0
Friday 15 Mar 2013 18:40

پیپلز پارٹی کا منشور بھی آگیا

پیپلز پارٹی کا منشور بھی آگیا
تحریر: طاہر یاسین طاہر 

کتنا بے کار تمنا کا سفر ہوتا ہے
کل کی امید پہ ہر آج بسر ہوتا ہے
سیف الدین سیف کے اس شعر میں امیدوں کے ایک پورے سفر کی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ گذشتہ ہفتے پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیا تھا۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں اس امر کی جانب متوجہ رہنا چاہیے کہ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور کو زیادہ سے زیادہ دلکش اور جاذب بنا کر انتخابی اکھاڑے میں اترتی ہیں، اور پھر اسی منشور کی بنیاد پر ووٹر کو نئی امید دلائی جاتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنے منشور کی تیاری میں خوب محنت کی۔ آئندہ انتخابات کیلئے اعلان کردہ نئے منشور میں نیا سلوگن ’’روٹی،کپڑا اور مکان، علم، صحت، سب کو کام، دہشت سے محفوظ عوام، اونچا ہو جمہور کا نام‘‘ رکھا گیا ہے۔ 

منشور میں کہا گیا ہے کہ مزدور کی کم سے کم اجرت مرحلہ وار اٹھارہ ہزار کی جائے گی، جبکہ پیپلز پارٹی اگر آئندہ منتخب ہوئی تو بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا وعدہ پورا کرے گی۔ اس بات کو بھی منشور کا حصہ بنایا گیا کہ تعلیم اور روزگار کے مواقع یکساں بنیادوں پر فراہم کئے جائیں گے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے دی جانے والی امداد بڑھا کر دو ہزار کر دی جائے گی۔ اقلیتوں کے لیے قومی کمیشن بنایا جائے گا اور معیشت کی بہتری کے لیے خصوصی معاشی زون بنائے جائیں گے، نیز فاٹا کی خواتین کے لیے قومی اسمبلی میں دو نشستیں، جبکہ مزدوروں کو صوبائی اسمبلی میں چار اور قومی اسمبلی میں دو نشستیں دی جائیں گی۔
 
پیپلز پارٹی نے کراچی والوں کو بھی یاد دلایا کہ اگر وہ پھر اقتدار میں آئی تو کراچی کیلئے این ایف سی ایوارڈ میں خصوصی گرانٹ دے گی۔ بلوچستان کو قومی دھارے میں لایا جائے گا، موٹر ویز تعمیر کی جائیں گی۔ مخدوم امین فہیم نے منشور کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگلی مدت کے اختتام تک کوئلے، گیس اور متبادل انرجی سے بارہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔ سو صفحات پر مشتمل اس انتخابی کتابچے میں اور بھی امید افزا باتیں ہیں، مگر دہشت گردی اور کالعدم تنظیموں کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی نے جو مؤقف اپنایا وہ حوصلہ افزا ہے۔ 

ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ دہشت گردی اس وقت پاکستان کا اولین مسئلہ ہے اور جو سیاسی قیادت اس اہم قومی مسئلے سے قوم کو نجات دلانے کے لیے پر عزم ہے، عوم اس کی حمایت ضرور کریں گے۔ اگرچہ وفاقی حکومت کی گذشتہ پانچ سالہ کارکردگی بہ نظرِ ظاہر حوصلہ افزا نہیں ہے۔ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردی بڑھی ہے اور کوئٹہ سے لے کر گلگت بلتستان تک معصوم انسانوں کو شناخت کرکے ذبح کیا جاتا رہا۔ کراچی تو ایک ذبح خانے میں تبدیل ہو کر رہ گیا، مگر صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی سوائے لاشوں کی قیمت کا اعلان کرنے کے اور کچھ نہ کر سکی۔

لیکن ہمیں اس امر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی اکیلی اقتدار میں نہ تھی بلکہ یہ ایک مخلوط حکومت تھی، جس کا بیشتر وقت اپنے اتحادیوں کو منانے میں گزر گیا۔ دہشت گردی اگرچہ بڑھی ہے، ڈرونز حملوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن سوات آپریشن سے لیکر دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے دیگر اقدامات پیپلز پارٹی نے بعض ’’مقدس‘‘ اتحادیوں کی مخالفت کے باوجود اٹھائے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھٹو کی پارٹی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک واضح مؤقف رکھتی ہے۔ ن لیگ کے قائد نے اپنے منشور میں کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر دہشت گردی کیخلاف طاقت کے استعمال کے بجائے ’’مؤثر اور ہمہ گیر حکمتِ عملی بنائیں گے‘‘ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے معاشرے کو درپیش اس سنگین مسئلے کے حوالے سے بہت واضح مؤقف اختیار کیا اور پوری جرات سے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
 
نیز ججز اور گواہوں کو تحفظ دینے کو بھی اپنے منشور کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر مہم چلائی جائے گی۔ ن لیگ نے اپنے منشور میں کہا تھا کہ ہم نئی خارجہ پالیسی بنائیں گے، مگر اس حوالے سے کوئی واضح بات نہ کی تھی، جبکہ پیپلز پارٹی نے واضح کہا کہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات اچھے رکھے جائیں گے۔ میرا مقصود دونوں سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا تقابلی جائزہ نہیں، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو ایک ایسے وقت میں للکار رہی ہے، جب ملک کی کئی ایک سیاسی جماعتیں ان تنظیموں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کھیل، کھیل رہی ہیں۔

بارہا عرض کیا کہ ہم فیصلہ کن مرحلے میں ہیں، ہمیں یہ فیصلہ آج ہی کرنا ہوگا کہ دہشت گردوں سے ’’مذاکرات‘‘ کرنے ہیں یا ان کی سرکوبی؟ اور پیپلز پارٹی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کے ساتھ سختی سے نمٹے گی۔ مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ دہشت گرد بھی پی پی پی کے امیدواروں کو اپنے نشانے پر رکھیں گے۔ روٹی،کپڑا اور مکان، بڑا ہی دلفریب نعرہ ہے اور لوگ اس نعرے پر کھنچے چلے آتے ہیں، مگر آنے والے الیکشن میں ووٹر یہ ضرور دیکھے گا کہ دہشت گردوں کے حوالے سے کسی جماعت کا نقطہء نظر کیا ہے؟ وہ لوگ جو ریاست کے نامزد دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، آنے والا الیکشن ان کے لیے سخت جان ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 246808
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش