٹ مارچ ہونے کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے معاملے میں پہلے ہی ایسا ہوچکا ہے۔
 
شاید تحریک منہاج القرآن یا پاکستان عوامی تحریک کے لیے ایک ہی نسبتاً مثبت راستہ بچ جائے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنے آپ کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروالے۔ رہی پاکستان میں ایک بڑی انقلابی تبدیلی کا سرچشمہ بننے کی بات، تو آرزو کرنے میں کیا حرج ہے۔
خبر کا کوڈ : 228012
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جن مذھبی تحریکوں اور تنظیموں کو طاھرالقادری صاحب ناجی نظر آرہے ہیں، وہ پہلے ان کے انقلاب کی تحقیق ضرور کرلیں، بقول مولف فلسطین پر طاھر القادری صاحب کا موقف شاید مقامی طور پر اتنا اہم نہ ہو، لیکن بین الاقوامی قوتوں کے نزدیک بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ہماری پیشکش